"FBC" (space) message & send to 7575

لاہور کی فضاؤں میں ادب کی چاشنی

الحمرا آرٹس کونسل لاہو رمیں تین روز تک خوب میلہ سجا رہا۔ کراچی سے آنے والے مہمان کراچی آرٹس کونسل کے صدرکی سربراہی میں پاکستان لٹریچر فیسٹیول کی صورت میں بہت کچھ لے کر لاہور میں وارد ہوئے۔ تین روزکے دوران مجموعی طور پر پچاس کے قریب سیشنز ہوئے جن میں علم وادب کے ایسے ایسے درواہوئے کہ شائقینِ علم وادب کی چاندی ہوگئی۔ اہلِ لاہورنے مہمانوں کادل کھول کراستقبال کیا۔ طویل عرصے کے بعد اتنی شاندار ادبی سرگرمیوں نے لاہور کی فضاؤں کو مہکا دیا۔ ہرطرف ہنستے مسکراتے چہرے‘ مختلف سیشنز کے دوران علم و ادب کے موتی بکھیرتے ہوئے دانشوروں کی گفتگو اور حیرت انگیز طور پر نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد میں شرکت بہت اُمید افزا دکھائی دے رہی تھی۔ نوجوانوں کی اتنی کثیر تعداد کو دیکھ کریہ تاثر بھی غلط ثابت ہو گیا کہ سوشل میڈیانے ہمار ے نوجوانوں کو ادب سے دور کردیا ہے۔ بات صرف یہیں تک محدودنہیں بلکہ نوجوانوں نے مختلف سیشنز کے دوران چبھتے ہوئے سوالات کے ذریعے یہ بھی ثابت کیا کہ وہ حالات سے پوری طرح آگاہی رکھتے ہیں۔ تب تو اور بھی حیرت ہوئی جب یہ دیکھا کہ جتنا رش علی ظفر کے سیشن یا دیگر میوزیکل ایونٹس میں تھا، لگ بھگ اتنی ہی بھیڑ ہمیں 'فریدسے فرید تک‘ اور 21ویں صدی کے پنجابی ادب کے نام سے ہونے والے سیشنز میں بھی دیکھنے کوملی۔ یہ دونوں سیشنزہم نے خودبھی اٹینڈکیے تھے جس دوران ہونے والی گفتگو سن کر مزہ آگیا۔ بلاشبہ پنجابی زبان بہت گہری اور شاندار زبان ہے۔ ہمیں آج تک اِس بات کی سمجھ نہیں آسکی کہ پنجابیوں کی بڑی تعداد اِسے بولنے سے گریز کیوں کرتی ہے۔ یہ امر حوصلہ افزا نظر آیا کہ نوجوانوں کی بڑی تعدادنے پنجابی زبان و ادب کے سیشنزمیں بھرپور شرکت کی۔ 10 فروری کو شروع ہونے والے اِس فیسٹیول سے ہم تینوں روز مستفید ہوتے رہے جس دوران پیشہ ورانہ اُمور کی انجام دہی کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اِس سب کے دوران مختلف ادیبوں اور دانشور وں کی گفتگو سنتے سنتے پتا ہی نہ چلا کہ کب تین دن گزر گئے۔
فیسٹیول کی سرگرمیوں کے دوران جو بھی گفتگو سننے کو ملی یا اس فیسٹیول میں شرکت کیلئے آنیوالے احباب کیساتھ گفت وشنید کا جو سلسلہ جاری رہا‘ اُس دوران ایک بات بہت شدت سے محسوس ہوئی‘ وہ یہ کہ ملکی حالات نے اکثریت کو مایوس کررکھا ہے۔ خصوصاً آئین و قانون کی بے توقیری نے ہر طبقے کو بے چین کررکھا ہے۔ حالات واضح طور پر اِس طرف اشارہ کررہے تھے کہ اب سب کو اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی لانا ہوگی ورنہ حالات مزید بگڑتے چلے جائیں گے۔ جذبات کی شدت بڑھتی جارہی ہے اور ایسا ہوبھی کیوں نا؟ کئی دہائیوں سے ہم نے آئین و قانون کو موم کی ناک بنا رکھا ہے۔ اِسی تناظر میں فواد حسن فواد کی کتاب ''کنجِ قفس‘‘ کی تقریبِ رونمائی کے دوران جو حقائق سامنے آئے‘ وہ خاصے تکلیف دہ تھے۔ 22ویں گریڈ کے اِس آفیسر کو سابقہ دورِ حکومت میں نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنانے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ انکار پر اُنہیں طویل عرصے تک پابندِ سلاسل رکھا گیا۔ طویل قید کے دوران بھی اُن پر کوئی الزام ثابت نہ ہو سکا۔ اِس دوران جو کچھ اُن کے اہلِ خانہ کو بھگتنا پڑا‘ وہ ایک الگ داستان ہے۔ یہ تو صرف ایک مثال ہے۔ اب تو ہمارے معاشرے میں جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا اصول اپنی جڑیں گہرائی تک سرایت کر چکا ہے۔ جو اشاروں پر نہ چلے‘ جیل کی سلاخیں اور تھانے کچہریوں کے چکر ہی اس کا مقدر ٹھہرتے ہیں۔ عجیب وغریب صورت حال پیدا ہوچکی ہے اور کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ آخر ملک میں ہوکیا رہا ہے۔
معروف دانشور انورمقصود کی گفتگوبھی اِسی کیفیت کے گرد گھومتی محسوس ہوئی۔ ایسے دانشوروں کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنی بات اس انداز سے کہتے ہیں‘ الفاظ کا چناؤ کچھ ایسی خوبصورتی سے کرتے ہیں کہ ہنڈیا اپنے کناروں سے باہر نہیں آپاتی۔ انور مقصود یوں بھی آج کل کافی جارحانہ موڈ میں دکھائی دے رہے ہیں۔ اپنی گفتگو کے دوران اُنہوں نے جس پیرائے اور انداز میں پولیس کی چیرہ دستیوں کو استعارے کے طور پر استعمال کیا‘ وہ اُنہی کا کما ل تھا۔ پنجاب پولیس سے متعلق انہوں نے جو کہاوہ توخوب وائرل ہو چکا ہے‘ انہیں اِس جملے پر بھی غیرمعمولی داد ملی جب یہ کہا کہ ایک طرف حکومت یہ کہتی ہے کہ وہ ترکیہ اور شام کے زلزلہ زدگان کے ساتھ کھڑی ہے لیکن دوسری طرف وہ مہنگائی میں پستے ہوئے عوام کے ساتھ‘ بیٹھی ہوئی بھی دکھائی نہیں دے رہی۔ دیکھا جائے تو ان چند جملوں میں اُنہوں نے پوری ملکی صورتحال کی عکاسی کردی۔ ترکیہ کے زلزلہ زدگان کے ساتھ کھڑے ہونے کا جذبہ لائقِ تحسین ہے لیکن ایک اگر سیلاب کی پیدا کردہ مصیبتیں بھگتنے والے متاثرین پر بھی نظر ڈال لی جائے تو کیا ہی اچھا ہو۔ کئی نوجوانوں کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ شاید حکومت خود ہی سیلاب زدگان کی بحالی میں زیادہ سنجیدہ نہیں۔ اِس تھیوری کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ پھر ہمارے پاس بیرونی دنیا کو دکھانے کے لیے کچھ نہیں رہ جائے گا، دیگر ممالک متاثرین کی بحالی کا عمل مکمل ہوتا دیکھ کر شاید امداد و قرضوں سے ہاتھ کھینچ لیں۔ واللہ اعلم اس تھیوری میں کتنی صداقت ہے؛ البتہ کئی معزز مہمانوں اور دانشوروں کی گفتگو میں اِسی طرح کے خدشات کی جھلک دکھائی دی‘ جو یہ واضح کررہی تھی کہ ہمارے ہاں کیسی کیسی سوچیں پروان چڑھ چکی ہیں۔ ایسے بیانات پر شرکا کا غیرمعمولی جوش وخروش یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی تھا کہ وہ اِن باتوں سے مکمل اتفاق کرتے ہیں۔ جب ملک کے دانشورحلقے بھی حالات سے مایوس دکھائی دینے لگیں تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے؟ وہ افراد‘ وہ طبقات جو بیشتر صورتوں میں اُمید ہی کی باتیں کرتے ہیں‘ قوم کی رہنمائی کرتے ہیں اور اُنہیں مایوسی سے بچاتے ہیں جب وہ خود ہی مایوس ہوجائیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ حالات حد سے زیادہ خراب ہوچکے ہیں۔ سب کو یہی فکر کھائے جارہی تھی کہ ملک کا کیا بنے گا۔ آف دی ریکارڈ گفتگو میں بھی متعدد احباب کی طر ف سے یہی کہا گیا کہ سب سے زیادہ مایوسی کی بات یہ ہے کہ ہم ابھی تک اپنی سمت درست کرنے کیلئے تیار دکھائی نہیں دیتے۔
ایسی ادبی محافل اور سرگرمیوں کی سب سے بڑی خوبی یہی ہوتی ہے کہ اِن میں ایک دوسرے کیساتھ مل بیٹھنے کا موقع ملتا ہے۔ ایک دوسرے کے خیالات سننے کو ملتے ہیں‘ باہمی روابط مضبوط ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے اب ہمارے ہاں ایسی سرگرمیاں محدود ہوچکی ہیں۔ اِس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ اب ہمارے اندر مخالفانہ باتوں کو سننے کا حوصلہ نہیں رہا۔ اِسی لیے تو معاشرہ پُرتشدد ہوتا جارہا ہے‘ ایک دوسرے سے دوریاں بڑھ رہی ہیں۔ ا ِن حالات میں کراچی آرٹس کونسل نے احمد شاہ کی سرپرستی میں جو میلہ سجایا‘ یقینا اس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ الحمرا ٓرٹس کونسل کی طرف سے بھی بھرپور تعاون کیا گیا اور اِنہی ملی جلی کوششوں کے باعث اہالیانِ لاہور ایک شاندار ادبی میلے سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ اگر معروف فنکار سہیل احمد (عزیزی) کی گفتگو کا تذکرہ نہ کیا جائے تو شاید لٹریچر فیسٹیول کا تذکرہ نامکمل رہے گا۔ سہیل احمد بھی کیا باکمال شخصیت ہیں۔ ان کی سب سے بڑی انفرادیت یہ ہے کہ اُنہوں نے ہمیشہ صاف ستھری کامیڈی کی ہے۔ آج ہمارے سٹیج ڈراموں کا جو حال ہوچکا ہے‘ اِس کی ایک بڑی وجہ سہیل احمد جیسے عظیم فنکاروں کا سٹیج سے الگ ہو جانا ہے۔ ان کی گفتگو میں شرکا کی طرف سے گہری دلچسپی کا اظہار دیکھنے میں آیا۔ امجد اسلام امجد کی کمی اس میلے میں بہت شدت سے محسوس کی گئی۔ انہیں دس فروری کو اس فیسٹیول کی ابتدائی تقریب میں شریک ہونا تھا لیکن اجل نے اُنہیں مہلت نہ دی۔ اِس کمی کو کسی حد تک پورا کرنے کیلئے سٹیج کی ایک کرسی پر امجد اسلام امجد کی تصویر رکھی گئی تھی۔ گاہے گاہے امجد اسلام امجد صاحب کو یاد کیا جاتا رہا اور احباب اُن کی جدائی پر مغموم نظر آئے۔ مجموعی طور پر پاکستان لٹریچر فیسٹیول ایک بہت ہی شاندار ادبی سرگرمی تھی۔ اِس فیسٹیول کے انعقاد سے لاہور کی مہکتی ہوئی فضائیں اِس بات کا پتا بھی دیتی رہیں کہ اہلِ لاہور صحیح معنوں میں علم و ادب کے دلدادہ ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں