"FBC" (space) message & send to 7575

بویاہوا کاٹنا ہی پڑتا ہے

خبردار! اپنی ''کرنیوں‘‘ کا الزام کسی دوسرے کے سر مت تھوپیں۔ اپنی کوتاہیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرا کر اپنی جان مت چھڑائیں۔ آج ہمارے ملک کی جو صورتحال ہو چکی ہے‘ اس کے لیے صرف اور صرف ہم ذمہ دار ہیں۔ بار بار دوسروں کے سر الزام تھوپ کر اپنی جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔ ہر حادثے پر یہ کہہ دینا کہ یہ سب ہمارے ملک دشمنوں کا کیا دھرا ہے‘ اپنی ذمہ داریوں سے فرارسے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ ہروقت دوسروں کے لتے لینے رہنا اور اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت تک گوارہ نہ کرنا‘ بس یہی کچھ تو ہمارے پلے رہ گیا ہے۔ کیا ہم نہیں دیکھ رہے کہ آج ہم اپنی ہی کرتوتوں کی وجہ سے چند ارب ڈالر کی خاطر مکمل طور پر آئی ایم ایف کے سامنے لیٹ چکے ہیں۔ آئی ایم ایف بھی ہے کہ مسلسل ناک سے ہماری لکیریں نکلوائے جارہا ہے۔ عالم یہ ہو چکا کہ عالمی مالیاتی ادارے کے حکم پر اب گیس کی قیمت میں 17سے 112فیصد تک کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ اس سے پہلے بجلی کی قیمت بھی بڑھائی جا چکی ہے۔ گیس مہنگی‘ بجلی مہنگی‘ سبزیاں مہنگی اور اگر کچھ سستا بچا ہے تو وہ ہماری عزتِ نفس ہے جسے ہم کسی بھی وقت داؤ پر لگانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ کبھی تو طاقتوروں کے مطالبے پر اور کبھی اپنے مفادات کے لیے۔ ایک سابق حکمران نے جس طرح افغان جنگ کے دوران پورے ملک کو بارود کے ڈھیر پر کھڑا کردیا تھا‘ اس کے دھماکے آج بھی سنے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے حکمران نے امریکہ بہادر کے مطالبے پر ایک مرتبہ پھر ملک کو افغان جنگ میں دھکیل دیا اور آج ہم ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم کی صورت بنے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دوغلے رویوں کے حامل حکمرانوں اور اقوام کیساتھ ایسا ہی ہوتا ہے جو کہتی کچھ ہیں اور کرتی کچھ ہیں۔ جب صرف مفادات کا کھیل باقی رہ جائے تو پھر اس بات کی بھی کوئی پروا نہیں رہتی کہ کون ہمارے بارے میں کیا کہتا ہے۔ پھر تو بس اسی بات کی فکر رہ جاتی ہے کہ جیبیں کیسے بھرنی ہیں۔ اس مقصد کے لیے جھوٹ کا سہارا لینا تو اب جیسے معمول بن چکا ہے۔
صبح سے شام تک جھوٹ کا ایسا کاروبار ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ آج سچ اور جھوٹ کی تمیز کرنا مشکل تر ہو چکا ہے۔ آج بھی وہی گردان کہ جانے والے ملک کو لوٹ کر کھا گئے ہیں اور موجودہ حکومت تو جانے والوں کا 'گند‘ صاف کرنے میں مصروف ہے۔ اس کیساتھ ہی یہ بھی سنا دیا جاتا ہے کہ جانے والوں کی پھیلائی ہوئی گندگی صاف کرنے میں ابھی بہت وقت صرف ہوگا۔ آخر کتنا وقت صرف ہوگا؟ اتنا کہ جب تک عام آدمی کے لیے زندگی کی ڈور تھامے رکھنا ناممکن نہ ہو جائے؟ اتنا کہ جب تک ہمارے تمام اثاثوں کا سودا نہ کر لیا جائے؟ آخر کتنا وقت چاہیے؟ بارہ‘ تیرہ جماعتی اتحاد کو ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے آٹھ‘ دس ماہ ہو چلے ہیں لیکن مجال ہے کہ حالات میں رتی برابر بھی بہتری آئی ہو۔ آخر کب تک جانیوالوں کو الزام دے کرجان چھڑائی جاتی رہے گی۔ حالت یہ ہے کہ دوسروں کے سامنے ہم بھیک کے لیے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں اور ادھر ہم نے 83رکنی کابینہ پال رکھی ہے۔ اتنی بڑی کابینہ بنانے کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ اتحادی جماعتوں کو حصہ بقدر جثہ چاہیے اور اسی چکر میں ہم پوری دنیا میں مذاق بن کررہے گئے ہیں۔ ایسے ہوتے ہیں قوموں کے چلن؟ حد ہوتی ہے ہر بات کی لیکن یہاں تو جیسے ہر حد ہی ختم ہو چکی ہے۔ ایک طرف یہ کہنا کہ حالات بہت مشکل ہیں اور دوسری طرف اپنے خلاف قائم مقدمات ختم کراتے چلے جانا۔ اپنے منجمد اثاثے بحال کراتے چلے جانا۔ اندھوں کو بھی دکھائی دے رہا ہے کہ قومی مفادات کے نام پر کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ ایک طرف ملک ڈیفالٹ ہونے کے کنارے پر ہے اور دوسری طرف ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ ہی ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ صبح سے شام تک ایک تماشہ لگا رہتا ہے۔ جس نے بات کی‘ جھٹ سے بغاوت کا مقدمہ درج ہوگیا۔ بغاوت کے الزام کو تو جیسے ہم نے مذاق سمجھ لیا ہے۔ اسی چکر میں قوم کو بھی شش و پنج میں مبتلا کر رکھا ہے اور کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آرہا۔ جب آج والے چلے جائیں گے تو پھر یہ بھی وہی گردان شروع کردیں گے کہ ہم تو بے بس تھے‘ اصل حکمرانی تو کسی اور کی تھی۔
وہی گردان جو آج کل عمران خان صاحب جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آج انہیں یاد آرہا ہے کہ حکومت ذمہ داری تو ان کی تھی لیکن اصل میں اختیار کسی اور کے پاس تھا۔ موصوف کا دعویٰ ہے کہ اگر انہیں ساڑھے تین برسوں میں آدھی طاقت بھی مل جاتی تو وہ شیر شاہ سوری کا مقابلہ کر لیتے۔ یہ بھی کہ معاشرہ تبھی خوشحال ہوتا ہے جب قانون کی حکمرانی ہوتی ہے اور وغیرہ وغیرہ۔ حد ہوگئی کہ اگر آپ اتنے ہی بے بس تھے تو پھر ساڑھے تین برسوں تک حکومت سے چپکے کیوں رہے؟ کیا آپ نہیں جانتے تھے کہ آپ کو لایا ہی اس شرط پر گیا تھا کہ آپ ہرحکم پر بلاچون و چرا عمل کریں گے؟ اگر آپ کو اپنے اشاروں پر نہ چلانا ہوتا تو پھر جنہیں ہٹایا گیا تھا‘ ان میں کیا برائی تھی؟ آج یاد آرہا ہے کہ ہم تو بے بس تھے۔ حال دیکھیں کہ اتنی بے بس حکومت کو قائم رکھنے کے لیے بھی ہروہ حربہ استعمال کیا گیا جو ممکن ہو سکتا تھا۔ آج کوئی یہ پوچھے کہ اگر قانون کی حکمرانی سے ہی معاشرے خوشحال ہوتے ہیں تو پھر آپ کم از کم اس حوالے سے تو کچھ کر ہی سکتے تھے۔ قانون کی حکمرانی کے لیے آپ نے کون سے اقدامات اٹھائے؟ ہر شخص چیخ رہا ہے کہ قانون کی بالادستی کو یقینی بنائے بغیر اس ملک میں بہتری نہیں آسکتی لیکن عملاً حکومتوں کی طرف سے اس حوالے سے کوئی اقدام نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔ ایسا کوئی قدم اٹھایا بھی نہیں جائے گا‘ کیوں کہ یہی نظام انہیں سوٹ کرتا ہے۔ اس کی ایک مثال آئی ایم ایف کی طرف سے سرکاری افسران کے اثاثے ظاہر کرنے کی صورت میں بھی سامنے آئی ہے۔ آپ خود ہی جائزہ لے لیجئے گا کہ کن کن شعبوں کو اس شرط سے مبرا قرار دیا گیا ہے۔ یہ ہے قانون کی بالادستی کی باتیں اور عملی صورتحال۔ یہاں تو ہم اپنے سیاسی مفادات کے لیے مذہب کا بھی بے دریغ استعمال کرنے سے باز نہیں رہتے۔ کون نہیں جانتا کہ ہمارے ملک میں غیر جمہوری حکمرانوں نے جس طرح اپنے مفادات کے لیے شدت پسندی کو فروغ دیا‘ اس کے مظاہر گاہے گاہے نظر آتے رہے ہیں۔
آج اگر ہمارا ملک پوری دنیا میں تشدد پسندانہ تشخص کا حامل گردانا جاتا ہے تو اس کے لیے صرف اور صرف ہم خود ذمہ دار ہیں۔ آج ہمیں اپنی ہی بوئی ہوئی فصل کاٹنی پڑ رہی ہے تو پھندے کے لیے گردنیں تلاش کرتے پھررہے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال پنجاب کے شہر ننکانہ صاحب کے ایک قصبے میں دیکھنے میں آئی ہے۔ جہاں ایک اور نوجوان کو مقدس اوراق کی توہین کے الزام میں حوالات سے نکال کر پہلے سڑکوں پر گھسیٹا گیا‘ پھر اسے قتل کردیا گیا۔ چند روز قبل پولیس کو اطلاع ملی کہ ایک شخص پر مقدس اوراق کی توہین کا الزام ہے۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر ملزم کو گرفتار کرنے کے بعد حوالات میں منتقل کردیا۔ اس کے بعد وہی کچھ ہوا جو کچھ ایسے کیسز کے دوران بیشتر اوقات ہوتا آیا ہے۔ یہ بات پھیلنے کے بعد ایک مشتعل ہجوم نے تھانے کا گھیراؤ کرکے ملزم کو حوالات سے نکال کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر اسے قتل کر دیا۔ یہ انہی واقعات کا تسلسل بھی قرار دیا جا سکتا ہے جوگزشتہ سال سیالکوٹ میں جنوری کے دوران سری لنکن باشندے اور پھر اُسی سال فروری میں ضلع خانیوال میں پیش آئے تھے۔ کیا کیا جائے کہ اب سوچ یہ ہو چکی کہ بس اپنے مفادات پورے ہونے چاہئیں۔ اس کیلئے چاہے عوام کے پیٹ پر پتھر بندھوانا پڑیں یا اور انہیں مروانا پڑے‘ کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ جب نوبت یہاں تک پہنچ جائے تو پھر قوموں کا وہی حال ہوتا ہے جو آج ہمارا ہو چکا ہے۔ پاکستان بنانے والوں نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ان کی تخلیق کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا جائے گا۔ سو آج اگر ہم اپنا ہی بویا ہوا کاٹ رہے ہیں تو پھر اس میں گلے شکوے کیسے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں