"FBC" (space) message & send to 7575

کاش

اپنی زبوں حالی کے رونے روتے روتے عمر بیت چلی ہے لیکن حالات ہیں کہ بہتر ہونے ہی میں نہیں آرہے۔ بس قصے کہانیاں ہیں جنہیں سن کر سر دھنتے رہیں۔ بے سروپا باتیں ہیں جن کا کوئی ثبوت ہے نہ حوالہ۔ نعروں اور باتوں کی ایسی افیم کہ حواس بحال ہی نہیں ہو پا رہے۔ مجال ہے کبھی خودکو حقیقت کا سامنا کرنے کے لیے تیار کیا ہو۔ سائنس اور ٹیکنالوجی سے کوئی دلچسپی ہے نہ معاشرت کی کوئی فکر۔ صرف ہم ہی کیا‘ کم و بیش سبھی مسلم ممالک کا یہی حال ہے۔ یہ دکھ مزید گہرا ہو جاتا ہے جب ہم ان قوموں کو ہر لحاظ سے خود سے آگے دیکھتے ہیں جنہیں ہم متعدد حوالوں سے خود سے کمتر سمجھتے ہیں۔ اسی تناظر میں اب ایک نئی بات سامنے آئی ہے جس نے معاشرت کی مرکزی اہمیت کو پھر سے اجاگر کیا ہے۔ یہ بات اقوام متحدہ کے جاری کردہ ''خوشحالی رپورٹ کارڈ‘‘ کی صورت سامنے آئی ہے۔ اس رپورٹ میں جائزہ لیا گیا ہے کہ کون سے ممالک بچوں کی پرورش کے حوالے سے بہترین ہیں۔ رپورٹ میں دنیا کے پانچ ایسے بہترین ممالک کی فہرست تیار کی گئی ہے جہاں بچے دنیا کے دیگر ممالک سے کہیں زیادہ محفوظ ہیں اور انہیں بہترین ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔ حسبِ روایت جن پانچ ممالک کو اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے وہ سب کے سب ترقی یافتہ اور زیادہ تر یورپی ممالک ہیں۔ آئیے اس فہرست کا جائزہ لیتے ہیں۔
اس فہرست میں سرِفہرست جاپان کو رکھا گیا ہے۔ یہاں بچوں کی ابتدائی تعلیم کا نظام محض بچوں کی اخلاقیات کو بہتر بنانے اور انہیں ملکی ثقافت سکھانے کے گرد گھومتا ہے۔ صفائی ستھرائی کی تربیت دینا بھی جاپان کے بنیادی نظامِ تعلیم کا اہم حصہ ہے۔ اسی تربیت کے باعث آج جاپان دنیا کا سب سے صاف ستھرا ملک سمجھا جاتا ہے۔ بچوں کو شروع ہی سے ملکی قوانین کی پابندی کرنا سکھایا جاتا ہے‘ نتیجہ یہ کہ وہاں بچوں تک میں قوانین کی پابندی کرنے کا رحجان بہت زیادہ ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ جاپان میں قتل کی شرح ایک لاکھ میں صرف 0.2فیصد ہے۔ جاپانی بچے بلاخوف و خطر سکول آجا سکتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ محفوظ ماحول میں کھیل کود سکتے ہیں کیونکہ اُنہیں کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ اور تو اور جاپانی کمپنیاں اپنے ملازمین کو بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کے لیے تنخواہ کے ساتھ لمبی چھٹیاں دینے کے لیے بھی تیار رہتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ جاپان کا خاندانی نظام آج بھی بہت مضبوط ہے اور پورا ملک امن کا گہوارہ دکھائی دیتا ہے۔
اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ایک ایسا یورپی ملک ہے‘ جس کے بارے میں ہمارے ہاں لوگ بہت کم جانتے ہوں گے۔ ایسٹونیا نام کا یہ ملک یورپ کے شمال میں واقع ہے۔ اس ملک میں امریکہ‘ کینیڈا‘ برطانیہ وغیرہ جیسے ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ سرسبز و شاداب علاقے موجود ہیں جہاں بچے پوری آزادی کے ساتھ کھیل کود سکتے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یہاں کے بچے کسی بھی دوسرے ترقی یافتہ ملک کے مقابلے میں کم سے کم فضائی اور صوتی آلودگی کا سامنا کرتے ہیں۔ یونیسیف کے تعلیمی ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ ایسٹونیا کے بچوں میں ریاضی‘ ادب اور سائنس تعلیم کے حصول کی صلاحیتیں ایشیا سے باہر‘ کسی بھی ملک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ ظاہری بات ہے کہ جب بچوں کو اتنا اچھا ماحول ملے گا تو تعلیمی میدان میں بھی ان کی کارکردگی بہت بہتر ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ ایسٹونیا کا اوسط پانچ سال کی عمر کا بچہ اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے امریکی اور برطانوی بچوں سے کہیں آگے نظر آتا ہے۔ ایسٹونیا میں ہر حاملہ خاتون کو سودن تک کی چھٹی اور اس کے شوہر کو ایک ماہ کی چھٹی مل سکتی ہے۔ اس کے بعد بھی میاں بیوی کو تنخواہ کے ساتھ 475دنوں کی چھٹی مل سکتی ہے۔ یہ سلسلہ تب تک جاری رہتا ہے جب تک بچہ تین سال کا نہیں ہو جاتا۔ ایسی اور بھی بہت سی سہولتیں ہیں جو بچوں اور ان کے والدین کو فراہم کی جاتی ہیں۔
اس فہرست میں تیسرا ملک سپین ہے جہاں کے بچوں کی ذہنی صلاحیت کا معیار انتہائی شاندار قرار دیا گیا ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ سپین میں بچوں کے لیے دوست بنانا انتہائی آسان ہوتا ہے اور سپین کی اکثریتی آبادی ہمیشہ خوش دکھائی دیتی ہے۔ یہاں بھی بچوں کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کو بھی بے شمار سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں جن کے باعث ان کے لیے اپنے بچوں کی پرورش کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔
فن لینڈ بھی بچوں کی پرورش اور رہائش کے لیے بہترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ بچوں کے حوالے سے اچھی پالیسیوں کی وجہ سے یہاں بچوں میں اموات کی شرح انتہائی کم ہے۔ بچے کی پیدائش کے وقت والدین کو تنخواہ کے ساتھ آٹھ ہفتوں کی چھٹی ملتی ہے تاکہ وہ بچے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزار سکیں۔ بچوں کی پیدائش سے کم از کم 180روز پہلے ہی والدین اور ہونے والے بچے کو ہیلتھ انشورنس کا تحفظ حاصل ہو جاتا ہے۔ بہترین ماحول کی فراہمی کے لیے یہاں نئے جنگلات لگانے پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں سرسبز و شاداب مقامات کی بھرمار نظر آتی ہے جہاں بچے اور بڑے موج مستی کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ماہرین اس بات پر پوری طرح متفق ہیں کہ سرسبز و شاداب ماحول ذہنی تناؤ کو دور کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے‘ سو یہاں کے باشندوں میں ذہنی دباؤ نہ ہونے کے برابر ہے اور یہی حالات بچوں کے حوالے سے بھی ہیں۔
اس فہرست میں پانچواں نام نیدر لینڈ کا ہے جسے ہالینڈ بھی کہا جاتا ہے۔ یورپ کے شمال مغرب میں واقع یہ ایک چھوٹا سا ملک ہے جو پھولوں کی کاشت کے حوالے سے پوری دنیا میں شہرت رکھتا ہے۔ یہاں پیدا ہونے والے پھول پوری دنیا میں برآمد کیے جاتے ہیں۔ جیسے یہاں پھولوں کی کھیتی کی حفاظت کی جاتی ہے‘ ویسے ہی یہاں بچوں کو بھی پھولوں سے ہی تشبیہ دی جاتی ہے۔ رپورٹ میں ایک سروے کا حوالہ دیا گیا ہے جس کے مطابق 15سال کی عمر کے 90 فیصد یعنی ہر دس میں سے نو بچے اپنے ماحول سے انتہائی مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔ اس ملک میں بچوں کے سماجی رابطوں پر بہت توجہ دی جاتی ہے تاکہ ان میں ایک دوسرے سے میل ملاقات کا جذبہ بیدار رہے۔ بچے کی پیدائش پر والدین کو مع تنخواہ طویل رخصت دی جاتی ہے تاکہ وہ نوزائیدہ کی بھرپور دیکھ بھال کر سکیں۔
آخر میں وہی رونا دھونا جو شاید ہمارے نصیبوں میں لکھا جا چکا ہے یا ہم نے خود ہی اپنی تقدیر کو سیاہ کر لیا ہے۔ ہمارے یہاں بچہ جب تک گھر سے باہر رہتا ہے تب تک والدین کی جان پر بنی رہتی ہے۔ نہ کوئی قانون‘ نہ بچوں کی تربیت کا کوئی لائحہ عمل‘ یہ اسی طرزِ عمل کا نتیجہ ہے کہ اپنے وزن سے بھاری بیگ اٹھانے کے باوجود ہمارے بچوں میں معاشرت کی تربیت دور دور تک نظر نہیں آتی۔ ہم نے اپنے بچوں کو نمبروں کی ریس میں ایسے الجھا دیا ہے کہ بیچاروں کا بچپن ہی کہیں کھو گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں سالانہ بنیادوں پر اَن گنت بچے اور بچیاں جنسی استحصال کا نشانہ بنتے ہیں۔ ہر چھ میں سے ایک بچے کی شادی کم عمری ہی میں کردی جاتی ہے۔ لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ سے زائد بچے اور بچیاں کم عمری کی شادی کا شکار ہوتے ہیں جس میں زیادہ تعداد بچیوں کی ہے۔ کم و بیش ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ یہ ہے ہمارا مجموعی طرزِ عمل اور یہ ہیں ہمارے بچے جن کے حال کی ہمیں کوئی فکر ہے اور نہ ہی مستقبل کی۔ افسوس کہ دیگر مسلم ممالک میں بھی بچوں کے حالات مثالی نہیں ہیں۔ کاش کبھی تو مسلم ممالک کو اچھے حوالوں سے یاد کیا جائے۔ کاش کسی رپورٹ میں بتایا جائے کہ فلاں مسلم ملک میں انصاف کی صورتحال بہترین ہے۔ فلاں ملک میں آزادیٔ اظہارِ رائے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ فلاں ملک میں بچوں کے حقوق کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔ ان کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ افسوس کہ جب بھی ہمارا ذکر ہوتا ہے‘ منفی حوالوں سے ہی ہوتا ہے لیکن پھر بھی ہمارے دعوے آسمان کو چھوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں