"FBC" (space) message & send to 7575

حالات مشکل تر

ہر طرف ایک پریشانی سی پریشانی ہے‘ کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔ مہنگائی نے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل بنا دیا ہے۔ تمام تر معاشی اشاریے تنزلی کی طرف گامزن ہیں۔ معاشی مشکلات حل کرنے کے لیے اپنوں اور غیروں سے امداد مانگنے کا سلسلہ بھی زوروشور سے جاری ہے۔ ایسے ایسے حقائق سے پردہ اُٹھ رہا ہے کہ عقل و دانش جواب دے چکی ہے۔ یاالٰہی! ہم سے کون سا جرم سرزد ہوگیا ہے جو ہمارے ایسے حالات ہوگئے ہیں۔ ہماری گاڑی کسی ایسی سرنگ میں داخل ہو چکی ہے جس کا کوئی سرا سجھائی نہیں دے رہا۔ اِس سب کے باوجود شعبدہ بازی کا کھیل ہے کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا۔ ہرروز سیاسی مخالفین کے خلاف نت نئے مقدمات در ج کرلیے جاتے ہیں‘ جس کے بعد پولیس اِن مقدمات کی تفتیش میں اور عدالتیں اِس حوالے سے دائر کی جانے والی درخواستوں کی شنوائی میں مصروف ہوجاتی ہیں۔ دن رات یہی تماشا جاری رہتا ہے۔ ہوتے ہوتے عدالتوں میں اب سیاسی مقدمات کی ایسی بھرمار ہوچکی ہے کہ پہلے سے پریشان دیگر سائلین کے لیے انصاف کا حصول مزید مشکل ہوچکا ہے۔ سیاسی مقدمہ بازی سے جان چھوٹے تو عام سائلین کی باری آئے جو ہرروز اپنی جوتیاں چٹخاتے ہوئے آتے ہیں اور پھر مایوس لوٹ جاتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس تیرہ جماعتی اتحاد کو کیا اسی مقصد کے لیے اقتدار میں لایا گیا تھا؟کہاں گئے وہ وعدے جو اقتدار میں آنے سے پہلے کیے گئے تھے۔ وہی گھسی پٹی سی باتیں اور دعوے‘ جو آج تک سنتے چلے آئے ہیں۔ کہیں پر کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دے رہی۔ حکومتیں بدل جاتی ہیں مگر عوام کے حالات نہیں بدلتے۔ بس اتنا ہوتا ہے کہ کردار بدل جاتے ہیں‘ باقی سب کچھ ویسے کا ویسا رہتا ہے۔ سب کسی پتلی تماشے میں ناچتی ہوئی کٹھ پتلیاں دکھائی دے رہے ہیں اور ان کا سب سے بڑا مقصد اقتدار سے چمٹے رہنا یا اقتدار کا حصول ہی رہ گیا ہے۔ اگرچہ ہمارے ملک کے حالات کبھی بھی مثالی نہیں رہے لیکن جو صورتحال اب دیکھنے میں آرہی ہے‘ اُس کی بابت کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ البتہ ایک بات ضرور ہے کہ اب جھوٹے نعروں اور دعووں کا چورن بکتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا‘ جو ماضی قریب تک خوب بکا کرتا تھا۔ اب سرِعام سوالات اُٹھائے جارہے ہیں اور مختلف اطراف میں انگلیاں اُٹھ رہی ہیں کہ آخر اشرافیہ اور مقتدر حلقوں سے تعلق رکھنے والے اب تک کرتے کیا رہے ہیں؟
یہ ایسے ہی سوالات کا نتیجہ ہے کہ اب بہت سے حقائق سے پردہ اُٹھتا جا رہا ہے۔ وہ کہ سوال پوچھنے پر جن کی پیشانیوں پر شکنیں آجاتی تھیں‘ آج اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ ایسی آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں کہ اعتماد کو بحال کرنے کے لیے کچھ اہم سابق شخصیات کے خلاف کسی بھی وقت کارروائی کا ڈول ڈالا جاسکتا ہے۔ جن کے خلاف کارروائی کرنے کا مژدہ سنایا جارہا ہے‘ اُن کے ایسے ایسے کارنامے سامنے آئے ہیں کہ یقین کرنا مشکل ہورہا ہے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ انتہائی اہم عہدوں پر فائز شخصیات پیسے کی خاطر اتنا گر سکتی ہیں۔ دیکھا جائے تو جس ملک میں سربراہِ حکومت یہ اعتراف کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہ کرے کہ وہ چند ہزار ڈالر کے عوض بندے امریکہ کے حوالے کرتا رہا ہے‘ وہاں کیا کچھ نہیں ہو سکتا۔وہ جنہوں نے سابق وزیراعظم عمران خان کو 'صادق اور امین‘ قرار دیاتھا، آج کہہ رہے ہیں کہ اُنہوں نے ''مکمل طور پر‘‘ صادق اور امین قرار نہیں دیا تھا۔ یہ بھی تسلیم کیا جارہا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اُن سے کچھ فیصلے غلط سرزد ہوئے ہوں مگر اپنے حصے کا سچ اُن کے بعد سامنے آئے گا۔ سچ کو سامنے لانے کیلئے دنیا سے رخصتی کا انتظار کیوں کیا جارہا ہے؟ ابھی سچ بتا دیا تو کیا فرق پڑے گا؟ کم از کم جیتے جی اپنی غلطیوں کو بیان کرنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا۔ یہ مشورہ اُن سب کیلئے ہے جنہوں نے اِس ملک کو ان حالات تک پہنچانے میں کردار ادا کیا ہے۔ یہ اِنہی کرداروں کا نتیجہ ہے کہ آج رضاربانی یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کن شرائط پر معاہدے کیے جا رہے ہیں‘ قوم کو آگاہ کیا جائے۔ اندازہ لگا لیجئے کہ کس قدر خوفناک صورت حال پیداہوچکی ہے، لیکن اہلِ حکومت ہوں یا اہلِ سیاست‘ کسی کے رویے سے کوئی سنجیدگی ظاہر نہیں ہو رہی۔ صبح سے شام تک بے معنی باتیں‘ بے سروپا الزامات کا لا متناہی سلسلہ۔ کیا ایسے ہوتے ہیں حکومتوں کے رویے؟ 85 رکنی کابینہ کے ساتھ ملک میں کفایت شعاری کا کلچر رائج کرنے کے دعوے کیے جارہے ہیں۔ کون ایسی باتوں پر یقین کرے گا؟
ہم نے جس طرح 75سال ریت میں سر دبا کر گزارے ہیں‘ اُس کے بعد ایک نہ ایک روز ہمیں حقیقت کا سامنا کرنا ہی تھا۔ ہم لاکھ اسے ٹالتے رہتے مگر یہ دن آنا ہی تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ کم از کم آج کی حد تک ہم ہرحوالے سے ناکام ہوچکے ہیں۔ سیاست کا کوئی معیار رہا ہے نہ اخلاقی اقدار باقی رہی ہیں۔ ہزاروں جانوں کی قربانی کے باوجود دہشت گردی کے عفریت سے جان چھوٹتی دکھائی نہیں دے رہی۔ اِس حوالے سے اُٹھنے والے سوالات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں کہ آخر کب تک ہمارے جوان اپنی جانوں کی قربانیاں دیتے رہیں گے۔ جب بھی کوئی دہشت گردی کا واقعہ پیش آتا ہے تو چند مذمتی بیانات جاری کر دیے جاتے ہیں۔ ایسے بیانات سن سن کر کان پک چکے ہیں کہ دہشت گردوں کو اُن کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا، کسی کو ملک کا امن و امان خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی،جیسے دہشت گرد پہلے درخواست دے کر حکومت سے اجازت طلب کرتے ہیں۔ یقینا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ یہ عفریت ابھی تک دم کیوں نہیں توڑ سکا۔ مجھے آج بھی اے پی ایس سکول میں شہید ہونے والے ایک بچے کی والدہ کا فقرہ یاد ہے کہ اس نے آنکھوں میں آنسو لیے ہوئے سوال کیا تھا کہ کیا ہم نے اپنے بچوں کو محاذِ جنگ پر بھیجا تھا؟لاہور کے ایک ہوٹل میں ہوئی اس تقریب سے خطاب کے دوران اُس خاتون نے بہت سے ایسے سوالات اُٹھائے تھے جن کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔
یہ جو آج ہرطرف بارودی سرنگیں بچھی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں‘ ان کی سب سے بڑی وجہ یہی قرار دی جاسکتی ہے کہ ہرکسی نے اپنی حدود سے تجاوز کیا اور اپنی طاقت کا غلط استعمال کیا جس کے نتیجے میں سب کچھ تلپٹ ہوتا چلا گیا۔ یقینا یہ انتہائی افسوسناک صورت حال ہے‘ جس پر پوری قوم کا دل دکھی ہے۔ خلیج بڑھتی جارہی ہے‘ جسے پاٹنے کی کوششیں تو شروع کی گئی ہیں لیکن مقصد حاصل ہونے تک معلوم نہیں کیا کچھ بگڑ چکا ہو گا۔ کلیجہ اس بات پر چھلنی ہے کہ اِس صورت حال کے‘ حالات کے اس نہج تک پہنچنے میں عام لوگوں یعنی عوام کا کوئی قصور نہیں ہے لیکن ساری کی ساری سزا ہم جیسوں کو ہی مل رہی ہے۔ کئی دہائیوں تک چند خاندان ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ کئی دہائیوں تک پچھلے دروازوں سے آنے والے حکومت کرتے رہے اور گاہے گاہے دیگر طاقتیں بھی اپنا حصہ وصول کرتی رہیں۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں چہل قدمی کرنے والوں نے محض اپنے خزانے بھرے اور عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ افسوس کہ یہ سلسلہ آج بھی پورے زوروشور سے جاری ہے۔ عوام کے لیے تو اتنی بارودی سرنگیں بچھا دی گئی ہیں کہ کہیں پر کوئی جائے امان نہیں مل رہی۔ مہنگائی نے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ شرحِ سود بڑھا کر بیس فیصد کر دی گئی ہے۔ یہ شرح پورے ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔سری لنکا اور ایران بھی اس معاملے میں ہم سے پیچھے کھڑے ہیں۔ پہلے کہا گیا کہ آئی ایم ایف کی شرط کے طور پر یہ کیا گیا مگر اب بتایا جا رہا ہے کہ یہ آئی ایم ایف کی شرط نہیں‘ مرکزی بینک کا اپنا فیصلہ تھا۔ کیا ان حالات میں ملکی معیشت کا پہیہ چل سکتا ہے؟ حالت یہ ہوچکی ہے کہ آج ہمیں اپنی بقا کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ بظاہر اِس بات کی کوئی اُمید دکھائی نہیں دے رہی کہ مستقبل قریب میں حالات بہتر ہوسکیں گے۔ گویا اب ہمیں طویل عرصے تک ان بارودی سرنگوں کے ساتھ ہی جینا ہو گا، سو ان کے ساتھ جینے کی عادت کو پختہ کرلینا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں