"FBC" (space) message & send to 7575

کون سی خوشیاں

دن رات آئین اور قانون کی کھوکھلی باتیں، ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے بڑے بڑے دعوے، اپنی اپنی بولیاں، عدلیہ اور اداروں کے معاملات‘ آج کل تو ہر طرف یہی سب کچھ چل رہا ہے۔ صبح سے لے کر شام تک یہی باتیں، ہر وقت یہی بحث کہ حکومت تو عدالت کا فیصلہ ہی نہیں مان رہی‘ بلاول بھٹو زرداری نے حکومتی موقف نہ مانے جانے کی صورت میں مارشل لا کی دھمکی دے دی ہے‘ فلاں بات پر تحریک انصاف راضی نہیں ہے‘ اب یہ ہو گیا ہے‘ اب فلاں نے نیا بیان داغ دیا ہے اور اِس بیان سے ملک بھر میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ فی الوقت تو یہی سب کچھ چل رہا ہے‘ جسے سن سن کر کان پک گئے ہیں۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی سیاسی رہنما اپنی بولی بولتا رہتا ہے اور کچھ پلے نہیں پڑتا کہ چند روز پہلے تک یہ بالکل متضاد بات کر رہا تھا اور آج اِس کا موقف یکسر تبدیل ہو چکا ہے۔ کچھ پتا نہیں چلتا کہ آج ایک رہنما کسی ایک جماعت کی ترجمانی کر رہا ہوتا ہے اور چند روز بعد وہ کسی دوسری جماعت کا ترجمان بن جاتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اِس کے باوجود اِن کی باتوں کو اہمیت ملتی ہے اور یوں یہ تماشا چلتا رہتا ہے۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ اِن جھمیلوں میں حصولِ آٹا کے لیے سرگرداں عام آدمی نظروں سے بالکل اوجھل ہوکر رہ گیا ہے۔ وہ عام آدمی جو صبح قطاروں میں لگتا ہے اور شام کو آٹے کا ایک تھیلا حاصل کر کے خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھتا ہے کہ اب اُس کے بچوں کو روٹی کا نوالہ نصیب ہو جائے گا۔ اِس صورت حال پر اور کتنا چیخیں‘ چلّائیں؟ اِن حالات پر اور کتنا شور مچائیں کہ خدارا! انسان کو انسان سمجھیں۔
صورتحال یہ ہے کہ اِس وقت مہنگائی پچاس سال کی تاریخی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ افراطِ زر کی شرح 35.4 فیصد پر پہنچ چکی ہے‘ ہفتہ وار مہنگائی 44.49 کی سطح پر ہے اور اِس میں مزید اضافے کے قوی خدشات ہیں۔ پاکستان دنیا کے مہنگے ترین ممالک کی فہرست میں پندرھویں نمبر پر آ چکا ہے۔ ہر چیز کے نرخ گزشتہ ایک سال میں کم از کم دوگنا تک بڑھ چکے ہیں اور مسلسل بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ رمضان المبارک کے تناظر میں یہ حالات کس قدر تکلیف دہ ہو چکے ہیں‘ اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اکثریت کا رمضان المبارک شدید تکلیف اور کرب میں گزر رہا ہے۔ یہ رحمتوں کا مہینہ ہے لیکن اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی مہنگائی کے حوالے سے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ ایک تو مہنگائی کی شدید لہر اور دوسرا‘ منافع خوری کا رجحان‘ یہ دونوں عوامل اِس ماہِ مقدس کو عام آدمی کے لیے بہت تکلیف دہ بنا چکے ہیں۔ اِس مرتبہ پھل عام آدمی کے لیے شجرِ ممنوعہ بن چکے ہیں۔ سیب، کیلا، کھجور ا ور دیگر پھل سرکاری نرخوں سے کئی گنا زیادہ نرخوں پر فروخت ہو رہے ہیں۔ ہم یہ سمجھنے کے لیے تیار کیوں نہیں کہ پیٹ میں روٹی کا نہ ہونا ایمان تک کو کمزور بنا دیتا ہے۔
خالی باتوں سے کب تک کسی کا دل بہلایا جا سکتا ہے؟ آج جب ہمارے حکمران عوام کو صبر کی تلقین کرتے ہیں تو فشارِ خون بلند ہونے لگتا ہے۔ خود تو وہ اربوں‘ کھربوں کی جائیدادیں بنا چکے ہیں مگر عوام کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ یہ نہیں کہ صرف سیاستدان ہی ایسا کر رہے ہیں بلکہ اِس حمام میں سبھی ایک جیسے ہیں۔ آج عوام کی بہت بڑی تعداد ایسی سولی پر لٹکی ہوئی دکھائی دے رہی ہے کہ نہ وہ زندہ رہ پا رہی ہے نہ اُس کی جان نکل رہی ہے۔ ستم بالائے ستم کہ صاحبانِ اختیار و اقتدار کو اِس بات کا رتی برابر بھی احساس نہیں کہ عوام کو اِس عذاب سے نجات دلانے کے لیے دکھاوے کے ہی کچھ اقدامات کر لیے جائیں۔ مفت آٹا سکیم شروع کی تو وہ اب تک متعدد جانیں لے چکی ہے۔ ہم نے مفت آٹا فراہمی سنٹرز پر جس طرح مرد و خواتین کو ذلیل و خوار ہوتے دیکھا ہے‘ وہ مناظر دیکھ کر دل دہل جاتا ہے کہ ہم نے اپنی قوم کو کیا بنا دیا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ یہ صورتحال اِس لیے پیدا ہوئی کہ ہمارے حکمران ہمیشہ اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اُنہیں اِس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کوئی جیتا ہے یا مرتا ہے‘ اُن کی انہی لاپروائیوں نے عام آدمی کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ آج ہمیں اِس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہم نے اپنی حرکتوں سے رمضان جیسے ماہِ رحمت کو بھی زحمت میں تبدیل کر دیا ہے۔
ماہِ رمضان کے اختتام پر عید منائی جائے گی۔ حسبِ معمول اِس مذہبی تہوار کو خوشیوں اور محبتوں کا تہوار قرار دیا جائے گا‘ جو کہ یقینا ہے‘ لوگوں کو اس موقع پر تلقین کی جائے گی کہ سب کو اپنی خوشیوں میں شامل کریں لیکن زمینی حقیقت کیا ہے؟ ایک محدود تعداد کو چھوڑ کر‘ اس تہوار سے قبل ہی والدین کے چہرے اُترنا شروع ہو جاتے ہیں۔ وہ اِس فکر میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ کس طرح اپنے بچوں کے لیے نئے کپڑے سلوائیں۔ آپ خود سوچیں کہ جس شخص کی تنخواہ 25 ہزار ہو‘ وہ اپنی ضروریات پوری کرے گا یا عید کی تیاری کرے گا؟ ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہم نے عید جیسے خوبصورت تہوار کی خوبصورتی کو بھی گہنا دیا ہے۔ ابھی سے دھڑکا لگا ہے کہ عید کے قریب آنے پر خود کشیوں کی خبریں اخبارات کا حصہ بننا شروع ہو جائیں گی۔ دیکھا جائے تو ہمارا سرمایہ دار طبقہ بھی اِس صورتحال کا کافی حد تک ذمہ دار ہے۔ ہر مل مالک، ہر سرمایہ دار اور ہر کاروباری شخص نے اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے لیکن اپنے ورکرز کو یکسر نظر انداز کر رکھا ہے۔ (الّا ماشاء اللہ) یہ سب ریکارڈ منافع کمائیں گے‘ مگر اپنے ورکرز کی فلاح کے لیے کوئی قدم نہیں اُٹھائیں گے۔ یہ درست ہے کہ شاید سبھی ایسے نہ ہوں لیکن اکثریت اب یہی طرزِ عمل اختیار کرتی نظر آتی ہے جس نے غریب آدمی کی خوشیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ کسی زمانے میں عیدین پر بونس ملا کرتا تھا جس سے عیدین کی ضروریات پوری کرنے میں مدد ملتی تھی۔ آہستہ آہستہ یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔ اب ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ پہلے سے ہی شدید مالی بحران کے شکار افراد عید کی خوشیاں کیسے منا سکیں گے؟
آج شدت سے اِس بات کا احساس ہورہا ہے کہ یہ جو ہمیں غلط سلط نعروں کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے‘ ان کی آڑ میں تمام اخلاقیات کی دھجیاں اُڑا دی گئی ہیں۔ مختلف النوع نعروں کی آڑ میں سب نے اپنے اپنے اقتدار‘ اپنے اپنے مفاد کی راہیں مستحکم کی ہیں۔ 75 سالوں تک عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا گیا۔ جھوٹی تسلیاں اور تھپکیاں دے کر سلایا جاتا رہا۔ آج جب حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے تو چودہ طبق روشن ہو گئے ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا کریں‘ کس طرح جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھیں۔ آج خوشیوں کے تہوار والی باتیں کھوکھلی اور خالی محسوس ہوتی ہیں۔ ایسی باتیں کرنے والی کبھی یہ نہیں بتاتے کہ پیسے کے بغیر کس طرح کوئی تہوار منایا جا سکتا ہے۔ ابھی سے اردگرد رہنے والے غریب افراد کے اُترے ہوئے چہرے دیکھنے کو ملنا شروع ہو گئے ہیں۔ سفید پوشوں کی اچھی خاصی تعداد دبے دبے الفاظ میں دستِ سوال دراز کر چکی ہے۔ ان میں ہم نے ایسے افراد کو بھی دیکھا جو خود دوسروں کی مالی مدد کیا کرتے تھے لیکن آج خود مالی امداد کے مستحق بن چکے ہیں۔ ایک طرف یہ عالم ہے اور دوسری طرف اربابِ بست و کشاد ہیں کہ صبح و شام ملکی سیاست میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ ان جھمیلوں میں اِس کائنات کی قیمتی ترین تخلیق اپنی بقا کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے اور ملک و قوم کے فیصلہ ساز ایسے طریقے ڈھونڈنے کی کوششوں میں مصروف ہیں کہ کسی طرح یہ قوم مالی استحکام کے بغیر خوشیاں منا سکے۔ خدا کرے کہ اب کوئی ایسا طریقہ ایجاد ہو ہی جائے کہ خوشیاں منانے کے لیے کسی کو ایک پائی کی بھی ضرورت نہ پڑے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں