"FBC" (space) message & send to 7575

کچھ تو اچھا کر جائیں

تیرہ جماعتوں کا 'شاندار‘ اتحاد، برائے نام اپوزیشن اور بھرپور سپورٹ۔ بلاشبہ موجودہ حکومت کو تاریخ کی مضبوط ترین حکومت قرار دیا جا سکتا ہے جس کے راستے میں دور دور تک کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔ اتنی مضبوط کہ کئی صورتوں میں اِس نے آئین تک کی بھی پروا نہیں کی مگر کہیں کوئی جنبش نہیں ہوئی۔ عدالتی احکامات نہ ماننے کی اس نے نئی روایت قائم کی۔ عدالتوں میں جج صاحبان بھی جس پر آبدیدہ دکھائی دیے۔ اتنی مضبوط حکومت کہ اگر سپریم کورٹ سے کوئی شکایت ہوئی تو پی ڈی ایم اتحاد سپریم کورٹ پر چڑھ دوڑا۔ اتنی مضبوط حکومت کہ دفعہ 144 کے باوجود ریڈ زون میں سپریم کورٹ کے سامنے نہ صرف جلسہ کیا بلکہ ججز کے خلاف انتہائی متنازع بیان بازی کی، مگر اس کے باوجود کوئی کچھ نہ کر سکا۔ باہمی تال میل کا یہ عالم کہ ماضی میں ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے کرنے والے ملک و قوم کے ''بہترین مفاد‘‘ میں تمام باہمی اختلافات کو فراموش کر کے شیر و شکر بیٹھے ہیں۔ اب بلاول بھٹو کراچی میں شہباز شریف کی آمد پر شاداں و فرحاں 'شہباز سپیڈ‘ کے گن گا رہے ہیں۔ گویا حکومت کیلئے راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ ایک سے ایک ذہین دماغ حکومت میں شامل ہے۔ ایک سے ایک گھاگ سیاستدان حکومت کا حصہ ہے۔ قانون سازی میں بھی اس حکومت کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوتا، ایک اشارۂ ابرو پر ہر بل پاس ہو جاتا ہے۔ اگر اِس سب کے باوجود تیرہ مہینوں کے دوران عوام کو کوئی خیر کی خبر نہ مل سکے تو پھر اِس کارکردگی کو جو جی چاہے نام دے لیں۔ اتنی مثالی صورتحال کے باوجود ڈالر تین سو روپے سے تجاوز کر جائے تو پھر اندازہ لگانا مشکل نہیں رہ جاتا کہ کس طرح کی کارکردگی دکھائی جا رہی ہے۔ مہنگائی کا تناسب 46‘ 47 فیصد تک جا پہنچے تو تصور کیا جا سکتا ہے کہ حکومت کی توجہ کم از کم ملکی مسائل حل کرنے کی طرف نہیں ہے۔ جب عام آدمی آٹے جیسی بنیادی چیز حاصل کرنے کے لیے اپنی جانوں پر کھیلنے کے لیے مجبور ہو جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صورتحال کس طرف جا چکی ہے۔ یہ تمام قرائن اِس بات کے واضح اشارے دے رہے ہیں کہ آگے چل کر ملکی صورت حال کس خوفناک نہج پر پہنچ سکتی ہے‘ خصوصاً معاشی اعتبار سے۔
معاشی حالات اِس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ گروتھ ریٹ 6.1 سے گر کر 0.29 پر آ گیا ہے۔ ڈالر تین سو روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ وہی ڈالر جس کے بارے میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا تھا کہ اِسے دوسو روپے سے نیچے لا کر دکھائیں گے، لیکن یہ اوپر سے ہی اوپر جا رہا ہے۔ بڑے بڑے دعووں کے ساتھ وزارتِ خزانہ سنبھالنے والے محترم وزیر خزانہ تاحال یہی یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ ملک ڈیفالٹ نہیں کرے گا لیکن یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ یہ کارنامہ کیسے سرانجام دیا جائے گا۔ ڈالر کے مسلسل اوپر جانے کے وجہ سے مہنگائی کی صورت حال بدترین ہو چکی ہے۔ معاشی ماہرین تو یہ خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ ڈالر مزید اوپر جا سکتا ہے۔ یہی ابتر صورتحال زرعی شعبے میں بھی نظر آ رہی ہے۔ اِس حوالے سے بھی بے شمار اعداد و شمار پیش کیے جا سکتے ہیں کہ زرعی شعبہ انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے۔ ایکسپورٹ کے شعبے میں دیکھ لیں‘ ہر ایکسپورٹر پریشان ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اِس صورت حال کے باعث عام آدمی کے لیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل تر ہو چکا ہے۔ مہنگائی‘ مہنگائی کی صدائیں لگا کر غریبوں کے حلق خشک ہو چکے ہیں لیکن حکومت کی تمام تر توجہ اِس پر ہے کہ کس طرح عدالتوں کے احکامات کو پس پشت ڈالنا ہے۔ کس طرح سے سیاسی مخالفین کو جیل کی سلاخوں

کے پیچھے دھکیلنا ہے‘ کس طرح رہائی کے بعد انہیں کسی نئے مقدمے میں دھرنا ہے۔ انتقام کی آگ میں یہ تک نہیں سوچا جا رہا کہ جب کل کلاں کو یہ سب کچھ آج والوں کے ساتھ ہوگا‘ تب یہ کیا کریں گے؟ ایک لمحے کو مان لیا کہ یہ سب کچھ سیاسی بقا کے لیے ضروری ہے‘ لیکن کچھ تو وطن کا سوچ لیں۔ کب تک خالی خولی باتوں سے عوام کو بہلایا جاتا رہے گا؟ کب تک نعروں کے پیچھے لگا کر وقت گزاری کی جاتی رہے گی؟ اب ایک نئی تلوار سر پر منڈلا رہی ہے۔ ایک طرف معیشت پیندے سے لگ چکی ہے‘ دوسری جانب ایران کو اٹھارہ ارب ڈالرکا جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ جرمانہ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا منصوبہ مکمل نہ کرنے کی پاداش میں ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اب اِس کے لیے امریکہ کی طرف دیکھا جا رہا ہے کہ وہ ہماری مدد کرے لیکن آج ہمارے دامن میں کچھ ایسا نہیں جس کے بدلے کچھ ڈالر حاصل کیے جا سکیں۔

یہ سب معاملات اپنی جگہ‘ افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت کے طرزِ عمل سے یہ محسوس ہی نہیں ہو رہا کہ وہ حالات کو بہتر بنانے میں سنجیدہ ہے۔ ایک طرف ضروری امپورٹس تک بند ہیں کہ ملک میں ڈالر نہیں اور دوسری طرف اراکین اسمبلی کے الاؤنسز میں دوبارہ اضافہ کر دیا گیا ہے۔ انتخابات کرانے کے لیے حکومت کے پاس اکیس ارب روپے نہیں ہیں لیکن گزشتہ روز اراکین اسمبلی کو صوابدیدی فنڈ سے بیس ارب روپے جاری کر دیے گئے۔ اب تک 111 ارب روپے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی منصوبوں کے نام پر جاری کیے جا چکے ہیں۔ صبح سے شام تک پریس کانفرنسز اور وہی بے معنی باتیں‘ جن کا کوئی سر نظرآتا ہے نہ پیر۔ ہر پریس کانفرنس کا ایک ہی موضوع: عمران خان‘ عمران خان‘ عمران خان۔ عمران خان سے آپ قانون کے مطابق ضرور نمٹیں لیکن عوام کے حالات میں بہتری کے لیے بھی کچھ کر لیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ آج سبھی پی ڈی ایم جماعتیں اور تمام سیاسی شخصیات چپ سادھے بیٹھی ہیں۔ نہ اُنہیں حکومت کے قانون شکن اقدامات نظر آ رہے ہیں نہ اُنہیں مہنگائی سے کوئی سروکار رہا ہے۔ گزشتہ تیرہ ماہ کے دوران اسمبلی میں ایک بھی ایسا قانون پاس نہیں ہوا جس کا مقصد عوام کی بہتری اور بھلائی ہو۔ نیب بل میں ترامیم ہو گئیں، توہین پارلیمنٹ کا قانون بنا لیا، عدلیہ کے فیصلوں کے خلاف قرارداد منظور کر لی لیکن عوام کی کسی کو پروا نہیں۔ یہ بات سمجھ سے ماورا ہے کہ یہ سب کچھ کیسے چلے گا اور کب تک چلے گا۔ آئین شکنی کا یہ عالم ہے کہ پنجاب اور کے پی میں نگران حکومتوں کی مدت ختم ہو چکی ہے لیکن وہ مسلسل کام کر رہی ہیں۔ کل کو جب اِس بات کی جواب طلبی ہو گی کہ مدت ختم ہونے کے بعد آپ کس حیثیت میں احکامات جاری کیے گئے تو کیا جواب ہو گا؟ یہ ہے وہ شاندار کارکردگی جو تیرہ جماعتیں مل کر دکھا رہی ہیں۔ گردان اب بھی وہی ہے کہ ابھی گزشتہ حکومت کا گند صاف کیا جا رہا ہے‘ سیاسی مخالفین کی وجہ سے ملک ترقی نہیں کر رہا۔ معلوم نہیں یہ بیانیہ کب تک چلے گا اور اُس کے بعد کون سا نیا بیانیہ تراشا جائے گا۔
عمومی طور پر حالات و واقعات پر ماضی کی مثالیں دے کر واضح کیا جاتا ہے لیکن جب سب کچھ اتنا واضح اور صاف شفاف دکھائی دے رہا ہو تو پھر مثالوں کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی۔ مختصراً یہ ہے کہ آج طاقت حکومتی اتحاد کے پاس ہے‘ سو وہ اِس کا بھرپور اظہار کر رہا ہے۔ کسی آئین و قانون کو نہ ماننے کی روش اپنا لی گئی ہے۔ آئینی تقاضوں کی دھجیاں اُڑائی جا رہی ہیں لیکن اِس کے باوجود انتظامی کارکردگی انتہائی ناقص ہے۔ سب کو دیوار سے لگا کر‘ مخالف آوازوں کا گلا گھونٹ کر‘ مخالفین کا ناطقہ بند کر کے اگر ڈالر کا ریٹ نیچے آنا شروع ہو جائے گا‘ تو یہ سب ضرور کریں مگر کوئی تو ضمانت دیں کہ 47 فیصد تک پہنچ جانے والی تاریخی مہنگائی میں کمی ہوگی‘ کوئی ایسا بیان ہی دے دیں کہ مخالفین کو جیلوں میں بند کر دینے سے ایکسپورٹس میں اضافہ ہو جائے گا اور زرعی شعبہ ترقی کرے گا۔ کچھ تو عوام کی اشک شوئی کا سامان کریں۔ کاش ہم نوشتۂ دیوار پڑھ سکتے اور جان لیتے کہ ہمارے پاس زیادہ مہلت نہیں ہوتی‘ وقت کب پلٹا کھا جائے‘ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اگر مخالفین کو کچلنے، بے معنی باتیں کرنے، روز درجنوں پریس کانفرنسز کرنے اور ایسے ہی دوسرے کاموں سے کچھ فرصت مل جائے تو کچھ ایسا بھی کر جائیں‘ جسے اچھے لفظوں میں یاد رکھا جا سکے اور جس سے عام آدمی کسی قدر سکھ کا سانس لے سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں