"FBC" (space) message & send to 7575

ہمارے جمہوریت پسند

یہ بات طے ہوئے تو عرصہ گزرچکا کہ اس معاشرے میں 'جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کا اصول رائج ہے۔ یہ بات بھی سب سمجھ چکے کہ جمہوریت کا ڈھکوسلا صرف عوام کو دھوکا دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہوچکا کہ حصولِ مفادات کے لیے کچھ بھی قربان کیا جا سکتا ہے۔ اگر کبھی ایسا موقع پیدا ہوجائے کہ کوہِ ہمالیہ سے اتنا بڑا سیلابی ریلا اترنے کا خدشہ پیدا ہو جو پچیس کروڑ لوگوں کو بحیرۂ عرب میں دھکیل دے یا پھر بحیرۂ عرب میں اتنا تلاطم برپا ہو جائے کہ جو سب کو ڈبو دے‘ تب بھی کوئی ہلچل پیدا نہیں ہوگی‘ شرط صرف یہ ہے کہ اِن طوفانوں سے اشرافیہ کو کوئی نقصان نہ پہنچنے کی ضمانت دے دی جائے۔ اُنہیں یہ یقین دلادیا جائے کہ آپ کے تمام مفادات کا پوری طرح سے تحفظ کیا جائے گا اور آپ کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ وہ اقتدار‘ جسے حاصل کرنے کے لیے اب تمام قوانین، اخلاقیات، قانون اور آئین کو بالائے طاق رکھ دینے کا رواج جڑ پکڑ چکا ہے۔ وہ اقتدار‘ جسے حاصل کرنے کے لیے ایسا ایسا جھوٹ تراشا جاتا ہے کہ سننے والوں کو شرمندگی محسوس ہونے لگتی ہے‘ صبح سے شام تک جھوٹ ہی کی گردان مسلسل سنائی دیتی ہے اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جھوٹ بولنے والے اِس پر شرمندگی تک محسوس نہیں کرتے۔ ایسا نہیں ہے کہ حصولِ اقتدار کے لیے ماضی میں یہ سب کچھ نہیں کیا جاتا تھا۔ سب کچھ کیا جاتا رہا لیکن آج یہ عالم ہوچکا ہے کہ بارہ‘ تیرہ جماعتیں اور اُن کے رہنما بیک زبان اِس کارخیر میں بھرپور حصہ ڈال رہے ہیں۔ وہ لوگ جو کل تک ہمیں کوئی اور سبق پڑھایا کرتے تھے‘ آج وہ ہمیں بالکل مختلف نصاب پڑھا رہے ہیں۔ یہ ایسے چابی والے کھلونے محسوس ہوتے ہیں کہ جن کی اپنی کوئی رائے ہی نہیں ہے۔ کسی ایک کا ذکر ہی کیا‘ سبھی ایک جیسے ہیں۔ آج جو رہنما ملک‘ریاست‘ جمہوریت اور اسمبلی کے تقدس کی بات کر رہے ہیں‘ ذرا ان لوگوں کے دو‘ تین سال پہلے کے بیانات سن لیں۔ یہی قومی اسمبلی تھی‘ جس کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنا تو دور کی بات‘ اس کی جائزیت پر ہی سوالات اٹھائے جا رہے تھے‘ اب بھی وہی اسمبلی ہے‘ انہی الیکشنز کے بعد وجود میں آنے والی‘ جن کو آج بھی حکومتی اتحادی جماعتوں نے تسلیم نہیں کیا‘ مگر اب اسی اسمبلی کی مدتِ میعاد بڑھانے کی باتیں کی جانے لگی ہیں۔وقت کے تقاضوں کے پیش نظر ترجیحات بدلنے والے آج شاید پرانی سبھی باتوں کو بھول چکے ہیں۔
اندازہ کریں کہ دن رات خود کو جمہوریت کا پرچم بردار قرار دینے والی جماعت نے میئر کراچی کے انتخاب میں کیا کچھ نہیں کیا۔یہ وہ جماعت ہے جس کے رہنما دعویٰ کرتے ہیں کہ اُن کے بڑوں نے جمہوریت کی خاطر اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ یقینا اُنہوں نے جمہوریت کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں‘ مگر سوال یہ ہے کہ آپ نے اُن کی قربانیوں سے کیا سیکھا؟کیا یہ سبق سیکھا کہ کس طرح 173 نشستوں کے ساتھ 193 نشستوں کو نیچا دکھانا ہے؟جماعت اسلامی اور اتحادیوں کو ووٹ کاسٹ کرنے سے روکنے کے لیے ایسے ایسے حربے استعمال کیے گئے کہ جنہیں سن کر شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب طریقے اختیار کرنے کے بعد اِس پر مسرت کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ دیکھا! ہم نے کیسے شاندار حکمت عملی اپنا کر کراچی کی میئر شپ حاصل کر لی۔ ستم بالائے ستم پیپلز پارٹی کے چیئرمین ببانگ دہل یہ اعلان فرما رہے ہیں کہ ہم پورے ملک میں اِسی طرح انتخابات جیتیں گے۔ مطلب جو بھی حربہ استعمال کرنا پڑا‘ وہ کیا جائے گا۔ اصل مقصد صرف اور صرف اقتدار کا حصول ہے‘ اصول و روایات یا جمہوری اقدار نہیں۔ اس طرح کے بیانات نے اس جماعت کی تاریخ نظروں کے سامنے تازہ کر دی ہے۔
1970ء کے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والا میانوالی جیل میں پہنچ گیا تھا اور کم ووٹ حاصل کرنے والا اقوام متحدہ میں پہنچ گیا تھا۔ پھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی جانے والی جنگ بندی کی قرارداد پھاڑ پھینکی‘ جس کی واحد وجہ یہ تھی کہ انہیں علم تھا کہ وہ کسی صورت بھی متحدہ پاکستان کے وزیراعظم نہیں بن سکتے کیونکہ عام انتخابات میں اکثریت شیخ مجیب کی عوامی لیگ کو حاصل ہوئی تھی۔ ہوسِ اقتدار کا اندازہ کریں کہ حکومت حاصل کرنے کے لیے ملک کا وجود ہی داؤ پر لگا دیا گیا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد جب وزیراعظم بنے تو ملک کا پہلا سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر منتخب ہونے کا اعزاز بھی حاصل کر لیا۔ یہ تھے ہمارے وزیراعظم‘ قائدِ عوام‘ فخر ایشیا‘ جناب ذوالفقار علی بھٹو! موجودہ حالات کو دیکھ کر اب یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ماضی کے اثرات کا کسی نہ کسی حد تک اثر اب بھی باقی ہے۔ اب ایک دوسری جمہوریت پسند جماعت کا احوال سن لیجئے۔ یہ وہی جماعت ہے جس کے قائد چند ہفتوں کے لیے علاج کی خاطر لندن گئے تھے لیکن تاحال واپس نہیں آ سکے۔ اِس سے پہلے بھی جب ان پر مشکل وقت آیا تھا تو ایک ڈکٹیٹر کے ساتھ ڈیل کرکے سعودی عرب میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔ یہ وہی رہنما ہیں جو ماضی قریب تک کیا کیا بیانات نہیں دیتے رہے‘ آج اِن کی جماعت کے ایک رہنما کہتے ہیں کہ سب کو چاہیے کہ وہ ہمارے قائد سے معافی مانگیں‘ جب وہ ملک میں واپس آئیں تو اُن کا ریڈ کارپٹ استقبال کیا جائے، وغیرہ وغیرہ۔ پچھلے دنوں اِس جماعت کے انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے جن میں انتہائی سخت مقابلے کے بعد میاں نواز شریف صاحب بلامقابلہ جماعت کے تاحیات قائد منتخب کرلیے گئے۔ انتہائی جمہوری ماحول میں ہونے والے انتخابات کے دوران میاں شہباز شریف بلامقابلہ جماعت کے صدر اور محترمہ مریم نواز صاحبہ سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر منتخب ہوگئیں۔ اسحاق ڈار جماعت کے سیکرٹری مالیات منتخب کرلیے گئے۔ تجزیہ کار اس امر پر حیران ہیں کہ جماعت کے سیکرٹری جنرل کا عہدہ خاندان سے باہر کیسے چلا گیا۔ یہ عہدہ احسن اقبال صاحب کے حصے میں آیا۔ اِس طرح ایک جمہوری سوچ رکھنے والی جماعت اور اِس کے بڑوں نے انتہائی جمہوری ماحول میں انٹرا پارٹی انتخابات کراکے ایک نئی مثال قائم کردی۔ اب یہ جماعت کے دوسرے رہنمائوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بڑوں کی ہدایات اور احکامات پر عمل کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھیں۔ وہ کہیں تو انتخابات اور اسمبلی کی جائزیت پر سوال اٹھا دیں اور وہ کہیں تو اُسی اسمبلی کی مدت بڑھانے کے لیے فعال ہو جائیں۔ اس کے علاوہ کوئی بھی ذاتی رائے اپنے تک ہی محدود رکھیں‘ وگرنہ چودھری نثار سے مفتاح اسماعیل اور شاہد خاقان عباسی تک درجنوں مثالیں موجود ہیں۔
ملک کی دوبڑی جماعتوں کی جمہوری سوچ کا مختصر اً کچھ احوال بیان ہو چکا۔ یہی روش دیگر جماعتوں میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ پی ڈی ایم اتحاد کے سربراہ 1984ء سے اپنی سیاسی جماعت کے سب سے اہم عہدے‘ سیکرٹری جنرل شپ‘ پر فائز ہیں۔ اِس سے پہلے اُن کے والد محترم اِس جماعت کے کرتا دھرتا تھے۔ اِس حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ مولانا صاحب کے بعد اُن کے صاحبزادے جماعت کے والی وارث ہوں گے۔ یہ ہیں وہ جماعتیں جو ہمیشہ جمہوریت کی گردان کرتی رہتی ہیں لیکن اِن کی اپنی جماعتوں میں کوئی جمہوریت ہے نہ اندازِ سیاست جمہوری ہے۔ سب کا مقصد صرف ایک ہی ہے کہ بس کسی طرح سے اقتدار قائم و دائم رہے۔ اسی سبب ملک میں جمہوریت اس نہج کو پہنچ چکی ہے۔ معاشی، اخلاقی اور سیاسی طور پر پوری طرح سے دیوالیہ نکل چکا ہے۔ عوام مہنگائی سے بے حال ہوچکے ہیں۔ آئین تک کی پاسداری نہیں کی جارہی لیکن ایسا کوئی ایک بھی مردِ حر نہیں‘جس نے صدائے احتجاج بلند کی ہو‘ یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دے دیا ہو کہ میں اِن حالات میں حکومت کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ ایک وزارت کی خاطر بغیر سوچے سمجھے ہاں میں ہاں ملائی جارہی ہے۔کہاں سے لے کر آئیں وہ مردانِ کار جو ہمارے ملک کے حالات ٹھیک کردیں؟ اب تو کوئی اُمید بھی بر نہیں آتی‘ کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ صرف اتنا ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے خصوصی کرم کی دعائیں مانگی جاتی رہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں