"FBC" (space) message & send to 7575

ریاست ایسے بچائی جاتی ہے!

حکومتی اتحاد کی طرف سے مسلسل دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پندرہ ماہ کی حکومت میں سیاست نہیں‘ ریاست بچائی گئی ہے۔ صبح و شام یہی گردان سنائی دیتی ہے۔ بارہ‘ تیرہ جماعتوں کے حکومتی اتحاد کے تمام رہنما اِس بیانیے کو شدومد سے آگے بڑھا رہے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ ریاست بچانے کی عوام سے کیا قیمت وصول کی گئی ہے؟یہ نہیں بتایا جاتا کہ ریاست بچانے کے عوض خود کیا کچھ حاصل کیا گیا ہے؟یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ حکومت میں آنے کے بعد سے اب تک کتنے مقدمات ختم کرائے گئے ہیں؟یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ ریاست بچانے کے نام پر آئی ایم ایف سے قرض کن شرائط پر حاصل کیا گیا ہے؟نجانے ہم دوسروں کے بارے میں ایسے غلط اندازے کیوں قائم کر لیتے ہیں۔ ہم کیوں یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم بہت شاطر اور چالاک ہیں جبکہ دوسرے کچھ بھی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ہم یہ گمان کر لیتے ہیں کہ شاید دوسرے وہی کچھ دیکھ رہے ہیں جو ہم انہیں دکھانا چاہ رہے ہیں۔ گویا ان سے یہ بات پوشیدہ ہے کہ کس نے کیا کیا مفادات حاصل کیے اور عوام کو کس طرح مسائل کے گرداب میں پھنسا یا گیا۔
''ریاست بچانے‘‘ کی ایک تازہ قسط گزشتہ روز ہی سامنے آئی اور منی لانڈرنگ کے کیسز ختم ہوگئے۔ ایف آئی اے کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ملزمان کے حوالے سے منی لانڈرنگ کے ٹھوس شواہد نہیں ملے۔ اس سے قبل یہی بتایا جاتا رہا کہ اس حوالے سے انتہائی مضبوط شواہد موجود ہیں جنہیں دنیا کی کسی بھی عدالت میں ثابت کیا جا سکتا ہے اور اس حوالے سے ایک پوری بینکنگ ٹریل بھی پیش کی جاتی رہی۔ قبل ازیں چند اور اہم شخصیات بھی ایسے ہی الزامات سے بری ہوچکی ہیں۔ موجودہ کابینہ کے کئی اراکین بھی اس بہتی گنگا میں نہ صرف ہاتھ دھوچکے ہیں بلکہ ڈبکیاں بھی لگا چکے ہیں۔ ایک صاحب تو دھڑلے سے وطن واپس آئے‘ نیلامی کے قریب پہنچ جانے والا اپنا گھرواپس لیا‘ کیسز ختم کرائے‘ واجبات وصول کیے اور اب شان سے وزارت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ دیگر حکومتی اتحادی جماعتوں کے اراکین کو بھی بھرپور ریلیف مل چکا ہے۔ اس حوالے سے پچاس سے زائد ایسے ناموں کی ایک طویل فہرست ہے جن کے خلاف بہت مضبوط کیسز موجود تھے مگر حکومت سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے ریاست اِس طرح بچائی گئی کہ نیب قوانین میں حسبِ منشا ترامیم کی گئیں جس کے نتیجے میں تمام افراد دھڑا دھڑ بری ہو گئے یا بری ہو رہے ہیں۔ اب ان کے خلاف درج مقدمات تیز رفتاری سے ختم ہورہے ہیں۔ یہیں سے ریاست بچانے کی ابتدا ہوئی جس میں سبھی نے دامے درمے قدمے سخنے اپنا اپنا حصہ وصول کیا۔
اگر باقی کیسز کو چھوڑ دیں تو بھی تین کیسز ایسے ہیں جو مثال کا درجہ رکھتے ہیں۔ پاناما لیکس، ٹی ٹی سکینڈل اور ایک اہم رہنما کے خلاف قائم 35 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا کیس۔یہ وہ تین سکینڈلز ہیں جو انتہائی مضبوط تھے اور اِن کیسز میں بے شمار شواہد موجود تھے لیکن سب کے سب ختم۔ یہ سب کچھ کرکے عوام کو بتایا گیا کہ ریاست کس طرح بچائی جاتی ہے۔ جس روز فردِ جرم عائد ہونا تھی‘ اسی روز حکومت سنبھال لی گئی اور اُس کے بعد تمام کیسز سے بری بھی ہو گئے۔ کچھ احباب تو بیرونِ ملک مقیم تھے جہاں سے اُنہوں نے اپنے وکلا کے ذریعے درخواستیں دائر کیں کہ وہ وطن واپس آکر سرنڈر کرنا چاہتے ہیں لیکن اُنہیں گرفتار نہ کیا جائے۔ وطن واپسی پر اُنہیں گرفتار نہ کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔ وہ واپس آئے‘ پہلے ضمانتیں حاصل کیں اور بعد میں نیب ترامیم کے بعد وہ بھی سبھی کیسز سے بری ہوگئے۔ یہ تو صرف چند دانے ہیں ورنہ تو پوری دیگ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ کچھ ایسا ہی ہے میرا پیارا ملک کہ اِس میں ایک وقت کے ملزم دوسرے وقت کے حکمران ٹھہرتے ہیں اور ایک وقت کے حاکم دوسرے وقت کے ملزم۔ اگر کل کو آج کے حکمرانوں کے خلاف مقدمات درج ہورہے تھے تو آج گزشتہ کل کے حکمران شکنجے میں آئے ہوئے ہیں۔اچنبھے کی کوئی بات نہیں ہو گی اگر کل کلاں کو صورت حال ایک مرتبہ پھر یکسر تبدیل ہو جائے۔ یہاں کا نظام اِسی طرح چلتا آیا ہے اورمحسوس ہوتا ہے کہ آگے بھی اِسی طرح چلتا رہے گا۔ کسی میں اتنی جرأت نہیں ہے کہ اِسے تبدیل کرسکے۔ ہاں! البتہ ایک تبدیلی ضرور دیکھنے میں آئی ہے کہ اب ہمارے حکمرانوں نے دنیا کو ریاست بچانے کے نئے فارمولوں سے روشناس کرایا ہے۔ اِس تبدیلی میں ہمارے سبھی دردمندوں نے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ ایک ہمدرد نے بتایا کہ کس طرح سے اپنے عزیز کو ایک صوبے کا گورنر لگا کر ریاست بچائی جاتی ہے۔اُنہوں نے بہت خوب لیکچر دیا ہے کہ کس طرح صاحبزادے کو وزارت دلا کر ریاست بچائی جا سکتی ہے۔ یہ وہی صاحب ہیں جو گزشتہ دورِ حکومت میں مہنگائی کے خلاف مارچ لے کر اسلام آباد جا بیٹھے تھے۔یہ اُس وقت کی بات ہے جب ڈالر غالباً 180روپے کا تھا۔ اس وقت پٹرول کے نرخ 160 روپے فی لٹر کے قریب تھے‘ آٹا اس وقت پچاس‘ ساٹھ روپے جبکہ چینی غالباً 80‘ 90 روپے کلو تھی۔ آج چینی اور آٹا دونوں 150 کی حد عبور کر چکے ہیں جبکہ مارکیٹ میں ناپید بھی ہو چکے ہیں۔ آج چونکہ ''ریاست بچانے‘‘ کا اہم مشن درپیش ہے لہٰذا اب مہنگائی کو وقتی طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے اور اب سب کچھ ہرا ہرا ہی دکھائی دے رہا ہے۔
اب تو جیسے کوئی اصول، کوئی ضابطہ اور کوئی سیاسی اخلاقیات باقی ہی نہیں بچیں۔ صبح و شام ہم صرف جھوٹ کے سہارے اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ آج یہ لوگ ریاست‘ حکومت اور ایوانِ نمائندگان سمیت ریاستی اداروں کے سب سے بڑے ہمدرد بنے ہوئے ہیں حالانکہ ماضی قریب تک یہ سب کچھ اس حوالے سے کیا کچھ کہتے رہے ہیں‘ محتاجِ بیان نہیں ہے۔ آج چونکہ مفادات مشترکہ ہیں لہٰذا سب چپ ہیں۔ ایسے میں عام آدمی کو کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کی کون سی بات پر یقین کیا جائے۔ کچھ پلے نہیں پڑ رہا کہ سچ کو کہاں تلاش کیا جائے۔
بہرحال خوشی اِس بات کی ہے کہ حکومتی اتحاد نے دن رات ایک کر کے ریاست کو بچا لیا ہے۔ اِس کے لیے ہم اپنے حکمرانوں کے بھرپور شکرگزار ہیں کہ اُنہوں اپنا آج ہمارے کل کے لیے قربان کر دیا۔ ملک و قوم کے لیے اتنی بڑی بڑی قربانیوں کی مثال کوئی دوسری قوم پیش کر ہی نہیں سکتی۔ البتہ ایک ستم ضرور ہوا کہ ریاست بچانے کے چکر میں ہمارے حکمران عوام کو کہیں گم کر بیٹھے۔ وہی عوام‘ جو آج آٹے کا دس کلو کا تھیلا خریدنے کے لیے بھی کم و بیش 2300 روپے ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ وہی عوام جن پر ایک نیا بجلی بم گرایا جا چکا ہے جس کے بعد اُن کی آہیں بھی سنائی نہیں دے رہیں۔ وہی عوام محض سوا سال پہلے تک جو ڈالر 180 روپے میں خریدا کرتے تھے‘ آج ڈالر 280 روپے میں بھی نہیں مل رہا۔ وہی عوام جن کے لیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا بھی مشکل تر ہو چکا ہے لیکن شاید ہمارے حکمرانوں کا ''ریاست بچاؤ‘‘ مشن ابھی مکمل نہیں ہوا۔ اُمید واثق ہے کہ جیسے ہی یہ مشن مکمل ہو گا تو پھر عوام کی طرف بھی ضرور توجہ دی جائے گی۔ فی الحال اس 'ریاست بچائو‘ مشن میں ایک بچی کھچی پارٹی اور چند سیاسی لیڈر رکاوٹ بنے بیٹھے ہیں‘ ذرا ان سے نمٹ لیا جائے‘ پھر یقینا عوام کی طرف بھی توجہ دی جائے گی۔ ایک ستم اور بھی ہوا ہے کہ اس مشن میں آئین اور قانون کی رہی سہی ساکھ بھی داؤ پر لگ چکی ہے۔ البتہ یہ ضرور بتا دیا گیا کہ بات مفادات کی ہو تو پھر قانون و آئین کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی۔ آج یہی صورت حال دکھائی دے رہی ہے۔ انصاف کے ایوانوں کا ہر حکم ہوا میں اڑا کر معلوم نہیں کیا پیغام دیا جا رہا ہے۔ آئین کو پس پشت ڈال کر معلوم نہیں کون سی بہتری لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ بہرکیف‘ اس بات کی خوشی کہیں زیادہ ہے کہ کم از کم درد دل رکھنے والے ہمارے حکمرانوں نے اپنی سیاست کو تیاگ کر ریاست کو تو بچا لیا ہے۔ اس پر یقینا پوری قوم مبارک باد کی مستحق ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں