"FBC" (space) message & send to 7575

محاورے تبدیل کرنا پڑیں گے

ہر زبان میں محاورے اس کے حسن کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ ان میں صدیوں کی دانش کا نچوڑ چند الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔ ہر محاورے کے پیچھے ایک طویل داستان ہوتی ہے جو ہزار ہا سال کی دانش بھی اس کہانی کی توثیق کرتی ہے مگر آج ہم کچھ ایسے محاورے پیش کرنے جا رہے ہیں‘ موجودہ حالات کو دیکھ کر جن میں تبدیلی کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔
سچ کو آنچ نہیں: کوئی بھی ایسا نہیں ہوگا کہ جس نے اپنے بچپن ہی سے یہ محاورہ نہ سنا ہو۔ والدین ہمیشہ اپنے بچوں کو یہی درس دیتے ہیں کہ دیکھو بیٹا! ہمیشہ سچ بولنا کیونکہ سچ ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور جھوٹ ہمیشہ شکست کھاتا ہے۔ بچپن میں سب بچے اپنے والدین کی بات مان لیتے ہیں لیکن جب شعور کی عمر کو پہنچنے کے بعد یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں تو گزشتہ پچھتر سالوں سے پورا کاروبار ہی جھوٹ پر چل رہا ہے تو پھر اِس محاورے کی صداقت ڈانواں ڈول ہونے لگتی ہے۔ شاید یہ محاورہ ہمارے جیسے معاشروں کے لیے تشکیل نہیں دیا گیا ورنہ جھوٹ کہاں اتنی دیر تک قائم رہ سکتا ہے۔ انصاف کے ایوانوں میں جھوٹ، پریس کانفرنسوں میں جھوٹ، کاروبار میں جھوٹ، عام زندگی میں جھوٹ، اعلیٰ ترین سطح پر جھوٹ، نچلی سطح پر جھوٹ، ہرطرف جھوٹ ہی جھوٹ ہو تو پھر یہ محاورہ کہاں فِٹ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ سو‘ اب کم از کم ہمارے جیسے معاشروں کی حد تک یہ محاورہ تبدیل کردیا جانا چاہیے اور اب یہ کہنا چاہیے کہ جھوٹ کو آنچ نہیں۔ جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں‘ کم از کم وہاں تو جھوٹ ہی میں ترقی کا راز پنہاں ہے۔ وزارت قائم رکھنی ہے تو پریس کانفرنس میں اتنا جھوٹ بولو کہ آقا خوش ہوجائیں‘ شاباشی دیں۔ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنی ہوتو جھوٹ کا سہارا لو۔ زیادہ منافع کمانے کے لیے بھی یہ طریقہ انتہائی کارگر ثابت ہوتا ہے۔ عوام کی جیبوں سے پیسے نکالنے کے لیے بھی یہ حربہ ہمیشہ مفید ثابت ہوتا ہے۔ حکومت میں ہو تو دن رات واویلا کرو کہ خزانہ خالی ہے‘ زہر کھانے کو بھی پیسے نہیں مگر اپنی مراعات میں ذرہ بھر کی بھی کمی نہ ہونے دو‘ عوام پر ٹیکس لگاتے جاؤ اور عیاشیوں کا سامان کرتے جاؤ۔ جو بھی اِس کے خلاف آواز بلند کرے‘ درجنوں قانون ہیں اُسے سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کے لیے۔ تماشا یہ ہے کہ یہ سب کرنے کے بعد بھی ہم اپنے بچوں سے یہ اُمید رکھتے ہیں کہ وہ ہمیشہ سچ بولیں گے۔ حیرت کی بات ہے کہ ہم کس دنیا میں رہتے ہیں۔
اتفاق میں برکت ہے: کیا ایسی بات ہے؟ شاید یہ بھی گزرے وقتوں کی کوئی بات ہے ورنہ اب صورتحال بہت تبدیل ہوچکی ہے۔ جیسے پہلے بتایا کہ محاورے وہ جملے یا کہاوتیں ہوتی ہیں جو وقت کے ساتھ ضرب المثل بن جاتے ہیں۔ان کے بارے میں یہ بھی گمان کیا جاتا ہے کہ اِن کے پیچھے صدیوں کی دانش کا سفر ہوتا ہے۔ اِسی لیے بڑی حد تک اِن کی صداقت کو تسلیم کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں صدیوں کی دانش کا سفر طے کرنے کے بعد تشکیل پانے والے محاورے اب تبدیل کرنا پڑیں گے۔ گزشتہ دنوں ہی ہمارے دوست اس محاورے سے جڑی کہانی ذرا نئے انداز سے سنا رہے تھے، انہوں نے بتایا کہ ایک شخص بسترِ مرگ پر پڑا تھا جسے یقین ہوچلا تھا کہ اب اُس کی زندگی کی مہلت ختم ہونے کو ہے‘ اُس نے اپنے چاروں بیٹوں کو بلایا‘ جو ہر وقت آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔ اس نے محاورے کو ذہن میں رکھتے ہوئے اُن سب کو ایک ایک چھڑی پکڑائی اور کہا کہ اِنہیں توڑ کر دکھائو۔ اُنہوں نے معمولی سی کوشش سے وہ چھڑی توڑ دی۔ تب اُس شخص نے مزید چھڑیاں منگوائیں اور اُنہیں باندھ دیا۔ اب اس نے اپنے ہر بیٹے کو لکڑیوں کو وہ گٹھا پکڑا کر کہا کہ اب اس گٹھے کو توڑ کر دکھاؤ۔ پہلے بیٹے نے ہی اس گٹھے کو ایک خاص تکنیک سے ایسے جھٹکا دیا کہ تمام لکڑیاں ٹوٹ گئیں۔ یہ دیکھ وہ شخص فوراً دم توڑ گیا۔ اب ہمارے ہاں بھی یہ ''خاص تکنیک‘‘ عام ہوچکی ہے کہ اِس کے ذریعے متعدد جماعتوں کا گٹھا بناؤ اورحصولِ مفادات کے بعد خاص تکنیک کے ذریعے اِسے توڑ دو۔ گزشتہ سات دہائیوں سے ہم یہی پریکٹس تو دیکھ رہے ہیں۔ ایسے میں اِس محاورے پر یقین کرنے کی کون سی وجہ بچتی ہے؟ اُمیدِ واثق ہے کہ مستقبل میں بھی یہ سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا۔
انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے: یہ بھی ایک گھسا پٹا محاورہ ہے جسے انصاف کے ایوانوں میں اکثر دہرایا جاتا ہے۔ ہمارے حکمران بھی اِس طرح کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ کوئی بتائے کہ یہ کون سا دور ہے اِس محاورے کو دہرانے کا۔ جہاں لوگوں کے پھانسی چڑھنے کے بعد اُن کی رہائی کا حکم آئے‘ وہاں بھلا انصاف کا کیا کام۔ جس معاشرے میں کئی کئی دہائیوں تک حصولِ انصاف کیلئے پیشیاں بھگتتے بھگتتے لوگ کنگال ہوجائیں‘ جہاں لوگ انصاف کے عدم حصول کے سبب خود کشی کرلیں‘ کیا وہاں ایسی باتوں پر مکمل پابندی عائد نہیں کردینی چاہیے؟ اگر کوئی خستہ حال نظام جیسے تیسے رینگ رہا ہے تو سیاسی گدھ اِسے بھی برباد کرنے کے لیے اعلیٰ ترین ایوانِ انصاف کے دروازے پر پہنچ جاتے ہیں۔ ایک شخص کو محض ایک جملے پر‘ معافی مانگنے کے باوجود دہشت گردی کا مقدمہ بھگتنا پڑتا ہے جبکہ حکومتی سرپرستی میں اعلیٰ ترین عدالت کی دہلیز پر کھڑے ہو کر انتہائی سخت زبان استعمال کی جاتی ہے‘ معزز منصفینکی تصویریں جلسوں میں چلائی جاتی ہیں مگر کوئی کارروائی نہیں ہوتی، کہیں پر ذرا سی بھی جنبش نہیں ہوتی۔ سو‘ اب عوام کو یہ بتا دینا چاہیے کہ جب انصاف ہی نہیں تو تاخیر کیا اور عجلت کیا۔
بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا: مطلب تواس محاورے کا سب جانتے ہوں گے لیکن اب اِس محاورے کا مطلب زیادہ وسیع پیمانے پر لیا جانا چاہیے۔ وہ اِس لیے کہ ہمارے ہاں بہتی گنگا میں محض ہاتھ نہیں دھوئے جاتے بلکہ اس میں ڈبکیاں لگائی جاتی ہیں۔ ایسی ایک نہیں‘ درجنوں مثالیں ہیں اور ہم ان گنگانہانے والوں کو بخوبی دیکھ چکے ہیں۔ یہ جو ابھی حال ہی میں نیب ترامیم کے بعد منی لانڈرنگ اور کرپشن کے کیسز ختم کرائے گئے ہیں ، کیا اس اقدام کو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا قرار دیا جائے گا یا پھر بہتی گنگا میں ڈبکیاں لگانا؟یہ تو دیگ کے چند دانے ہیں وگرنہ ایسی ایسی مثالیں ہیں کہ آنکھیں بند کرنا پڑتی ہیں۔ سو ہماری یہ اپیل ہے کہ باضابطہ طور پر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے محاورے کو تبدیل کرکے بہتی گنگا میں ڈبکیاں لگانا قرار دیا جائے۔
جیسی کرنی ویسی بھرنی: یہ وہ محاورہ ہے جو سنا سنا کر ہمیں ڈرایا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کچھ کیسز میں یہ صورتحال دیکھنے میں آتی ہو لیکن بیشتر کیسوں میں صورتحال یکسر مختلف دکھائی دیتی ہے۔ یہاں سب کچھ دھڑلے سے کیا جاتا ہے‘ خوب مزے اُڑائے جاتے ہیں اور اُس کے بعد بیرونی ممالک جا کر موجیں کی جاتی ہیں۔ ایسابھی نہیں کہ یہ سلسلہ آج سے شروع ہوا ہے۔ یہ سب کچھ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے۔وہ صاحب تو یاد ہی ہوں گے جو منی لانڈرنگ کے الزم میں امریکی جیل میں قید تھے‘ تنگ آکر اُنہوں نے امریکی حکومت سے درخواست کی کہ اُنہیں پاکستان کے حوالے کردیا جائے۔ جب وہ ملزم پاکستان آیا تو اُسے نہ صرف گرمجوشی سے خوش آمدید کہا گیا بلکہ پلی بارگین کے ذریعے معمولی رقم ادا کرکے سارے جرائم بھی دھل گئے۔ لہٰذا اِس طرح کے محاوروں سے خواہ مخواہ ہمیں ڈراتے رہتے ہیں۔ ہم نے آج تک کسی کرنی والے کو بھرتے نہیں دیکھا لہٰذا ہمارے معاشرتی تناظر میں یہ محاورہ سراسر غلط ہے اور اِس پر مکمل پابندی عائد کی جانی چاہیے۔
دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے: یہ محاورہ بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے یہاں دودھ کے جلے دوبارہ دودھ سے جلنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ اُنہیں کوئی فرق نہیں پڑتاکہ اُن کی بے احتیاطیاں پہلے کیا نقصان پہنچا چکی ہیں اور اب کیا پہنچا رہی ہیں۔ اُنہیں صرف اپنے مفادات سے غرض ہوتی ہے۔ سو اِس محاورے کو بھی تبدیل کیا جانا چاہیے۔ یہ صرف چند محاورے ہیں‘ ورنہ بے شمار ایسے محاورے بھی ہیں جن کے معنی مکمل طور پرتبدیل کردینے چاہئیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں حقیقت کے قریب ترین رہ کرزندگی گزارسکیں۔ ہماری درخواست ہے کہ اِس تناظرمیں ایک کمیشن تشکیل دیا جائے جو حالات کا بغور جائزہ لے کر محاوروں کے معنی تبدیل کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں