"FBC" (space) message & send to 7575

’’بدترین اسمبلی‘‘ کی رخصتی

ملک میں ایک اور تجربے کا اختتام ہوا۔ شاہد خاقان عباسی کے الفاظ میں‘ ''بدترین اسمبلی‘‘ رخصت ہو گئی ہے۔ ایک‘ دو نہیں بلکہ درجن کے قریب جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل حکومت اپنے پیچھے انتہائی تکلیف دہ حالات اور لاتعداد مسائل چھوڑ کر گئی ہے۔ اِس حکومت میں وہ سبھی جماعتیں شامل تھیں جو 1990ء کی دہائی سے ملک پر حکومت کرتی آئی ہیں۔ ایک جماعت وہ تھی جو ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگایا کرتی تھی اور جس نے مارچ 2022ء میں مہنگائی مارچ کیا تھا۔ ایک جماعت وہ تھی جس نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا اور 150 روپے لٹر پٹرول کو ''غریب کش‘‘ اقدام بتا کر کراچی سے اسلام آباد تک ''حکومت ہٹائو مہنگائی مارچ‘‘ کیا۔ تیسری جماعت وہ تھی جو حزبِ اختلاف و حزبِ اقتدار‘ مختلف صورتوں میں حکومتوں کا حصہ رہی اور جس نے گزشتہ اسمبلی کے ابتدائی ساڑھے تین سال میں دو بار ''مہنگائی مارچ‘‘ کیا، اُس وقت بیس روپے یونٹ بجلی، ایک سو پچاس روپے لیٹرپٹرول اور ایک سو اسی روپے کا ڈالر ''ملکی معیشت کی تباہی اور ریاست کی بربادی کی علامت‘‘ تھے، اسی لیے حکومت کو گرانا ضروری ہو چکا تھا۔ ملک کے ''ابتر معاشی حالات‘‘ کو جواز بنا کر چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کا ایک اتحاد وجود میں آیا اور پھر تحریک عدم اعتماد کی صورت میں تحریک انصاف کی حکومت کو رخصت کر دیا گیا۔ اب جب اتحادی حکومت وجود میں آئی تو ہر سیاسی جماعت نے اپنا بھرپور حصہ وصول کیا جس کے بعد راوی چین ہی چین لکھنے لگا۔ سولہ ماہ کی اس حکومت میں اتحادیوں نے اقتدار کے خوب مزے لوٹے اور اِس چکر میں عوام کی ہڈیوں سے گوشت تک نوچ لیا گیا۔ ریاست بچانے کے نام پر ملک میں وہ سب کچھ کیاجاتا رہا جو ملکی تاریخ میں اس سے قبل دیکھنے میں نہیں آیا۔
ایک صاحب پرمنی لانڈرنگ کیس میں جس روز فردِ جرم عائد کی جانا تھی‘ اُس روز وہ مسند نشین ہو گئے اور فردِ جرم کا معاملہ قصہ پارینہ بن گیا بلکہ اُس کے بعد تو مقدمات کے ختم ہونے کی ایک لائن لگ گئی۔ ایک کے بعد ایک مقدمہ ختم کرایا گیا اوراِسے ریاست بچانے کا نام دیا گیا‘ جہاں کوئی دِقت پیش آئی وہاں قانون بدل دیا گیا۔ معاشی طور پر وینٹی لیٹر پر پہنچ جانے والی ریاست میں ملکی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ تشکیل دی گئی جسے بے شمار مراعات سے نوازا گیا۔اِس بابت جب بھی حکومت سے سوال کیا جاتا توہمیشہ یہی جواب ملتا کہ یہ سب وزیر‘ مشیر کسی اضافی معاوضے کے بغیر ملک و قوم کی خدمت کررہے ہیں۔ اپنے الوداعی خطاب میں وزیراعظم صاحب نے برملا اِس بات کا اظہار کیا کہ وہ اپنے اتحادیوں کا تعاون کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ حکومت سنبھالنے کے فوری بعد وفاقی وزرا، وزرائے مملکت، مشیروں اور معاونین خصوصی کی تنخواہوں اور مراعات کے لیے گزشتہ سال کی نسبت اضافی رقم مختص کی گئی۔ 2022-23ء کی بجٹ دستاویزات کے مطابق وفاقی وزرا اور وزرائے مملکت کے لیے تنخواہوں کے لیے 37 کروڑ 17 لاکھ روپے مختص کیے گئے جبکہ ''کفایت شعاری مہم‘‘ کے زیرِ اہتمام وزیراعظم کے مشیروں کی تنخواہ اور مراعات میں بھی اضافہ کیا گیا اور اس مد میں 3 کروڑ 20 لاکھ روپے مختص کیے گئے۔ علاوہ ازیں وزیراعظم آفس کی گاڑیوں کیلئے پانچ کروڑ چار لاکھ‘ وزیراعظم آفس کی ڈسپنسری کے لیے ایک کروڑ تین لاکھ‘ وزیراعظم آفس کے باغ کے لیے دو کروڑ 92 لاکھ روپے مختص کیے گئے۔اسی پر بس نہیں‘ فروری 23ء میں قومی اسمبلی میں پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق (اپریل تا دسمبر) وفاقی وزرا اور وزرائے مملکت کے غیر ملکی دوروں پر 6 کروڑ 52 لاکھ سے زائد اخراجات آئے اور سب سے زیادہ اخراجات وفاقی وزیر صحت کے غیر ملکی دوروں پر آئے، ایک کروڑ 4 لاکھ 20 ہزار 163 روپے۔ گویا ملک کو جس حال میں پہنچا دیاگیا ہے‘ اس میں اتحادیوں کا بھی بھرپورساتھ رہا۔ اس اتحادی حکومت نے 16 ماہ میں ترقی کی جو منازل طے کیں‘ مختصراً اُس کا احوال بھی سن لیجئے۔ ایک لٹر پٹرول 150 روپے سے پونے تین سو روپے پر پہنچ گیا۔ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے روز ڈالر کی قیمت 184 روپے تھی جو 9 اگست یعنی اتحادی حکومت کے خاتمے کے دن 287 روپے تھی۔ پی ٹی آئی کی حکومت جب رخصت ہوئی‘ تب چینی 90 سے 100 روپے فی کلو میں دستیاب تھی جو آج 155 روپے کلو میں فروخت ہورہی ہے اور ابھی اِس کے نرخوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ بجلی کا بنیادی ٹیرف16 روپے سے بڑھا کر 29 روپے 78پیسے فی یونٹ تک پہنچا دیا گیا‘ اِس کے بعد جو سلیب سسٹم بنایا گیا‘ اُس تناظر میں یہ پچاس روپے فی یونٹ سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بجلی کے بلوں میں پندرہ روپے ریڈیو فیس بھی شامل کردی گئی۔ ضرورت کی انتہائی بنیادی جنس یعنی آٹے تک کا حصول عام آدمی کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہو چکا ہے۔ ایک کلو چکی کے آٹے کے نرخ 170 روپے تک جا پہنچے ہیں۔ باقی حساب آپ خود ہی کرلیجئے کہ چھ افراد پر مشتمل گھرانے کو ایک وقت میں کتنا آٹا درکار ہو تا ہے اور صرف اِسی ایک مد میں ایک اوسط گھرانے کے اخراجات کتنے بڑھ چکے ہیں۔ سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ کرتے ہوئے کسی ایک بھی ذمہ دار کے ماتھے پر کوئی شکن نہیں ابھری بلکہ ہر بار یہی بتایا گیا کہ یہ سب کچھ ریاست بچانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
ایک طرف عوام کو مہنگائی کے لامتناہی گرداب میں پھنسا دیا گیا تو دوسری طرف چیئرمین سینیٹ، بیوروکریسی اور سرکاری ملازمین پر نوازشات کی بھرمار کر دی گئی۔ پنجاب میں بیوروکریسی کے لیے نئی گاڑیوں کی خریداری کے لیے ڈھائی ارب روپے کی منظوری دی گئی۔ جب اِس بابت پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ سے سوال کیا گیا کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی بیوروکریسی کے لیے نئی گاڑیاں خریدی گئی تھیں تو اب ایسی کیا ضرورت پڑ گئی ہے تو اِس پر جواب ملا کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ سرکاری ملازمین کرائے کی گاڑیوں پر سفر کریں؟ پرانی گاڑیاں اب تحصیلداروں کو دی جائیں گی۔ واضح رہے کہ ''پرانی‘‘ گاڑیاں بھی کوئی سال‘ ڈیڑھ سال پہلے خریدی گئی تھیں۔ سب جانتے ہیں کہ بیوروکریسی پر یہ نوازشات کیوں کی جارہی ہیں۔ بظاہر اِس کی ایک ہی بڑی وجہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ان کی خدمات کی اشد ضرورت ہو گی‘ باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔ وفاقی حکومت نے بھی جاتے جاتے سرکاری ملازمین کے سپیشل ڈیوٹی الاؤنس میں پچاس فیصد کا اضافہ کیا۔اِس کی تفصیل کافی طویل ہے لیکن مختصراً یہ کہ جاتے جاتے سرکاری ملازمین کو خوش کرنے کی ہرممکن کوشش کی گئی۔ نجانے یہ کیسی معاشی بدحالی ہے جس میں سرکاری وسائل کو انتہائی بے دردی کے ساتھ لٹایا جا رہا ہے۔
رہی بات اسمبلی میں موجود ''عوامی‘‘ نمائندوں کی کارکردگی کی تو وہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زبانی سن لیجئے‘ کہتے ہیں ''مجھے افسوس ہے کہ میں اِس بدترین اسمبلی کا حصہ رہا اور میں اسمبلی کی کارکردگی کے لیے عوام سے معافی مانگتا ہوں، یقینا اِس اسمبلی سے نجات پر عوام کو خوشی ہو گی جس نے اپنے پورے دور میں عوامی فلاح و بہبود کا ایک بھی بل پاس نہیں کیا‘‘۔ سابق وزیراعظم خود یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ اِس اسمبلی سے عوام نے کچھ پایا نہیں بلکہ صرف کھویا ہی ہے۔ اس دورِ حکومت کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ رہا کہ حکومت نے آئین و قانون کو بری طرح نظر انداز کیا اور اِس پر شرمندگی کے بجائے اس کی تاویلیں پیش کی جاتی رہیں۔ مایوس کن بات یہ ہے کہ حکومت جانے کے باوجود بظاہر حالات میں بہتری کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔واقفانِ حال کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ یعنی عوام کی آزمائش ابھی جاری رہے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ جس مقصد کے لیے حکومت سنبھالی گئی تھی، جس کے لیے تمام تر وسائل استعمال کیے گئے اور ریاستی مشینری کو بے دریغ استعمال میں لایا گیا‘ وہ مقصد بھی حاصل نہیں ہو سکا بلکہ مخالفین کی مقبولیت میں پہلے کی نسبت کہیں زیادہ اضافہ ہوچکا ہے۔ بظاہر تو یہی محسوس ہو رہا ہے کہ اتحادی حکومت کا سارا دور رائیگاں رہا لیکن جب اقتدار ہاتھ میں ہو تب حقیقت کا ادراک کہاں ہو پاتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں