"FBC" (space) message & send to 7575

یہی دستور ہے

کبھی کبھار تاریخ کے جھروکوں میں جھانکتے رہنا کافی اچھا رہتا ہے۔ معلوم ہوتا رہتا ہے کہ گزرے ہوئے وقتوں میں کیا ہوتا رہا اور اب کیا ہو رہا ہے۔ تاریخ کی غلام گردشوں میں گھومتے پھرتے کچھ کردار ایسے بھی مل جاتے ہیں جو بہت حیرت انگیز ہوتے ہیں۔ ان کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے تو جیسے یہ کردار ہمیں ہمیشہ ہی زندہ دکھائی دیتے ہیں اگرچہ انہیں اس دنیا سے گئے ہوئے صدیاں ہی کیوں نہ بیت چکی ہوں۔ حسن بن صباح بھی تاریخ کا ایک ایسا ہی کردار دکھائی دیتا ہے۔ 1034ء سے 1124ء کے عرصے کے دوران اسلامی سلاطین کا پتہ پانی کر دینے والے اس کردار نے فدائین کی ایک فوج تیار کی تھی جو اپنے شیخ کے اشارے پر کسی کی بھی جان لے سکتی تھی اور ضرورت پڑنے پر اپنی جان دے بھی سکتی تھی۔ فدائین کی اس فوج میں شرکت کے لیے سب سے پہلی شرط یہ تھی کہ فوج میں بھرتی ہونے کا خواہش مند انتہائی ضرورت مند ہو۔ اس کا کسی غریب گھرانے سے تعلق اس کی اضافی خوبی سمجھی جاتی تھی۔ بھرتی کے بعد انہیں جہاں بہترین تربیت فراہم کی جاتی تو وہیں انہیں شیخ کے اشارے پر جان دینے کی صورت میں جنت میں جانے کا یقین بھی دلایا جاتا تھا۔ عبدالحلیم شرر نے 1899ء میں لکھے گئے اپنے ایک ناول ''فردوسِ بریں‘‘ میں اس صورتحال کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے۔وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ''گویا ہرطرف دودھ اور شہد کی نہریں بہتی دکھائی دیتی تھیں‘ دیکھنے والے دیکھتے کہ ان نہروں کے کناروں پر جا بجا ریشمی گاؤ تکیے لگائے ہوئے لوگ فرضی جنت کی بے فکریوں کا لطف اُٹھا رہے ہوتے‘ سدھائے ہوئے طیور درختوں سے پھل توڑ توڑ کر لاتے اور ان کے سامنے رکھتے تھے‘ کہیں پر آفت کے پرکالے لڑکے ان احباب کے سامنے دست بستہ کھڑے دکھائی دیتے تھے‘‘۔ جب اس جنت میں نوجوانوں کو لے جایا جاتا تو واپسی پر ان نوجوانوں کے ذہنوں میں ہمیشہ جنت میں دوبارہ جانے کی خواہش مچلتی رہتی تھی۔ اس مقصد کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو ہمیشہ تیار رہتے تھے۔ اسی کا لالچ دے کر ان سے قتل و غارت گری کرائی جاتی۔ ایران کے علاقے رودبار کے قلعہ الموت میں بنائی گئی اس جنت کا مالک حسن بن صباح انہی فدائین کی اس فوج کے بل بوتے پر اپنے وقت کی بڑی طاقت بن گیا تھا۔ بڑے بڑے حکمران اس سے ڈرتے تھے کہ کہیں وہ ناراض ہوکر انہیں قتل نہ کرا دے۔
قصہ مختصر یہ کہ اپنے دور میں اُس نے ہر طرف اپنی دہشت پھیلا رکھی تھی۔ اسی حسن بن صباح کی زندگی کا ایک قصہ بہت مشہور ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک مرتبہ حسن بن صباح کسی بحری جہاز میں سفر کر رہا تھا۔ دورانِ سفرجہاز کے مسافر اپنی اپنی مصروفیات میں مشغول تھے کہ یکایک زبردست سمندری طوفان نے جہاز کو گھیر لیا۔ طوفان کی شدت کو دیکھتے ہوئے سب کا گمان یہی تھا کہ اب اس جہاز کو ڈوبنے سے کوئی نہیں بچا سکتا سو جہاز میں ہر طرف افراتفری پھیل گئی۔ پورے جہاز میں صرف ایک شخص حسن بن صباح تھا جس کے چہرے پر پریشانی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ یہ منظر شاید مشہورِ زمانہ فلم Titanic کے اُسی منظر جیسا ہوگا جب جہاز ڈوب رہا تھا اور ہرطرف افراتفری پھیلی ہوئی تھی۔ اس دوران صرف ایک شخص سکون سے بیٹھا ہوا وائلن بجا رہا تھا۔ دیکھنے والے اُسے دیکھ کر گمان کررہے تھے کہ یہ کیسا پاگل شخص ہے جو اپنی جان بچانے کے بجائے وائلن بجا رہا ہے۔ غالباً اُس شخص کے ذہن میں یہی بات ہوگی کہ جب جہاز نے ڈوب ہی جانا ہے تو پھر ادھر اُدھر بھاگنے کا کیا فائدہ۔ حسن بن صباح کے ذہن میں بھی یہی سب کچھ چل رہا ہوگا کہ جب جہاز نے ڈوب ہی جانا ہے تو ہڑبونگ مچانے کا کیا فائدہ۔ اُس کا یہ اطمینان دیکھ کر جہاز کے چند مسافر حسن بن صباح کے پاس پہنچتے ہیں اور اُسے بھی اپنی جان بچانے کے لیے کوشش کرنے کا کہتے ہیں۔ جواب میں حسن بن صباح کہتا ہے کہ یہ جہاز نہیں ڈوبے گا اور پھر ویسا ہی ہوا۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد طوفان کی شدت کم ہونے لگی اور کم ہوتے ہوتے طوفان بالکل تھم گیا۔ تاریخی حوالے بتاتے ہیں کہ طوفان تھمنے کے بعد لوگ پھر حسن بن صباح کے پاس پہنچے اور اُس کے قدموں میں گر گئے کہ آپ تو بہت پہنچے ہوئے ہیں۔ آپ کو پہلے سے ہی پتہ تھا کہ جہازنہیں ڈوبے گا۔ ان باتوں کے جواب میں حسن بن صباح نے زوردار قہقہہ لگایا اور اُن سے بولا کہ تم سب کے سب احمق ہو۔ حسن بن صباح اُن سے پوچھنے لگا کہ چلو تم خود ہی بتا دو کہ اگر جہاز ڈوب جاتا تو کیا میں اور تم زندہ بچتے؟ ظاہر ہے کہ ہم سب مر جاتے تو پھر بھلا کیونکر تم مجھے سے آ کر پوچھ سکتے تھے کہ آپ نے تو کہا تھا کہ جہاز نہیں ڈوبے گا لیکن یہ ڈوب گیا۔ گویا حسن بن صباح کو معلوم تھا کہ وہ جہاز نہ ڈوبنے کی پیش گوئی کرتے ہوئے بس ایسے ہی ہوا میں تیر چلا رہا تھا۔
اب اس کردار کو تو دنیا سے گئے ہوئے تقریباً ہزار سال کا وقت گزر چکا ہے لیکن اُس کا ہوا میں چلایا جانے والا یہ تیر آج بھی ہرطرف اُڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے ہاں تو یہ سب کچھ زیادہ ہی کثرت سے نظر آتا ہے۔ صبح سے شام تک جھوٹ کا ایسا کاروبار چلتا ہے کہ خدا کی پناہ۔ جو منہ میں آئے بولتے چلے جاتے ہیں۔ اگر کہا ہوا سچ ثابت ہو جائے تو بلے بلے اور اگر غلط ثابت ہو جائے تو پھر بھلا کس نے پوچھنا ہے۔ یہاں کوئی جواب دہی کا نظام تو ہے نہیں۔ نظام ہے تو صرف ایک کہ سیاسی مخالفین کو ہمیشہ دیوار کے ساتھ لگا کررکھنا ہے۔ اس مقصد کے لیے کچھ بھی کر گزرنے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ کوئٹہ میں ایک وکیل قتل ہوتا ہے اور صرف دو گھنٹے کے بعد ایک سابق معاونِ خصوصی لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرکے ایک سیاسی شخصیت کو اِس کا ذمہ دار ٹھہرا دیتا ہے۔ یہ کیسے لوگ ہیں کہ چلو دنیا کا تو کوئی قانون ہمارے ہاں موجود نہیں ہے لیکن کم از کم قانونِ قدرت سے ہی ڈرو۔ یہ خوب جانتے ہیں کہ دوسروں پر بہتان تراشی کتنا بڑا جرم ہے لیکن کوئی پروا نہیں۔ ویسے بھی بہتان تراشی کیا اب تو ہمارے ہاں آوے کا آوا ہی بگڑ چکا ہے۔ آج کے حسن بن صباح ہمارے ساتھ اتنا جھوٹ بولتے ہیں کہ کبھی کبھار تو خود جھوٹ کو شرمندگی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ایسی ایسی بے معنی باتیں کرتے ہیں کہ گھن سی آنے لگتی ہے۔ خود چور دروازوں سے حکومتیں حاصل کرتے ہیں اور ہمیں درس دیتے ہیں کہ محنت میں ہی عظمت ہے۔ خود قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرتے رہتے ہیں اور ہمیں کہتے ہیں کہ مایوسی گناہ ہے اور یہ کہ پاکستان جلد دنیا کا ترقی یافتہ ملک بنے گا۔ یہ سب ہمیں جھوٹے سبق پڑھاتے پڑھاتے ایک روز خود رخصت ہو جاتے ہیں اور ہمیں مزید مسائل میں اُلجھا جاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال حال ہی میں بارہ‘ تیرہ جماعتی حکومتی اتحاد نے بھی قائم کی ہے۔
اب بدترین اسمبلی بھی قصۂ پارینہ بن چکی اور متعدد جماعتوں کی اتحادی حکومت بھی ماضی کا حصہ بن چکی۔ کیا یہ سب کے سب اپنے دورِ حکومت میں ہمیں ایسی ہی باتیں نہیں سناتے رہے؟ کیا یہ نہیں کہتے رہے کہ اگر اقتدار میں آگئے تو اپنے کپڑے بیچ کر بھی مہنگائی کم کریں گے؟ اب کون ان سے پوچھے گا کہ جناب آپ نے تو اپنے کپڑے بیچ کر مہنگائی کم کرنی تھی۔ کیا یہ ہمیں ہمیشہ آئین اور قانون پر پابندی کی تلقین نہیں کرتے رہے؟ اب ان سے کون پوچھے گا کہ جناب ہمیں کچھ کہتے رہے لیکن عملاً آپ ہمیشہ آئین اور قانون کی مخالف سمت ہی چلتے رہے۔ ہر روز ایسی بے معنی باتیں سن سن کر کان پک چکے ہیں کہ انہیں جھوٹ بولتے ہوئے کوئی احساس تک نہیں ہوتا۔ ہمارے سابق وزیر دفاع اور سابق وزیر داخلہ ہمیں جو کچھ سناتے رہے ہیں‘ وہ بھی ایک الگ ہی کہانی ہے۔ اب کس نے ان سے پوچھنا ہے کہ جناب آپ تو ملک کو مسائل سے نکالنے کے لیے آئے تھے لیکن یہ کیا کرکے چلے گئے ہیں۔ اب یہ سب کے سب نئی چکنی چپڑی باتوں کے ساتھ انتخابی مہم میں ہمارے سامنے آئیں گے اور وہ بھی اس صورت میں کہ اگر انتخابات ہو گئے تو‘ ورنہ تو فی الحال اس کی بھی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ سو خوب اچھی طرح سمجھ لیجیے گا کہ میرے ملک کا یہی دستور ہے۔ میرے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہمیشہ سے یہی سب کچھ چلتا آیا ہے اور ایسے ہی چلتا رہے گا۔ ملک کے حالات میں بہتری کی اُمید رکھنے والا نتائج کا خود ذمہ دار ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں