"FBC" (space) message & send to 7575

حالات بدترمگر سنجیدگی نام کونہیں

پورے ملک میں ایک ہیجان سا برپا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسی خوفناک وڈیوز سامنے آرہی ہیں کہ دل دہلتا ہے کہ آخر ہم کس طرف جارہے ہیں۔ کہیں مہنگائی توکہیں دنیا کی مہنگی ترین بجلی کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ وہ مہنگی بجلی‘ جس کے نرخ اِس سطح تک پہنچانے میں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ کردار ادا کیا ہے۔ اِن دونوں سیاسی جماعتوں نے انڈیپنڈینٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز)کے ساتھ ساتھ ایسے خوفناک معاہدے کیے کہ آج پورا ملک آئی پی پیز کے شکنجے میں جکڑا نظر آتا ہے۔ اِس صورتحال پر گزشتہ کالم میں بہت سی تفصیلات بیان کی جا چکی ہیں‘ اب اسی حوالے سے کچھ مزید باتیں۔ آئی پی پیز کے مالکان کے حوالے سے پاکستانی عوام کو ہمیشہ دھوکے میں رکھا گیا۔ اِن پاور پلانٹس کے ساتھ مہنگے معاہدے کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اِن کے مالکان غیرملکی ہیں‘ جو پاور پلانٹس لگانے کے لیے غیرملکی سرمایہ کاری ملک میں لارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاہدے سامنے بھی نہیں لائے گئے اور یہ معاہدے ڈالروں میں کیے گئے۔ ان معاہدوں کو کسی قدر خفیہ رکھا گیا جس کے باعث اِن کی بہت سی شرائط قوم حتیٰ کہ قومی اسمبلی کی نظروں سے بھی اوجھل رہیں۔ بقول سینیٹر سیف اللہ ابڑو‘ اب جب بجلی کی قیمتوں کے خلاف ملک گیر احتجاج شروع ہوا تو نگران حکومت نے بہت مشکل سے اِن معاہدوں کی کاپیاں حاصل کی ہیں۔ سینیٹر صاحب کے مطابق‘ یہ دستاویزات سامنے آنے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ غیرملکی مالکان صرف دکھاوے کے لیے رکھے گئے تھے وگرنہ 96 فیصد پاورپلانٹس کے مالکان پاکستانی ہی ہیں جن میں نامور شخصیات شامل ہیں۔ اِن مالکان میں سے کچھ وفاقی وزیر رہ چکے ہیں‘ چند احباب بڑے کاروباری گروپس کے مالک ہیں‘ بڑی سیاسی جماعتوں کے ممبران اور ایک صوبے کے اعلیٰ ترین انتظامی عہدے پر فائز رہنے والی ایک شخصیت اور اِسی طرح چند دوسرے احباب۔ اِن سب نے مل کر بجلی پیدا کرنے کے مہنگے ترین معاہدے کیے اور حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا کہ آج پورے ملک میں عوام سراپا احتجاج ہیں اور کہیں سے کوئی خیر کی خبر نہیں آ رہی۔ یہ تو صرف بجلی کے بلوں کی بات ہے‘ ورنہ مجموعی طور پر مہنگائی نے عوام کے کڑاکے نکال دیے ہیں۔ اتنے برے حالات پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے تھے۔ اِس صورتحال کے باعث امن و امان کے حالات بھی تیزی سے بگڑتے چلے جارہے ہیں اور بات مہنگائی کے خلاف احتجاج سے آگے بڑھتی ہوئی نظر آنے لگی ہے۔
اِن حالات کے تناظر میں سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ عوام کی اکثریت ملک کے مستقبل سے مایوس نظرآرہی ہے۔ لوگ محسوس کرنے لگے ہیں کہ اب اِس ملک میں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسی سوچوں کا ایک خطرناک نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں ایسے ایسے نعرے سننے کو مل رہے ہیں جنہیں سن کر ہی خوف سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ گلگت سے کراچی تک حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں اور ہم آج بھی خود کو طفل تسلیاں اور دلاسے دے رہے ہیں۔ جس بھی محفل میں چلے جائیں‘ یہی سوال سننے کو ملتا ہے کہ کیا بنے گا ہمارے ملک کا ‘ہمارے بچوں کا کیا بنے گا ۔ سوال سب کا یہی ہے مگر اِس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ وہ اشرافیہ‘ وہ حکمران جو ہمیں اِس حالت تک پہنچانے میں ایک فریق کے طور پرشامل رہے ہیں‘ اُن کی بڑی تعداد اس وقت ملک سے باہر جا چکی ہے۔ کیسی بدقسمتی ہے اس قوم کی کہ جس کے حکمران باہر سے آتے ہیں‘ حکمرانی کرتے ہیں اور حکومت ختم ہونے کے بعد پھر اپنے آبائی ممالک میں چلے جاتے ہیں۔ محترم میاں نواز شریف صاحب اِس معاملے میں سرفہرست دکھائی دیتے ہیں۔ میاں صاحب وطن واپس تو کیا آتے‘ ملک کو بدترین مہنگائی میں جھونک کر شہبازشریف بھی لندن جا چکے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے اہم رہنما بھی اس وقت دبئی میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ اسحاق ڈار صاحب ضمانت پر لندن سے پاکستان آئے تھے، ملک کے وزیرخزانہ بنے، اپنے تمام کیسز ختم کرائے، واجبات کو کلیئر اور گھر کو بازیاب کرایا اور معیشت کو ہچکولوں کے حوالے کر کے اب واپس لندن جاچکے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما کہتے ہیں کہ برے حالات کی تمام تر ذمہ دار ی (ن) لیگ کے کندھوں پر ڈالنا زیادتی ہے۔ اُن کا مؤقف ہے کہ حکومتی اتحاد میں شامل سبھی جماعتیں موجودہ حالات کی برابر کی ذمہ دار ہیں اور جس کی جتنی ذمہ داری بنتی ہے‘ اُس پر اُتنی ہی ذمہ داری ڈالی جائے۔
خدا کرے کہ یہ ہمارا وہم ہو لیکن ملک کی موجودہ صورتحال سے مزید سنگین حالات کی چاپ سنائی دے رہی ہے۔ مہنگائی کی بدترین لہر کے ساتھ بدترین دھونس اور دھاندلی بھی مسلط ہے اور حالات کا یہ ایک خوفناک پہلو ہے۔ قوم پیٹ خالی ہونے کاعذاب تو بھگت ہی رہی ہے لیکن اِس کے ساتھ ساتھ مختلف حوالوں سے جو دھونس دیکھنے میں آرہی ہے‘ وہ دلوں کو دہلائے دے رہی ہے۔ ڈر اور خوف کی ایسی فضا پیدا ہوچکی ہے کہ جس میں سانس لینا بھی مشکل تر ہوچکا ہے۔ آئین کی بالادستی دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی۔ ملک کے دو بڑے صوبوں میں زائد المیعاد نگران حکومتیں ہیں جبکہ مرکز میں بھی وقت پر عام انتخابات ہوتے نظر نہیں آرہے۔ ہرروز کوئی نہ کوئی نیا عذر سامنے آجاتا ہے اور سب بے بسی کی تصویر بنے دکھائی دیتے ہیں۔ واقفانِ حال مصر ہیں کہ اگر کسی کے ذہن میں یہ خوش فہمی ہے کہ مستقبل قریب میں انتخابات ہوسکتے ہیں تو اُسے یہ غلط فہمی دور کرلینی چاہیے۔ معلوم نہیں ابھی ہماری قسمت میں مزید کیا کچھ لکھا ہے۔ ظاہری بات ہے کہ جب آئین شکنی کی روایت مضبوط ہوجائے تو پھر انصاف اپنا وجود کیسے برقرار رکھ سکتا ہے۔ اعلیٰ سطح پر آئین اور قانون کی بے توقیری ہوتو نچلی سطح پر بھی یہی چلن نظر آتا ہے۔
یہ ہے ملک کی اندرونی صورتِ حال‘ دوسری طرف بیرونی محاذوں سے بھی کوئی خیر کی خبر نہیں آرہی۔ افغانستان‘ جس کے بارے میں ہمارا دعویٰ ہے کہ وہ ہمارا برادر ملک ہے اور جس کے لاکھوں شہریوں کو ہم نے اپنے ہاں پناہ دی ہوئی ہے‘ مجموعی طور پر ہمارے اس سے تعلقات بھی کچھ اچھی سمت میں نہیں جا رہے۔ چند روز قبل افغانستان کے جنرل مبین کی ایک وڈیو سامنے آئی‘ اس میں موصوف نے جتنی سخت باتیں کی ہیں‘ انہیں احاطۂ تحریر میں لانا بھی غیرمناسب ہے۔ دوسری طرف مشرقی ہمسایہ ملک بھارت میں آئندہ سال انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ ہمارے ملک میں تو انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں لیکن بھارت میں آئندہ سال انتخابات کا سال ہے۔ بی جے پی کسی بھی صورت اِن انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اِس حوالے بھارتی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینر جی واضح الفاظ میں یہ کہہ چکی ہیں کہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے بھارت کی مرکزی حکومت پلوامہ جیسا کوئی ڈرامہ رچاسکتی ہے۔ ایسی اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ بھارت پاکستان کی سرحدوں کے نزدیک فوجی مشقتوں کاپروگرام ترتیب دے رہا ہے۔ بھارت جیسے ملک سے اور امید بھی کیا رکھی جا سکتی ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ دگرگوں حالات سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہ کرے۔ ایک طرف اندرونی اور بیرونی محاذوں پر یہ حالات ہیں اور دوسری طرف حالات میں بہتری کے لیے کوئی سنجیدگی سرے سے دکھائی نہیں دے رہی۔ اُلٹا ایسے اقدامات کیے جارہے ہیں جو بے یقینی کی صورت حال میں مزید اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ معلوم نہیں ہم کسی خوش فہمی میں ہیں کہ حالات کا ادراک ہی نہیں کرپارہے۔ بجلی کے بلوں والا معاملہ بھی لگتا ہے کہ حکومت کے گلے پڑ چکا ہے۔ حکومت نے تین سو یونٹ والے صارفین کو محض تین ہزار روپے ریلیف دینے کے ایک مجوزہ منصوبے کا اعلان کیا تھا مگر شنید ہے کہ آئی ایم ایف نے اس منصوبے کو بھی یکسر مسترد کر دیا ہے، یعنی حالا ت میں بہتری کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ ایسے میں صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ یا اللہ! ہمارے ملک اور عوام کے ساتھ رحم والا معاملہ فرما۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں