"FBC" (space) message & send to 7575

بیانیوں کا چورن

آجا کے ہمارے پاس یہ بیانات ہی رہ گئے ہیں جن کے بل بوتے پر ہمارے اربابِ اختیار اپنا کام چلا رہے ہیں۔ وہ سب کچھ جو آج سے 70‘ 75 سال پہلے ہوا کرتا تھا‘ اب بھی ہورہا ہے۔ وہی بیانات جو آج سے دہائیوں پہلے پڑھنے اور سننے کو ملتے تھے‘ آج بھی اُنہی بیانات کا چورن بیچا جا رہا ہے۔ ملک کا بیڑہ غرق ہو چکا کہ کسی بھی طرف سے خیر کی کوئی خبر نہیں آتی۔ دنیا کے ممالک قومی مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلے کرتے ہیں اور ہم ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کو مقدم رکھتے ہیں۔ آج دنیا بھر میں روایتی بیانیے تبدیل ہورہے ہیں لیکن ہم ہیں کہ لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں۔ ماضی قریب تک کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان رابطے استوار ہوں گے لیکن اب صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں ہی اسرائیل کے وزیرِ سیاحت ہائم کیٹز اقوامِ متحدہ کے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے سعودی عرب پہنچے تھے۔ امریکہ کی بھرپور کوشش ہے کہ خطے میں اس کے ان دونوں اتحادیوں کے درمیان اچھے تعلقات استوار ہو جائیں اور اس مقصد کے لیے وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ ہائم کیٹز کا دورۂ سعودی عرب بھی اسی سلسلے کی کڑی قرار دیا جا رہا ہے۔ گمان کیا جا رہا ہے کہ اگر ان دونوں ممالک کے درمیان دوستی کا کوئی معاہدہ ہو جاتا ہے تو یہ علاقے میں ڈرامائی تبدیلی کا باعث بنے گا ۔ اس صورتحال کو امریکی صدر جو بائیڈن کی خارجہ پالیسی کی ایک بڑی کامیابی بھی قرار دیا جارہا ہے۔ خود اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو بھی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ ان کا ملک سعودی عرب کیساتھ ایک معاہدے کے بالکل نزدیک پہنچ چکا ہے۔ بلاشبہ معاہدے کی صورت میں سعودی عرب کو بھی بہت سے فوائد کی پیش کش کی گئی ہے۔ اسے سب سے بڑا فائدہ تو یہ حاصل ہوگا کہ امریکہ سویلین نیوکلیئر پروگرام میں سعودی عرب کی مدد کرے گا۔ کسی مشکل کی صورت میں امریکہ سعودی عرب کا اسی طرح ساتھ دے گا جس طرح وہ نیٹو ممالک کا ساتھ دیتا ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل ایک تاریخی معاہدے کے بالکل قریب پہنچ چکے ہیں جس کے طے پا جانے کے بعد دونوں کے لیے اپنی معاشی ترقی کی طرف توجہ دینا بہت آسان ہو جائے گا۔
چین اور بھارت کے درمیان 1962ء میں ایک بڑی جنگ ہو چکی ہے۔ اس جنگ کے بعد بھی دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی ہمیشہ ہی موجود رہی ہے۔ لداخ کے علاقے میں دونوں کے درمیان ہلکی پھلکی جھڑپیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ یہ اسی کشیدگی کا نتیجہ ہے کہ بھارت نے علاقے میں اپنے ملٹری سیٹ اَپ کو بہت ڈویلپ کیا ہے۔ اندازہ ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر بھارت نے اپنے تقریباً 60ہزار کے قریب جوان تعینات کر رکھے ہیں جبکہ دوسری طرف چینی فوجیوں کی بھی اتنی ہی تعداد کے موجود ہونے کا اندازہ ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کچھ مواقع پر تو کشیدگی اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ جنگ کے خطرات منڈلانے لگے۔ ایک دوسرے پر لفظی وار بھی کیے جاتے رہے۔ صورتحال آج بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے لیکن اتنی زیادہ کشیدگی کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا سلسلہ مستقل طور پر جاری رہا۔ اندازہ لگایا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے بھڑنے والے ان دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان آج تجارت کا حجم ایک سو دس ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر چکا ہے جبکہ 2001ء کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم صرف 1.83ارب ڈالر تھا۔ اگرچہ چین کے ساتھ اس لین دین نے بھارت کے تجارتی خسارے میں اضافہ بھی کیا ہے لیکن اس کے باوجود بھارت چین کے ساتھ اپنی تجارت مسلسل بڑھا رہا ہے۔ دونوں کے درمیان تعلقات آج بھی سرد مہری کا شکار ہیں لیکن تجارت کا سلسلہ زوروشور سے جاری ہے۔ سو کہنے کا مطلب صرف اتنا سا ہے کہ سمجھداری کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ خود کوتبدیل کیا جائے۔ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں لیکن قومی مفادات کو ہمیشہ مقدم رکھا جانا چاہیے کہ اسی میں ملکوں کی بقا ہوتی ہے۔ افسوس کہ ہمارے ہاں صورتحال یکسر مختلف دکھائی دیتی ہے۔ بس ہر طرف ایک افراتفری سے نظر آرہی ہے۔ اب تو یہ خوف بھی مستقل طور پر طاری رہتا ہے کہ کہیں آپ کو حقائق کی نشاندہی کرنے کی قیمت ہی نہ ادا کرنی پڑ جائے۔
ان حالات کے پیشِ نظر مایوسی نے تو جیسے ہمارے ہاں مستقل طور پر ہی ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب یہ تاثر عام ہو چکا ہے کہ ہم صرف باتوں سے کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ملک کو آگے لے جانے کا راستہ نکالیں گے۔ دہشت گردوں کو ختم کر کے دم لیں گے۔ کسی کو قانون سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ قومی مفاد کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔ ذخیرہ اندوزوں کو عبرت کا نشان بنایا جائے گا۔ بجلی چوروں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کریں گے۔ ملک کی نظریاتی سرحدوں کو مضبوط بنایا جائے گا۔ عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔ اگر کوئی اس طرح کا بیان رہ گیا ہو تو آپ خود سمجھدار ہیں۔ بس یہی وہ بیانات ہیں جن کے سہارے ہم نے کئی دہائیاں گزار دی ہیں اور آج بھی یہی سب کچھ ہورہا ہے۔ نہ کوئی قانون نظر آتا ہے نہ آئین کی بالادستی دکھائی دیتی ہے۔ اب تو کوئی عقل کا اندھا ہی ہو گا جو ایسے بیانات پر یقین کرتا ہو گا۔ آج مسلم لیگ (ن) کہتی ہے کہ میاں نواز شریف کی ممکنہ واپسی کی صورت میں ملک میں خوشحالی واپس آرہی ہے لیکن وہ اس بات کا جواب دینے کیلئے تیار نہیں ہے کہ میاں صاحب تو چند دنوں کیلئے لندن گئے تھے تو پھر چار سال وہاں کیا کرتے رہے؟ ان کے کتنے میڈیکل ٹیسٹ ہوئے اور کن ڈاکٹرز نے ان کا علاج کیا؟ ظاہر سی بات ہے کہ اس بات کو کوئی جواب نہیں ہے۔
(ن) لیگ کے بقول نواز شریف کی صورت میں ملک میں خوشحالی واپس آرہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو ان آٹھ لاکھ افراد کو ضرور اپنے فیصلے پر افسوس ہوگا جوگزشتہ برس قانونی طریقے سے ملک چھوڑ گئے۔ اب وہ افسوس کرتے پھریں گے کہ ملک میں تو اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری آرہی تھی لیکن وہ بدقسمت رہے کہ اپنا ملک چھوڑ گئے۔ کیا بنا دیا ہے ہم نے اپنے ملک کو کہ اب تو زندگی تسلی دلاسوں پر ہی گزر رہی ہے۔ کوئی اور راستہ ہی نہیں تو پھر ہمارے پاس ان کھوکھلے بیانات پر یقین کرنے کے علاوہ اور کیا چارہ کار رہ جاتا ہے۔ بس ایک اُمید سی ہے کہ شاید کچھ بہتری آہی جائے اگرچہ اس پر یقین کسی کو نہیں ہے۔ ملک کو چوں چوں کا مربہ ہی بنا دیا ہے۔ آئین کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا گیا ہے اور باتیں ہم آئین اور قانون کی بالادستی کی کررہے ہیں۔ فضول سی ایک رَٹ ہے کہ ملکی مفاد‘ ملکی مفاد‘ ملکی مفاد۔ اسی چکر میں ملک کو نفرتوں کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے۔ آئے روز دہشت گردی کے سنگین واقعات رونما ہورہے ہیں اور ہم چالیس سالوں سے ان کا تدارک کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ملکی مفاد کے نام پر مختلف تنظیمیں تشکیل پائیں اور آج یہی تنظیمیں ہمارے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ تنظیمیں راتوں رات کہاں سے وجود میں آجاتی ہیں اور پھر ایک روز ان کے خلاف کارروائی شروع ہو جاتی ہے۔ ایسی درجنوں مثالیں ہمارے سامنے ہیں لیکن رَٹ وہی ہے کہ یہ سب کچھ ملکی مفاد کے پیش نظر کیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ تو جیسے مستقل بنیادوں پر جاری ہے۔ اربابِ اختیار کے خزانے بڑھتے جارہے ہیں اور ملکی خزانہ خالی ہو چکا ہے اور باتیں بدعنوانی کو ختم کرنے کی ہورہی ہیں۔ کبھی اس کے خلاف کارروائی تو کبھی اس کے خلاف کارروائی۔ بات کی تہہ تک جائیں تو بیشتر صورتوں میں اس کی سیاسی وجوہات سامنے آتی ہیں۔ بس آجا کے ہمارے پاس ان بیانیوں کا چورن ہی بچا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں