"FBC" (space) message & send to 7575

غیر قانونی تعمیرات کا جنگل

سردار محمد لاہور کے ایک قدیمی علاقے کی ایک تنگ سی گلی میں رہتے ہیں۔ اُنہیں اپنے گھر میں کچھ مرمتی کام کی ضرورت محسوس ہوئی تو اِس مقصد کے لیے ریت اور اینٹیں منگوا لیں۔ ذہن میں رکھیے کہ اُن کا گھر مین روڈ سے کافی دور‘ ایک تنگ سی گلی میں واقع ہے۔ گلی کے باہر اینٹیں اور ریت وغیرہ پڑی تھی اور گھر کے اندر مرمت کا کام جاری تھا۔ ابھی اِس کام کو دو‘ تین روز ہی گزرے تھے کہ شہر کی ترقیاتی اتھارٹی کے متعلقہ زون کا عملہ وہاں پہنچ گیا۔ عملے نے سردار محمد سے پہلے سے تعمیر شدہ پانچ مرلہ گھر کے اندر تبدیلیوں کا نقشہ طلب کیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں کچھ تعمیر نہیں کر رہا، مرمت کا بہت معمولی سا کام ہے اِس کے لیے نقشے کی کیا ضرورت ہے۔ عملے کی طرف سے سردار محمد کو کیا جواب ملا ہو گا، یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کہا: بابا جی! اِس کے لیے نقشے کی ضرورت ہوتی ہے اور آپ کو معلوم نہیں کہ اب بہت سختی ہوگئی ہے۔ اگر ہم نے آپ کے خلاف کارروائی نہ کی تو ہماری نوکری کا مسئلہ بن جائے گا۔ اِسی دوران اہلِ محلہ بھی اکٹھے ہو گئے جنہوں نے عملے کو سمجھایا کہ معمولی سے کام کے لیے بھلا نقشے کیا ضرورت لیکن عملہ اپنے موقف پر ڈٹا رہا۔ بات کسی نتیجے پر نہ پہنچی تو عملے کے اراکین نے یہ حکم صادر کیا کہ جب تک آپ منظوری نہیں لیں گے‘ تب تک کام شروع مت کیجئے اور اگر فوری کام بند نہ ہوا تو یہ جگہ سیز کر دی جائے گی۔ ابھی یہ بحث چل ہی رہی تھی کہ محلے کا ایک ''چلتا پرزہ‘‘ وہاں پہنچ گیا۔ پہلے وہ تمام صورتِ حال کا جائزہ لیتا رہا۔ اِس کے بعد وہ عملے کے اراکین کو چائے پلانے کے بہانے اپنے گھر لے گیا جہاں پر کچھ ''خدمت گزاری‘‘ کے نتیجے میں نقشے وغیرہ کا معاملہ فراموش کر دیا گیا۔ پھر دونوں سرکاری اہلکار واپس آئے اور بابا سردار محمد سے کہنے لگے کہ آپ کے محلے کے فلاں شخص نے ہمیں بتایا ہے کہ آپ ایک سفید پوش‘ عزت دار آدمی ہیں‘ ٹھیک ہے آپ جو مرمت وغیرہ کرانا چاہتے ہیں‘ وہ کرالیں اور جلدی سے یہ کام نمٹا لیں۔ ساتھ ہی یہ تاکید بھی کی گئی کہ کوئی بھی اِس طرح کا کام شروع کرنا ہو تو پہلے متعلقہ اہلکاروں سے رجوع کیا کریں۔ واضح رہے کہ یہ سب کچھ ایک ایسی جگہ پر ہورہا تھا جو مین شاہراہ سے کافی ہٹ کر‘ ایک نہایت تنگ سی گلی تھی۔ جو بات محلے داروں نے اہلکاروں کو سمجھانے کی کوشش کی تھی وہ تو اُن کی سمجھ میں نہیں آئی لیکن ''چلتے پرزے‘‘ نے اپنے تجربے کی بنا پر تمام معاملہ منٹوں میں حل کردیا اور اہلکار مطمئن ہو کر چلے گئے۔
اب اپنی عقل کے گھوڑے دوڑائیے اوراِس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کیجئے کہ کیسے سرکاری اہلکار ایک دوردراز علاقے کی تنگ سی گلی میں پہنچ گئے۔ اُنہیں ایک‘ دو روز میں ہی معلوم پڑ گیا کہ وہاں کوئی تعمیراتی کام جاری ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ اُنہیں اتنی دور ہونے والی مرمت کے بارے میں معلوم ہوگیا لیکن یہ جو بڑی بڑی شاہراہوں پر غیرقانونی تعمیرات کھمبیوں کی طرح اُگ رہی ہیں‘ وہ اُنہیں دکھائی نہیں دیتیں۔ بوڑھے سردار محمد کی تنگ سی گلی میں پڑا تعمیراتی سامان تو اُنہیں نظر آ گیا لیکن بڑی بڑی شاہراہوں کے کناروں پر پڑا ہوا سامان‘ جس نے سڑک کو بھی بلاک کیا ہوتا ہے‘ اُنہیں دکھائی نہیں دیتا۔
ترقیاتی ادارے کی چشم پوشیاں ایک طرف‘ میٹروپولیٹن کارپوریشن کی ایک رپورٹ کے مطابق لاہور کے چاروں زونز میں چند مہنیوں کے دوران 149 سے زائد بڑی غیرقانونی تعمیرات مکمل ہوچکی ہیں۔ واضح رہے کہ یہ سرکاری رپورٹ میں درج اعتراف نامہ ہے ورنہ چند ماہ کے دوران بڑی غیرقانونی تعمیرات کی تعداد کم از کم ہزاروں میں ہے۔ اگر گزشتہ چند سالوں کو بھی شمار کر لیا جائے تو پھر ایسی تعمیرات کا شمار شاید ممکن نہ ہو پائے جو سرکار کی نظروں سے اوجھل رہیں۔ سرکاری اداروں کی طرف سے آئے روز غیرقانونی تعمیرات کے خلاف ایکشن کے جو بیانات جاری ہوتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ ان پر اب کوئی یقین نہیں کرتا۔ یہ الگ بات کہ ان بیانات کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے اکثر غیرقانونی تعمیرات اور تجاوزات کے خلاف بھرپور کارروائی کا آغاز بھی کیا جاتا ہے لیکن یہ سب کچھ وقتی طور پرہوتا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اِس طرح کی کارروائیوں کامقصد صرف ''ریٹ‘‘ بڑھانا ہوتا ہے اور جب معاملات طے ہوجاتے ہیں تو پھر جو دل چاہے‘ وہ تعمیر کریں۔ ہوتے ہوتے معاملات اب اِس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ گلی محلوں میں جب بھی کوئی گھر یا دکان نئے سرے سے تعمیر کی جاتی ہے تو سڑک کا کچھ حصہ بھی اِس میں شامل کرلیا جاتا ہے۔ مجال ہے کہ سرکاری خزانے سے بھاری تنخواہیں وصول کرنے والے اہلکار اِس کے خلاف کوئی ایکشن لیتے ہوں۔ ہم نے خود ایسی کئی سڑکیں‘ کئی گلیاں‘ کئی راستے دیکھ رکھے ہیں کہ جو چند سال قبل تک اینٹوں سے بھرے ٹرکوں کی گزرگاہ تھے لیکن آج وہاں سے چھوٹی گاڑی گزارنا بھی ناممکن ہو چکا ہے۔ گھروں اور دکانوں کے سامنے تجاوزات قائم کرکے رہی سہی کسر پوری کردی گئی ہے۔
صرف لاہور کی کینال روڈ کی بات کرلیتے ہیں۔ ایک طویل عرصے سے اِس کے دونوں کناروں پر تعمیرات پر پابندی عائد ہے۔ اِس کے باوجود یہ تعمیرات اتنے تسلسل کے ساتھ جاری ہیں کہ دیکھ کر حیرانی ہونے لگتی ہے کہ اگر یہ سب کچھ کھلے عام ہی ہونا ہے تو پھر کیوں تعمیرات پر برائے نام پابندی عائد کر رکھی ہے۔ دفتر آنے‘ جانے کے لیے ہرروز ا س شاہراہ سے گزر ہوتا ہے اِس لیے یہاں کی صورتحال سے بخوبی واقف ہوں۔ ایک روز دیکھا کہ کچھ اہلکار ایک عمارت کا کچھ حصہ گرانے کے بعد‘ عمارت کے مالک سے بحث میں مصروف تھے۔ مالک کا موقف تھا کہ یہ سب کچھ کرنے سے پہلے میں دفتر میں آپ سے مل کر تو آیا تھا پھر یہ کارروائی کیوں؟یقین کریں کہ مالک کے اس سوال کا جواب سن کر ہم حیران رہ گئے۔ متعلقہ اہلکار نے جواب دیا کہ آپ کا جو بھی معاملہ طے ہوا تھا اُس کے مطابق آپ کی تعمیرمکمل ہوچکی ہے لیکن یہ حصہ آپ نے ہم سے ملے بغیر تعمیر کیا۔ آپ کو نہیں معلوم کہ آج کل کتنی سختی ہے۔ طوہاً و کرہاً عمارت کے مالک نے ایک مرتبہ پھر دفتر آکرملنے کی ہامی بھر لی۔ چند روز بعد وہاں مستری دوبارہ تعمیرات میں مصروف نظر آئے۔ واضح رہے کہ یہ عمارت مین روڈ کے کنارے پر واقع ہے۔ صرف اِس ایک شاہراہ پر ایسی ہزاروں نہیں تو سینکڑوں تعمیرات ضرور دیکھی جاسکتی ہے جو ''پابندی‘‘ کے بعد وجود میں آئیں۔
کہنے کو تو لاہور کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جا سکتے ہیں کہ اس جیسا شہر پوری دنیا میں نہیں، اِس کی فضاؤں میں ایک مہک رچی بسی ہے، جس کے دل میں یہ شہر ایک بار بس جائے تو پھرکبھی نہیں نکلتا، وغیرہ وغیرہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اِس شہر کو اب کنکریٹ کا جنگل بنادیا گیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ رہائشی علاقوں میں سرکاری اہلکاروں کی مبینہ ملی بھگت سے کمرشل پلازے تک تعمیر ہوچکے ہیں۔ اِن پلازوں کے باعث اِرد گرد کے رہائشی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ معاملات طے کرنے والے اہلکار تو اپنی جیبیں گرم کر کے دیگر مقامات پر معاملات طے کرنے میں مصروف جاتے ہیں لیکن ان پلازوں کے گرد رہنے والوں کو ہمیشہ کے لیے کسی جہنم میں جھونک دیا جاتا ہے۔ کارروائیوں کے بیانات ہوں یا شہر کو خوبصورت بنانے کے دعوے‘ ان کی حقیقت سے ہم بخوبی واقف ہیں۔ دراصل یہ شہر اب کنکریٹ اور تجاوزات کا ایسا جنگل بن چکا ہے جس کے بے ہنگم پن نے اِس کے تمام حسن اور تاریخی ورثے کو تباہ کرکے رکھ دیاہے۔ یہ سب کچھ ملی بھگت سے ہوتا رہا اور اب بھی ہو رہا ہے۔ میں چونکہ طویل عرصے تک بطور رپورٹر بلدیات کو کور کرتا رہا لہٰذا بخوبی اندازہ ہے کہ یہ سب معاملات کیسے طے ہوتے ہیں، خوب معلوم ہے کہ تجاوزات کے خلاف کارروائیوں کا ڈول کب اور کیوں ڈالا جاتا ہے۔ یقینا بطور شہری ہم سب نے اپنے فرائض سے کوتاہی برتی ہے اور سب نے مل کر اس شہرِ بے مثال کو برباد کیا۔ ستم بالائے ستم‘ بربادی کا یہ سفر اب تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس بربادی میں سب سے زیادہ کردار ان اداروں نے ادا کیا جو اِس کی خوب صورتی کے ذمہ دار ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ بیانات،کارروائیاں اور تمام آنیاں جانیاں صرف دکھانے کے لیے ہیں، اندر کھاتے سب کچھ چلتا چلا جا رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں