"FBC" (space) message & send to 7575

غزہ کے مظلومین کی حالتِ زار

بالآخر وہی ہوا جس کا خدشہ انتہائی شدت کے ساتھ محسوس کیا جا رہا تھا۔ غزہ کا مختصر سا علاقہ وہاں رہنے والوں کے لیے قبرستان بنا دیا گیا ہے۔ 41 کلومیٹر طویل اور قریب 10 کلومیٹر چوڑائی کی حامل غزہ کی پٹی میں اسرائیلی طیاروں نے ایسی تباہی مچائی ہے کہ جس کی جدید دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ کارپٹ بمباری کے ذریعے پورے شہری علاقے کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے۔ شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد چار ہزار کو چھو رہی ہے۔ دس لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں اور بچے کھچے فلسطینی اپنے علاقوں سے نکلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ہسپتالوں میں طبی سامان کی شدید ترین کمی ہو چکی ہے جبکہ ایندھن بھی ختم ہو چکا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ غزہ کے لیے تمام سپلائی اسرائیل کے راستے ہی سے عمل میں آتی ہے جسے اسرائیل نے جنگ کا آغاز ہونے کے بعد سے بند کر رکھا ہے۔ اِس صورت حال سے متاثر ہونے والوں میں بچوں کے علاوہ حاملہ خواتین کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔ اسرائیلی بربریت دیکھئے کہ اُس کی طرف سے غزہ کے ہسپتالوں کو خالی کرنے کی مسلسل وارننگز دی جا رہی ہیں اور ایک کے بعد ایک ہسپتال کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ مختصراً یہ کہ اسرائیل پر حماس کے حملوں کے بعد سے اسرائیل نے جیسے تہیہ کر لیا ہے کہ وہ حماس سمیت پورے غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹا دے گا۔ اِس مقصد کے لیے اُس نے غزہ پر جو وحشیانہ بمباری کی ہے‘ اُس نے سبھی کو دکھی کر دیا ہے۔ حماس نے اسرائیل کے خلاف جس آپریشن الاقصیٰ کا آغاز کیا‘ ابتدائی طور پر اِس میں متعدد اسرائیلی مارے گئے اور درجنوں کو یرغمال بنا لیا گیا مگر اب جو غزہ کے ساتھ ہو رہا ہے‘ وہ بہت سنگین ہے۔ حماس کے حملے کے فوراً بعد ہی ایسے خدشات نے پوری شدت کے ساتھ سر اُٹھانا شروع کر دیا تھا کہ اب اسرائیل کی طرف سے شدید ترین حملہ ہوگا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ حماس کے حملے سے اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے تصور کو بھی شدید زک پہنچی۔ جو ملک تین بڑے عرب ممالک کو ایک ساتھ تین جنگوں پر بدترین شکست سے دوچار کر چکا ہو، اُس کے لیے ایسا حملہ کسی بھی جنگ سے بڑھ کر تھا۔ بتایا جا رہا ہے کہ ماضی کی تینوں بڑی جنگوں میں مجموعی طور پر اسرائیل کا اتنا زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا جتنا حماس کے حالیہ حملے میں اسے برداشت کرنا پڑا۔
حماس کے کامیاب حملوں پر عرب دنیا میں جشن منایا گیا لیکن اُس کے بعد سے غزہ اور اِس کے مکین شدید ترین مصائب میں گھر چکے ہیں۔ ایسے خدشات بھی سامنے آ رہے ہیں کہ اسرائیل اِس علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد شاید اِسے دوبارہ اسرائیل میں ضم کر لے گا۔ اسرائیل کی ماضی کی تاریخ کم از کم یہی بتاتی ہے۔ جب 1948ء میں اسرائیل کے قیام کا اعلان ہونے جا رہا تھا تو ہمسایہ عرب ممالک اور اسرائیل پہلی مرتبہ ایک دوسرے سے ٹکرائے تھے۔ اِس ٹکراؤ میں اسرائیلیوں نے فلسطینیوں پر ظلم کے ایسے پہاڑ توڑے کہ فلسطینیوں کی کثیر تعداد اپنا آبائی وطن چھوڑنے پر مجبور ہو گئی۔ 15 مئی 1948ء تک فلسطین میں اسرائیل کے قیام کے خلاف مقامی مزاحمت دم توڑ چکی تھی جس کے ساتھ ہی 14 اور 15مئی 1948ء کی درمیانی شب کو تل ابیب میں اسرائیلی ریاست کے قیام کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا۔ اِس پہلے ٹکراؤ کے دوران اسرائیل نے فلسطین کے کم و بیش اسی فیصد علاقے پر اپنا تسلط قائم کر لیا اور فلسطینیوں کے پاس صرف بیس فیصد علاقہ ہی بچا۔ اِسی طرح 1967ء کی دوسری عرب‘ اسرائیل جنگ میں بھی اسرائیل نے غزہ اور مصر کے صحرائے سینا کے کم و بیش ایک لاکھ آٹھ ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔ اِسی جنگ میں شام کو بھی گولان کی پہاڑیوں سے محروم ہونا پڑا۔ یہ پہاڑیاں آج تک اسرائیل کے قبضے میں ہیں جہاں سے وہ اکثر شامی علاقوں کو نشانہ بناتا رہتا ہے۔ مطلب اُس نے ابھی تک شام کو اُس کا وہ علاقہ واپس نہیں کیا جس پر اُس نے 1967ء کی جنگ میں قبضہ کیا تھا۔ اِس جنگ کے دوران اُردن کو بھی اپنے بہت سے علاقوں سے محروم ہونا پڑا۔ 1973ء کی تیسری عرب اسرائیل جنگ کی ابتدا میں مصر اور شام کے اتحاد کو کافی کامیابیاں حاصل ہوئیں لیکن بعد میں امریکی امداد کے باعث جنگ کی صورت حال اسرائیل کے حق میں پلٹنے لگی۔ اِس جنگ کا البتہ اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ مصر اپنا بیشتر رقبہ واپس لینے میں کامیاب رہا۔ بعد میں مصر اور اُردن نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدات کر لیے اور اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے سفارتی تعلقات قائم کر لیے جس کے نتیجے میں اِن دونوں کو اپنے بیشتر مقبوضہ علاقے واپس مل گئے۔ مطلب اگر امن معاہدات نہ ہوتے تو یہ علاقے شاید آج بھی اسرائیل کے قبضے میں ہوتے۔
تاریخ کے اِس پس منظر میں یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ اِس جنگ میں غزہ کے علاقے کو سنگین خطرہ لاحق ہے۔ حماس نے جو بھی پلاننگ کی تھی‘ اسرائیل کے وحشیانہ ردِعمل نے سب کچھ ملیامیٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ اب غزہ کے رہائشی شدید ترین مشکلات کا شکار ہو چکے ہیں، بے شمار فلسطینی اپنی جانوں سے محروم ہو چکے ہیں اور علاقے میں ہر طرف موت برس رہی ہے۔ اسرائیل اپنی طاقت کا جس طرح وحشیانہ انداز میں استعمال کر رہا ہے‘ اِس کے سامنے کوئی مزاحمت نہیں ہے۔ صورتحال تب زیادہ سنگین ہو جاتی ہے جب غزہ کو تمام غذائی سامان اور ایندھن وغیرہ کی سپلائی کو بلاجواز روک دیا جاتا ہے۔ اسرائیل کی طرف سے اِس سپلائی کو بند کیے جانے کے بعد سے علاقے میں ایک سنگین انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ایک طرف طاقت کا برہنہ ناچ ہے اور دوسری طرف بمباری برداشت کرتے بے گناہ فلسطینی۔ اِس صورتحال کو جو مرضی نام دیا جائے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اسرائیل نہ صرف خطے کی سیاسی بلکہ جغرافیائی ساخت بھی تبدیل کرنے کے مذموم عزائم لیے ہوئے ہے جس کے واضح آثار دکھائی دینا شروع ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف مسلم ممالک محض زبانی مذمتوں پر اکتفا کیے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کے ہمنوا امریکہ، برطانیہ اور جرمنی کے سربراہِ ریاست اسرائیل کا دورہ کر کے اسے اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلا چکے ہیں۔ امریکہ اسرائیل کی مدد کے لیے بحری بیڑے بھیجنے کے علاوہ فوجی دستے بھیجنے کا بھی اعلان کر چکا ہے مگر مسلم ممالک تاحال تماشا دیکھ رہے ہیں۔ کسی ایک رہنما کو یہ جرأت نہیں ہو سکی کہ غزہ کے تباہ حال علاقوں کا دورہ ہی کر سکے، دورہ کرنا تو دور کی بات‘ وہ تو مصر کے راستے تاحال امداد بھی غزہ تک نہیں پہنچا سکے ہیں۔
مسلم ممالک کی اکثریت ابھی تک عالمی ردِعمل کی جمع تفریق میں مصروف نظر آ رہی ہے۔ سب کیلکولیٹر ہاتھ میں لیے بیٹھے ہیں کہ اگر وہ فلسطین کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں تو اُن کے لیے معاشی طور پر کیا مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اسرائیل کی مذمت کرنے پر اُنہیں اپنے مغربی آقاؤں کی طرف سے کس طرح کی اور کتنی سزا مل سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک سوائے ایران کے‘ کسی ایک بھی مسلم ملک کی طرف سے کوئی ٹھوس آواز نہیں اُٹھی۔ سبھی خوشنما خبروں سے دل بہلا رہے ہیں کہ ایک اہم مسلم ملک کے ولی عہد نے امریکی وزیر خارجہ کو ملاقات سے پہلے گھنٹوں انتظار کرایا، یا یہ کہ ترکیہ نے اسرائیلی حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی، یمن کی انصار اللہ نے اسرائیل پر ڈرون حملوں کا عندیہ دیا وغیرہ وغیرہ۔ پاکستان کے نگران وزیراعظم کے مطابق‘ حکومتِ پاکستان صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیل کے اردگرد واقع مصر، اُردن اور شام کی طرف سے بھی کوئی آواز بلند نہیں ہو رہی۔ شاید اُنہیں اپنے اقتدار کی فکر لاحق ہے جو اسرائیل اور مغرب کا مرہونِ منت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جن حکمرانوں کی جڑیں عوام میں نہیں ہوتیں‘ انہیں ہر لمحے اقتدار کے چھن جانے کا خوف ستاتا رہتا ہے۔ مصر، اُردن اور شام میں اقتدار کی یہی صورتحال ہے۔ شام کے صدر بشار الاسد نے بمشکل روس اور ایران کی مدد سے اپنا اقتدار بچایا ہوا ہے‘ اُنہیں فلسطین کے ایشو میں اپنے اقتدار کو خطرے میں ڈالنے کی کیا پڑی۔ مصر میں جنرل سیسی کی حکومت امریکی اشیرباد کی مرہونِ منت ہے۔ خطے کے باقی ممالک کی صورتحال بھی زیادہ مختلف نہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے موجودہ حالات اور ماضی کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے اِس بات کے امکانات نظر نہیں آتے کہ فلسطینیوں کو مسلم ممالک کی طرف سے زبانی بیانات کے علاوہ کوئی ٹھوس مدد مل سکے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں