"FBC" (space) message & send to 7575

صرف انتخابات نہیں…

آٹھ فروری کو انتخابات کے انعقاد کا نقارہ بج چکا ہے جس کے بعد سے سیاسی سرگرمیوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ مختلف اطراف سے سروے بھی سامنے آ رہے ہیں جنہیں دیکھ کر سیاسی رجحانات کا اندازہ ہو رہا ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے انتہائی واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ انتخابات ہرصورت آٹھ فروری کو ہو جانے چاہئیں۔ عدالتِ عظمیٰ کی طر ف سے تو یہاں تک کہا گیا کہ انتخابات کے حوالے سے ابہام پیدا کرنے کی کوئی بھی کوشش ناپسندیدہ قرار پائے گی۔ یہ اچھی بات ہے‘ اس سے اب سب کو یقین ہو جانا چاہیے کہ انتخابات اب ہو کر رہیں گے لیکن ان ریمارکس سے یہ بھی تاثر ابھرتا ہے کہ شاید عدلیہ بھی کہیں نہ کہیں یہ محسوس کرتی ہے کہ تاریخ دیے جانے کے باوجود انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے گومگو کی کیفیت بہرحال پائی جاتی ہے۔ دراصل جن ممالک میں آئین کے ساتھ کھلواڑ معمول بن چکا ہو وہاں شکوک و شہبات کا پیدا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہم نے جب چاہا آئین کولپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا اور اپنی من مانیاں کرتے رہے۔ متعدد مواقع پر ہم اپنی اِس روش کا نتیجہ بھگت بھی چکے لیکن سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ اندازہ کریں کہ ملک کے قیام کے بعد‘ طویل عرصے تک ہمیں کوئی متفقہ آئین ہی نصیب نہیں ہو سکا۔ خدا خدا کر کے 1973ء میں پہلا متفقہ آئین تو مل گیا مگر وہ بھی ہمیشہ اپنا آپ منوانے کی تگ و دو میں ہی مصروف نظر آیا۔ کیا ترقی کرنے والی قوموں کا یہ چلن ہوتا ہے کہ وہ آئین کی بالادستی ہی کو تسلیم نہ کریں؟ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ جو کچھ پنجاب اور کے پی میں ہوا اور ہو رہا ہے‘ وہ سب کے سامنے ہے کہ نوے روز میں انتخابات کرانے کی شق کو درخورِ اعتناہی نہیں سمجھا گیا۔ اب اگر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا گیا ہے تو ساتھ ہی یہ تنبیہ بھی کی گئی ہے کہ کوئی انتخابات کے حوالے سے ابہام پیدا کرنے کی کوشش نہ کرے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ واضح آئینی میعاد سے کھلواڑ کرنے والوں کے حوالے سے بھی کوئی کارروائی کی جاتی۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ آٹھ فروری کو انتخابات کا انعقاد نوے روز کے اندر انتخابات کرانے کی آئینی شق کو بہرحال پورا نہیں کرتا کہ آئین کے مطابق یہ الیکشن اس ہفتے کے اختتام تک ہو جانا چاہئے تھے۔ بہرکیف‘ اب آٹھ فروری کو ہی سہی‘ خدا کرے کہ یہ بیل منڈھے چڑھ جائے۔ دعا ہے کہ مجوزہ انتخابات کے نتیجے میں ملک ایک مرتبہ پھر درست ڈگرپر چل نکلے اور یہ جو عجیب وغریب حالات پیدا ہو چکے ہیں‘ اُن سے نجات حاصل ہو جائے۔
ایسے میں یہ سوال اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ کیا صرف انتخابات کا انعقاد کافی ہو گا؟ کیا اِس کے نتائج کو سبھی جماعتیں تسلیم کر لیں گے یا ایک بار پھر جوتیوں میں دال بٹنا شروع ہو جائے گی۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انتخابات کے حوالے سے ہماری تاریخ زیادہ درخشاں نہیں ہے۔ ملک میں پہلے عام انتخابات 1970ء میں ہوئے تھے جن کے نتیجے میں ملک ہی دولخت ہو گیا۔ قیامِ پاکستان کے تئیس برس بعد ملک میں پہلے عام انتخابات کا انعقاد ہوا جس میں ہر شخص کو ووٹ کا حق ملا۔ اس سے قبل مقامی یعنی بلدیاتی حکومتوں کے ممبران ہی ارکانِ اسمبلی کا انتخاب کیا کرتے تھے۔ 1970ء میں پہلے عام انتخابات کے دوران ہر کوئی اپنا اپنا راگ الاپنے لگا۔ تب تین سو انتخابی حلقوں میں سے 162 مشرقی پاکستان اور 138 مغربی پاکستان میں تھے۔ عوامی لیگ نے ان انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی تھی لیکن مغربی پاکستان میں فتح حاصل کرنے والے اُس کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ملکی تاریخ کا انتہائی تلخ اور دردناک باب ہے۔ یہ زخم آج تک مندمل نہیں ہو سکے۔ اگر اِس کے بعد ہی کچھ سبق سیکھ لیا جاتا تو شاید زخموں کی تکلیف قدرے کم ہو جاتی لیکن مجال ہے کہ اس کے بعد بھی روش تبدیل کی گئی ہو۔ 1973ء میں ملک کو پہلا متفقہ آئین نصیب ہوا مگر اس کے چار سال بعد ہی آئین کو لپیٹ دیا گیا اور آئین ساز کو پھانسی کے پھندے پر جھولنا پڑا۔ ایک آمر نے سب کچھ روند کر رکھ دیا۔ موصوف کے نزدیک آئین محض ایک کاغذ کا ٹکڑا قرار پایا۔ اپنی حکومت کو دوام بخشنے کے لیے آئین میں ایسی ایسی ترامیم کی گئیں کہ اِس کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا۔ ایک حادثے میں اس آمر کی ہلاکت کے بعد ملک میں جمہوریت کے نام پر سانپ سیڑھی کا کھیل شروع ہو گیا اور نتیجتاً نہ کوئی وزیراعظم اور نہ ہی کوئی اسمبلی اپنی مدت پوری کر سکی۔ افسوسناک حقیقت یہ بھی ہے کہ ملک کو وجود میں آئے ساڑھے سات دہائیوں سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن آج تک اِس ملک میں کوئی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا اور ہر بار وزیراعظم کو گھر بھیجنے کی خاطر یہی دعوے کیے گئے کہ سب کچھ ملکی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جا رہا ہے۔ بات بہت سیدھی اور صاف ہے کہ یہاں جمہوریت، آئین اور ملکی و قومی مفاد کے نام پر جو کچھ بھی کیا جاتا ہے‘ اُس کا واحد مقصد محض ذاتی مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ جب بھی ذاتی و مالیاتی مفادات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ محسوس ہوتا ہے‘ سب کچھ لپیٹ کر رکھ دیا جاتا ہے۔
موجودہ حالات بھی ماضی سے زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ ایک عجیب سی افراتفری مچی ہوئی ہے۔ کچھ پلے نہیں پڑ رہا کہ کوئی ملک چھوڑ کر گیا تھا تو کیوں گیا تھا اور اب چار برس بعد اتنے پروٹوکول کے ساتھ واپس آیا تو کیوں لایا گیا ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ یا تو تب انہیں گھر بھیجنا غلط تھا یا اب واپس بلانا غلط ہے۔ دوسری طرف واپسی کی راہ جس طرح ہموار بنائی گئی‘ ایسا شاید ہمارے جیسے ممالک میں ہی ممکن ہے۔ اب عوامی سطح پر یہ بھرپور تاثر موجود ہے کہ وہ چاہے جسے بھی ووٹ دیں‘ وزیراعظم یہی صاحب بنیں گے۔ یہ شاید ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ انتخابات کے نتائج کے حوالے سے انتخابات سے قبل ہی ایک شکوک و شبہات جنم لے چکے ہیں۔ یہ تاثر اِس لیے بھی مضبوط ہوا ہے کہ مخالفین مسلسل کارروائیوں کی زد میں ہیں۔ اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ آج کے دور میں لوگ کچھ جانے سمجھے بغیر ہی ہر بات پر یقین کر لیں۔ سو‘ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عوامی سطح پر اُبھرنے والے سوالات میں شدت آتی چلی جا رہی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ جیسے جیسے انتخابات قریب آتے جائیں گے‘ ویسے ویسے اِن سوالات کی شدت بھی بڑھتی جائے گی جس کے نتیجے میں حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہونے کے خدشات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
عوامی سطح پر جو اضطراب پایا جاتا ہے‘ اُس کی ایک جھلک نگران وزیراعظم کے ایک تعلیمی ادارے کے دورے کے دوران بھی دیکھنے میں آئی۔ سوالات پوچھنے والے طالب علموں کو اب بھلے جو کچھ بھی کہا جاتا رہے لیکن سوال یہ ہے کہ اُن کے سوالات میں غلط کیا تھا؟ ایسا کوئی سوال نہیں پوچھا گیا جسے اخلاق سے گرا ہوا یا غیر متعلقہ قرار دیا جا سکے۔ اگر آئین اور قانون پر عملدرآمد نہ ہونے کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات پر بھی تنقید ہی کرنی ہے تو پھر کیا کہا جا سکتا ہے۔ کوئی اِس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ آج اشرافیہ سے لے کر ایک ریڑھی والے تک‘ سب کے ذہنوں میں ایسے ہی سوالات کلبلا رہے ہیں جن کے اُنہیں کہیں سے جواب نہیں مل رہے۔ ایسے میں اگر مجوزہ عام انتخابات کے نتائج پر شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں تو پھر صورتحال کی خرابی کے خدشے کو کیونکر رد کیا جا سکتا ہے۔ سو‘ ضروری ہے کہ نہ صرف بہرصورت مقررہ تاریخ پر انتخابات منعقد ہوں بلکہ یہ صاف اور شفاف بھی ہوں۔ ایسے صاف اور شفاف کہ کسی کو ان کے نتائج پر انگلی اُٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔ ہماری اِس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو گی کہ اب تک ملک میں جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں‘ اُن کے نتائج پر ہمیشہ انگلیاں ہی اُٹھتی رہی ہیں اور اب جو انتخابات ہونے جا رہے ہیں‘ اس حوالے سے انتخابات سے قبل ہی شکوک و شبہات کے بادل چھانا شروع ہو چکے ہیں۔ بہرحال یہ دعا تو کی ہی جا سکتی ہے کہ یا الٰہی! ہمارے ملک کی خیر فرما اور ہم سب کو اپنے ذاتی مفادات سے آگے بڑھ کر ملکی مفادات کے لیے سوچنے کی توفیق عطا فرما، آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں