"FBC" (space) message & send to 7575

کرکٹ ورلڈکپ جیتنے کاخواب‘ پھر ہوا چکناچور

نیوزی لینڈ اور سری لنکا کے مابین کھیلے جانے والے میچ تک قومی کرکٹ ٹیم کے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پہنچنے کی اُمیدیں برقرار تھیں۔ سری لنکا اگر نیوزی لینڈ کے خلاف فتح حاصل کرلیتا اور اُس کے بعد ہم انگلینڈ کو شکست دے دیتے تو قومی کرکٹ ٹیم سیمی فائنل میں پہنچ جاتی۔افسوس کہ توقعات پوری نہ ہو سکیں اور نیوزی لینڈ نے پاکستان کے لیے اہم ترین میچ میں سری لنکا کو بہ آسانی شکست دے کر ہمارے تمام خواب چکنا چور کردیے۔ ایک دعا یہ بھی مانگی جا رہی تھی کہ کاش دونوں ٹیموں کا میچ ہی نہ ہو پائے اور بارش ہوجائے، میچ بے نتیجہ رہنے سے دونوں ٹیموں کو مساوی پوائنٹس مل جاتے اور پاکستان کے آگے جانے کی راہ ہموار ہو جاتی مگر یہ بھی نہیں ہو سکا اور نیوزی لینڈ فتح یاب ٹھہرا۔ اس میچ میں سری لنکا کی پوری ٹیم پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 171کے مجموعی سکور پر آؤٹ ہوئی تو نتیجہ دیوار پر لکھا دکھائی دینے لگا لیکن پھر بھی ایک آس‘ ایک اُمید تھی کہ شاید نیوزی لینڈ کے بیٹرز کے بلوں میں ''کیڑے‘‘پڑ جائیں ۔ کاش اُنہیں گیند ہی دکھائی نہ دے اور سری لنکا کے باؤلرز اُنہیں ٹارگٹ پورا ہونے سے پہلے ہی آؤٹ کر لیں لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہو سکا جس کے نتیجے میں ہمارے تمام خواب چکنا چور ہو گئے۔
اِس میچ کے بعد صورتحال کچھ یوں بنی کہ اگر پاکستان انگلینڈ کے خلاف میچ کھیلتے ہوئے تین سو رنز بنا لیتا اور بعد میں انگلینڈ کی ٹیم کو تیرہ رنز پر آل آؤٹ کرلیتا تو وہ سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کرسکتا تھا ۔ اگر پاکستان پہلے باؤلنگ کرتے ہوئے انگلینڈ کی ٹیم کو پچاس رنز پر آؤٹ کرلیتا اور بعد میں یہ ہدف پندرہ گیندوں پر حاصل کرلیتا تب بھی وہ سیمی فائنل کھیل سکتا تھا ۔ ظاہری بات ہے کہ دونوں صورتوں میں ہی یہ ٹارگٹ حاصل کرنا ناممکن تھا اِس لیے ہونی ہوکر رہی اور قومی کرکٹ ٹیم سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ 2019ء کے کرکٹ ورلڈ کپ میں بھی پاکستان اور نیوزی لینڈ کے پوائنٹس برابر تھے لیکن نیٹ رن ریٹ کی بنیاد پر نیوزی لینڈ کی ٹیم سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔اب کے پھر وہی صورتحال بنی؛ البتہ یہ کہہ کر دل کو تسلی دی جا سکتی ہے کہ کھیل میں ہارجیت تو ہوتی رہتی ہے۔
جو ہوا‘ سو ہوا لیکن ایک حقیقت یہ ہے کہ ورلڈ کپ کے لیے ٹیم کا اعلان ہوتے ہی اِس حوالے سے بہت سی تنقیدی گفتگو ہونا شروع ہو گئی تھی۔ کرکٹ مبصرین کی طرف سے ایسی آرا کا اظہار ہونے لگا تھا کہ مناسب ٹیم سلیکٹ نہیں کی گئی جس کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے اور پھر ایسا ہی ہوا۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر یہی ٹیم بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی تو سب تنقید دھری کی دھری رہ جاتی لیکن ٹیم اوسط درجے کی کارکردگی کا مظاہرہ ہی کر پائی۔ تمام میچز کے دوران ایک بات واضح طور پر محسوس کی گئی کہ ہماری قومی ٹیم نے ضرورت سے زیادہ دفاعی حکمت عملی اختیار کیے رکھے۔ یہ تصور بہت پرانا ہوچکا ہے کہ پہلے اوورز میں وکٹ سنبھال کر رکھنی چاہیے اور بعد میں تیز کھیل کر زیادہ سے زیادہ رنز بنانے چاہئیں۔ ہماری یہ حکمت عملی کافی نقصان دہ ثابت ہوئی کیونکہ ہربڑی ٹیم کوشش کرتی ہے کہ میچ کے آغاز پر پہلے پاور پلے کے دوران زیادہ سے زیادہ رنز بنائے ۔ جنوبی افریقہ اس ضمن میں ایک لائقِ تقلید مثال ہے۔اس ورلڈ کپ میں اس نے اپنے پہلے میچ میں سری لنکا کے خلاف 428‘ آسٹریلیا کے خلاف 311 اور انگلینڈ کے خلاف 399 رنز بنائے۔ بنگلہ دیش اور نیوزی لینڈ کے خلاف بھی اس نے 350 سے زیادہ رنز بنائے۔ دوسری جانب فخر زمان کو باہر بٹھائے رکھنے کا بھی ہمیں خمیازہ بھگتنا پڑا۔ فخرزمان کی جگہ امام الحق کو کھلایا گیا جو یقینا ایک اچھا کھلاڑی ہے لیکن وہ میچ وننگ کھلاڑی نہیں ہے۔ جب امام الحق کو باہر بٹھا کر فخر زمان کو کھلایا گیا تو اُس کی شاندار کارکردگی نے سب کے منہ بند کردیے۔نیوزی لینڈ کے خلاف اُس کی بیٹنگ تادیر یاد رکھی جائے گی ۔ اگر میچ بارش کے باعث ختم نہ ہوتا تو بھی یوں محسوس ہوتا تھا کہ پاکستان اِس میچ میں چارسو دو رنز کا ٹارگٹ حاصل کرکے نئی تاریخ رقم کردے گا۔
کپتان بابر اعظم کا بلا بھی اس ٹورنامنٹ میں رنز اُگلنے میں ناکام رہا اور وہ اپنی پوری فارم میں دکھائی نہ دیے۔ بابر اعظم جیسے ورلڈ کلاس بیٹسمین سے بہت سی اُمیدیں وابستہ تھیں لیکن وہ پوری نہ ہوسکیں اور وہ پورے ٹورنامنٹ کے دوران کسی دباؤ میں نظرآئے۔ یہ وہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ وہ کس چیز کا دباؤ محسوس کر رہے تھے لیکن بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ اندرونی اختلافات کپتان بابر اعظم کے لیے پریشانی کا باعث بنے رہے۔ اگرچہ کرکٹ بورڈ کی طرف سے اختلافات کی تردید کی گئی ہے لیکن دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے۔
ٹیم میں اختلافات کی خبریں اِس تناظرمیں سامنے آرہی تھیں کہ ورلڈ کپ سے پہلے ایشیا کپ میں سری لنکا سے شکست کے بعد ڈریسنگ روم میں ماحول کافی تلخ تھا۔ مبینہ طور پر کپتان نے تمام کھلاڑیوں کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کیا اوراِس موقع پر اُن کی شاہین شاہ آفریدی سے کچھ تکرار بھی ہوئی جس پر محمد رضوان نے مداخلت کرکے معاملہ ٹھنڈا کیا۔دوسری طرف کرکٹ بورڈ کے معاملات بھی اکثر و بیشتر ڈانواں ڈول رہتے ہیں۔ جو بھی جماعت برسراقتدار آتی ہے وہ کرکٹ بورڈ کی چیئرمینی کو بھی ریوڑی کی طرح بانٹنا ضروری سمجھتی ہے۔ بورڈ کے موجودہ سربراہ کی تعیناتی کس طرح عمل میں آئی تھی‘ یہ سب کے سامنے ہے کہ کیسے ایک سیاسی جماعت کے دباؤ پرنجم سیٹھی کو ہٹا کر نیا بورڈ چیئرمین بنایا گیا۔اِس کے بعد سے ہمار ا کرکٹ بورڈ واضح طور پر دوگروپوں میں تقسیم دکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف وہ ہیں جنہیں اپنی برطرفی کا خوف ہے اور دوسری طرف وہ ہیں جو موجودہ چیئرمین کے دور میں تعینات ہوئے۔ کرکٹ بورڈ کی یہ روایت رہی ہے کہ جو بھی نیا چیئرمین آتا ہے‘ وہ اپنے ساتھیوں کو ضرور ایڈجسٹ کرتا ہے اِس لیے جب بھی نئے چیئرمین کی تعیناتی عمل میں آتی ہے تو بورڈ میں اتھل پتھل شروع ہوجاتی ہے۔پسند‘ ناپسند کی بنیاد پر تقرریاں اور تبادلے ہوتے ہیں۔ یہ باتیں بھی سامنے آچکی ہیں اربابِ سیاست کی جانب سے کچھ مزید احباب کو بورڈ میں ایڈجسٹ کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ظاہری بات ہے کہ اگر یہ سب حقیقت ہیں تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ بورڈ کے معاملات دگرگوں نہ ہوں۔یہ بھی ممکن نہیں کہ بورڈ کے معاملات اگر اچھے نہ چل رہے ہوں تو اِن کا اثر ٹیم کی کارکردگی پر نہ پڑے۔ جو کچھ چیف سلیکٹر کے استعفیٰ کے معاملے میں ہوا‘ وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ انضمام الحق نے استعفیٰ دینے کے لیے وطن واپسی تک کا بھی انتظار نہیں کیا یا پھر اُنہیں اتنی مہلت بھی نہیں دی گئی۔ بہر کیف‘ دونوں صورتوں میں پوری دنیا میں ایک منفی پیغام گیا۔ سوال یہ ہے کہ ایسی کیا ایمرجنسی ہو گئی کہ کرکٹ کے سب سے بڑے ایونٹ کے دوران ہی چیف سلیکٹر کو استعفیٰ دینا پڑگیا۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ یکدم نہیں ہوا ہو گا بلکہ معاملات کافی عرصہ سے چل رہے ہوں گے۔
'انضمام الحق بمقابلہ بورڈ‘ کچھ حقائق ہمارے علم میں بھی ہیں لیکن اِنہیں بیان کرنا مناسب نہیں کہ ہمارے ہاں ہرادارے کا یہی حال ہوچکا ہے ۔ اِس وقت پورے کا پورا ملک ہی ذاتی پسند‘ ناپسند کی بنا پر چل رہا ہے تو پھر صرف کرکٹ بورڈ کی صورتحال پر کیوں شور مچانا؟ قومی مفادات کے نام پر ذاتی مفادات کی تکمیل بحیثیت مجموعی ہمارا طرزِ عمل بن چکا ہے۔یہی دیکھ لیں کہ انتخابات کا غلغلہ مچا ہے تو کیسے یہ گردان کی جا رہی ہے کہ انتخابات صاف اور شفاف ہوں گے۔ اب تک کے اقدامات کی روشنی میں بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کتنے صاف اور کتنے شفاف ہوں گے۔ جو بھی یہ سب کچھ کر رہے ہیں‘ ظاہر ہے کہ ان کا مقصد کسی قومی مفاد کی تکمیل تو ہے نہیں۔ اسی روش کی وجہ سے پورے ملک کا نظام مفلوج ہوچکا ہے اور کوئی بھی شعبہ قابلِ رشک کارکردگی کا مظاہرہ کرتا نظر نہیں آ رہا ۔ قانون کے ساتھ جو کھلواڑ کیا جارہا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے تو کچھ ایسے ہی معاملات کرکٹ بورڈ اور قومی کرکٹ ٹیم کے بھی ہیں۔ اِن حالات میں ٹیم سے آئیڈیل کارکردگی کی توقع قطعاً انصاف کی بات نہیں۔ کرکٹ کے حوالے سے زیادہ افسوس اِس لیے بھی ہوتا ہے کہ اب لے دے کے ایک کرکٹ کا کھیل ہی باقی بچا ہے لیکن لگتا ہے کہ اب اِس کھیل کی مکمل تنزلی کیلئے بھی ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں