"FBC" (space) message & send to 7575

سموگ کے ساتھ جینے کی عادت ڈال لیں

لاہور میں سموگ کے عفریت پر قابو پانے کیلئے کیا کیا پاپڑ بیلے جارہے ہیں۔ کبھی اداروں میں چھٹیاں کی جارہی ہیں تو کبھی مارکیٹیں بند کی جا رہی ہیں۔ کبھی فصلوں کی باقیات جلانے والوں کے خلاف کارروائیاں کی جاتی ہیں کہ کسی طرح سے اس مصیبت سے چھٹکارہ حاصل ہو سکے لیکن قرائن بتا رہے ہیں کہ اب اس سے جلدی جان چھوٹنے کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ یہ ٹھیک ہے کہ پنجاب حکومت بار بار سخت اقدامات اٹھانے کا عندیہ دے رہی ہے۔ متعلقہ محکمے بھی اپنی کوششوں کی روداد سناتے رہتے ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر یہ سب کچھ ہو بھی رہا ہے تو پھر صورتحال میں بہتری کیوں نہیں آرہی؟ 2017ء کے بعد سے تو اس مصیبت نے جیسے مستقل بنیادوں پر ہی شہرِ لاہور کا راستہ دیکھ لیا ہے۔ ہر سال اکتوبر کے اختتامی اور نومبر کے ابتدائی دنوں میں ایک فلم چلنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس فلم کے ٹائٹل ہر سال ایک جیسے ہی ہوتے ہیں جیسے یہ کہ لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر بن گیا۔ سموگ کے باعث دمے اور آنکھوں کی انفیکشن کے امراض کی شدت میں اضافہ ہو گیا۔ حکومت صورتحال میں بہتری کیلئے ہرممکن اقدامات اُٹھا رہی ہے۔ حکومت نے سموگ پر قابو پانے کیلئے سخت کارروائی کا حکم دے دیا ہے۔ دھان کی فصل کی باقیات کو آگے لگانے والوں کے خلاف سخت کارروائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ حالات جلد بہتر ہو جائیں گے لیکن یہ کم بخت سموگ ہے کہ اس پر ان اقدامات کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔ ان دنوں بھی یہ فلم چل رہی ہے اور آئندہ کم از کم ایک ماہ تک چلتی رہے گی۔ اس دوران اگر بارش ہو جائے تو کچھ سکون کا سانس نصیب ہو جاتا ہے ورنہ سیاپا ہی پڑا رہتا ہے۔ اب ہوگا یہ کہ کم از کم ایک ماہ تک ہم یہ فلم دیکھتے رہیں گے اور اس کے ختم ہونے پر سب لمبی تان کر سو جائیں گے۔ دراصل ایک‘ دوماہ ہی ایسے ہوتے ہیں جنہیں گزارنا محکمۂ تحفظِ ماحولیات کیلئے کافی دشوار ہوتا ہے جس کے بعد آئندہ سال اکتوبر کی آمد تک راوی چین ہی چین لکھتا رہتا ہے۔ 2024ء میں ایک مرتبہ پھر یہی سب کچھ دیکھنے میں آئے گا‘ سچی بات تو یہ ہے کہ اب حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ آنے والے برسوں کے دوران کب تک حالات بہتر ہوں گے۔
ان حالات کو دیکھتے ہوئے تو لاہور کی فضاؤں کے وہ دن یاد آجاتے ہیں جب اکتوبر نومبر کے سہانے دن اور راتیں میل ملاقاتوں اور تقریبات کیلئے مثالی قرار دیے جاتے تھے۔ کچھ اور پیچھے چلیں جائیں تو لاہور کے وہ دن یاد آجاتے ہیں جب منڈیروں پر پرندوں کی آوازیں سن کر آنکھ کھلا کرتی تھی۔ قسم قسم کے طوطے‘ بلبلیں‘ ہدہد اور دیگر کئی اقسام کے پرندے صبح صبح ہی تقریباً ہر گھر کی منڈیر پر آن بیٹھتے تھے۔ یقین جانیے کہ ان کی خوبصورت آوازیں سن کر طبیعت ہشاش بشاش ہو جاتی تھی۔ کیا شاندار مناظر ہوا کرتے تھے کہ لاہور کی صاف ستھری فضائیں انسان اور چرند پرند‘ سبھی کو ہشاش بشاش رکھا کرتی تھیں۔ پھر یوں ہوا کہ لاہور رہائشی کالونیاں کی نذر ہونے لگا۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کو مدنظر رکھے بغیر لاہور میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبے بھی شروع ہونے لگے جس کیلئے بڑے پیمانے پردرختوں کا قتلِ عام لازم ٹھہرا۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب مینارِ پاکستان کی گراؤنڈ میں اس خطے کے روایتی درخت بہت بڑی تعداد میں موجود تھے۔ نہ جانے کس عقلمند نے ان تمام درختوں کو کاٹ کر یہاں آرائشی پودے لگا دیے اور وہ بھی ایسے کہ جنہیں گرمی سے بچانے کیلئے خود سائے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس صورتحال کا سب سے پہلا اثر پرندوں پر پڑا۔ جب ان کے گھونسلے برباد ہوگئے تو انہوں نے بھی لاہور کو خیرباد کہنا شروع کر دیا۔ ہوتے ہوتے لاہور کی فضاؤں میں صرف کوے اور چیلیں ہی باقی رہ گئیں جو آج اتنی زیادہ ہو چکی ہیں کہ ان کے سامنے کسی چھوٹے پرندے کی چلتی ہی نہیں ہے۔ ہدہد‘ طوطے‘ بلبلیں سب اُڑ گئے اور پیچھے ہم جیسوں کیلئے اپنی یادیں چھوڑے گئے کہ اب ہم بہانے بہانے سے انہیں یاد کرتے رہتے ہیں۔ خواہش کرتے ہیں کہ کاش وہ واپس لوٹ آئیں کہ لاہور کی فضاؤں میں پھر انکی آوازیں گونجنے لگیں لیکن اب یہ کبھی نہیں ہو سکے گا۔
قرائن بتاتے ہیں کہ اب ہم کنکریٹ کے اسی جنگل میں سانس لیتے رہیں گے اور اپنی سانسوں کے ساتھ آلودگی کے ڈھیر اپنے اندر لے جاتے رہیں گے کہ ہم نے خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔ آج ہم سموگ سموگ کا شور مچا رہے ہیں اور اسے ختم کرنے کیلئے بظاہر بہت مستعدی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ جب ہم خود اپنے ہاتھوں سے لاہور کو برباد کررہے تھے تب کسی کو دھیان نہیں آیا کہ ہم کس طرف جارہے ہیں۔ تب تو سبھی کو صرف یہ پڑی تھی کہ رہائشی کالونیوں سے زیادہ سے زیادہ پیسہ بنا لیا جائے۔ سموگ کے ساتھ ہم پانی کی آلودگی کا مزہ بھی چکھ رہے ہیں۔ کہاں تو لاہور میں سو‘ دوسو فٹ کی گہرائی میں پینے کا صاف پانی مل جاتا تھا اور کہاں ہمیں اب اس کی تلاش میں چھ‘ سات سو فٹ تک نیچے جانا پڑتا ہے۔ باغوں کے شہر کی فضاؤں میں زہر گھل چکا ہے تو اس کا پانی بھی زہر آلود ہوتا چلا جا رہا ہے لیکن ہماری آنیاں جانیاں دیکھیں جو ختم ہونے میں ہی نہیں آرہیں۔ آج ہم سب لٹھ لے کر سموگ ختم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن دیکھا جائے تو بظاہر ان کا کوئی فائدہ نہیں ہونیوالا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سموگ کا باعث بننے والے عوامل کا مستقل بنیادوں پر قلع قمع کرنے کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی جا رہی۔ ادارے بند کر دینا وغیرہ تو وقتی اقدامات ہیں جن کا تھوڑا بہت فائدہ ہوتا ہے اور اس کے بعد صورتحال پھر ویسی کی ویسی ہو جاتی ہے۔ آپ دیکھ لیں کہ ان اقدامات سے کتنا فرق پڑا ہے؟
حقیقت تو یہ ہے کہ ہم ٹرین مِس کر چکے ہیں اور اب صرف ٹکریں ماررہے ہیں۔ البتہ اتنا ضرور ہو سکتا ہے کہ کچھ اقدامات اٹھا کر صورتحال میں مستقل بنیادوں پر قدرے بہتری ضرور لائی جا سکتی ہے۔ اس وقت لاہور کی شاہراہوں پر 70لاکھ سے زائد گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں رواں دواں ہیں جن میں سے بیشتر کے پاس مینٹیننس سرٹیفکیٹس ہی نہیں ہیں۔ ان گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں آلودگی میں 45فیصد حصہ ڈالتا ہے۔ اب یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ بہتر پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کے بغیر سڑکوں پر آنے والی گاڑیوں اور موٹر بائیکس کی تعداد میں کمی نہیں لائی جا سکتی۔ اب کوئی بتائے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں؟ یہ ٹھیک ہے کہ اورنج لائن ٹرین اور میٹروبسوں پر بڑی تعداد میں مسافر سفر کرتے ہیں لیکن جن علاقوں میں یہ سروسز نہیں ہیں‘ وہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی کیا صورتحال ہے؟ فیکٹریوں اور بھٹوں میں جدید نظام کی تنصیب آلودگی میں کمی لا سکتی ہے ۔ اب محکمۂ تحفظِ ماحولیات کی طرف سے کئی برسوں سے قرار تو دیا جارہا ہے کہ جناب ہم بہت زور و شور سے یہ نظام نصب کرانے پر کام کررہے ہیں لیکن یہ سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر کیوں صورتحال بہتر نہیں ہورہی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ملی بھگت کے جس کلچر نے اپنی جڑیں قائم کررکھی ہیں‘ وہ بات کو آگے بڑھنے ہی نہیں دیتا۔ بیشتر صورتوں میں سب اقدامات فیس سیونگ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حالات جوں کے توں رہتے ہیں۔ یہ گزشتہ کئی برسوں سے ایسے ہی چلے آرہے ہیں‘ آئندہ برسوں کے دوران بھی ان کا رختِ سفر باندھنے کا کوئی ارادہ دکھائی نہیں دے رہا۔ سو بہتر ہے کہ خود کو ماحول کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔ ان ایام کے دوران لازمی طور پر ماسک استعمال کریں۔ دل کے مریضوں اور بچوں کو آلودگی سے بچانے کیلئے خصوصی اقدامات اٹھائیں تاکہ ہم یہ مشکل وقت خیریت سے گزار سکیں۔ ویسے تو اب ہمیں ایسی مشکلات کا عادی ہو جانا چاہیے کہ ہمارے ہاں تو ایک کے بعد ایک مصیبت سر اٹھاتی رہتی ہے اور سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ کسی بھی حوالے سے ہماری پالیسیوں میں کوئی تسلسل ہی نظر نہیں آتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں