غزہ جنگ کے تناظرمیں امریکی مسلم ووٹرز کی ترجیحات کیا ہونیوالی ہیں ؟
لاہور : (اسما رفیع ) امریکا میں ہونیوالے صدارتی انتخابات میں اب صرف چند دن باقی ہیں ، مسلم ووٹرز اس انتخابی عمل میں بھرپور شرکت کر رہے ہیں، جس کا ایک بڑا سبب غزہ کے بحران پر امریکی حمایت کے خلاف ردعمل بھی ہے ، غزہ جنگ نے ان کی سیاسی اور فکری بصیرت پر کس حد تک اثر ڈالا ہے آئیے جانتے ہیں ۔
امریکا میں مسلمان ایک متنوع آبادی پر مشتمل ووٹنگ بلاک ہیں جو مختلف نسلوں اور ممالک سے تعلق رکھتے ہیں ، خاص طور پر یہاں کی تین سوئنگ ریاستیں جارجیا، مشی گن اور پنسلوینیا میں مسلم ووٹ بینک خاصا زیادہ ہے ، ان ریاستوں میں کیے جانیوالے حالیہ سروے سے پتہ چلا ہے کہ 65 فیصد مسلم امریکی اسرائیل حماس تنازع کو اپنی اہم سیاسی ترجیح کے طور پر دیکھتے ہیں ۔
7اکتوبر 2023 حماس کے اسرائیل پر حملے میں 1200 اسرائیلی شہری مارے گئے جبکہ 250 یرغمال بنالیے گئے لیکن اس کے بدلے میں اسرائیل نے غزہ میں قیامت صغریٰ برپا کررکھی ہے اور اب تک صیہونی فوج 42ہزار فلسطنیوں کا قتل عام کرچکی ہے۔
اس جنگ کیخلاف جہاں ساری دنیا سراپا احتجاج ہے وہیں امریکی مسلمانوں پر بھی اس نے گہرااثر ڈالا ہے ، یوں کہا جائے کہ اس نے مسلمانوں کے سیاسی پس منظر کو بدل کررکھ دیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔
پانچ نومبر کو ہونیوالے صدارتی انتخابات میں امریکا کی مجموعی آبادی کے ایک فیصد حامل مسلمانوں کا ووٹ قدرے منقسم نظر آتاہے ، پاکستانی اور دیگر مسلمان امریکیوں کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان انتخاب کا مطلب ایسے امیدوار کو ووٹ دینا ہے جو تارکین وطن کے حقوق کی حمایت کرتا ہے لیکن غزہ میں بے گناہ فلسطینیوں پر ہونیوالے مظالم نے بہت سے مسلمانوں کو اپنا مؤقف تبدیل کرنے پر مجبور کردیا ہے اور وہ اپنے انتخابی امیدوار کے چناؤ پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔
انتخابی امیدواروں کی بات کی جائے تو کملا ہیریس نے اب غزہ میں جنگ بندی اور دو ریاستی حل پر زیادہ واضح موقف اپنایا ہے جبکہ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ امریکہ خود کو دنیا میں کسی بھی جگہ کے تنازعات سے دور رہے، ٹرمپ خود کو اسرائیل کا کٹر حامی قرار دیتے ہیں ۔
غزہ جنگ تنازع پر ٹرمپ اور کملا کے مؤقف سے ناخوش بہت سے مسلم تھرڈ پارٹی آپشنز پر نظریں جمائے ہوئے ہیں جس میں گرین پارٹی کی جل سٹین اور ڈاکٹر کارنل ویسٹ شامل ہیں ، یہ دونوں امیدوار غزہ میں جنگ کے خاتمے اور اسرائیل کی فوجی امداد میں کمی کی وکالت کرتے نظر آرہے ہیں۔
امریکا کی سب سے بڑی مسلم سول رائٹس اور وکالت کی تنظیم، کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR) نے آج اپنے آخری انتخابی سروے کے نتائج جاری کیے ہیں۔
CAIR کے مطابق گرین پارٹی کی امیدوار جل سٹائن اور نائب صدر کملا ہیرس کے درمیان مسلم ووٹرز کی حمایت تقریباً برابر ہے، جہاں جل اسٹائن کی حمایت 42.3 فیصد جبکہ کملا ہیرس کو 41 فیصد حمایت حاصل ہے۔
دوسری جانب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسلم کمیونٹی میں محض 10 فیصد حمایت کے ساتھ پیچھے رہ گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں :امریکی انتخابات میں ووٹ کیسے محفوظ بنایا جاتا ہے ؟
سروے کے نتائج میں 2.5 فیصد کی غلطی کی گنجائش کے ساتھ CAIR کے اعداد و شمار میں سخت مقابلے کو ظاہر کیا گیا ہے، جو کہ CAIR کے اگست کے سروے کے نتائج سے ہم آہنگ ہے جہاں دونوں امیدواروں کو 29 فیصد حمایت حاصل تھی۔
مذکورہ سروے کے مطابق جل اسٹائن (گرین پارٹی) کو 42.3 فیصد جبکہ کملا ہیرس (نائب صدر) کو 41.0 فیصدی مسلمانوں کی حمایت حاصل ہے، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی (ریپبلکن) پارٹی کو مسلمانوں کی 9.8 فیصد اور چیز اولیور (لبرٹیرین) کو 0.6 فیصد حاصل ہے، غیر یقینی صورتحال میں 0.9 فیصدی مسلمان ہیں جبکہ ووٹ نہ دینے والوں کی تعداد 5.4 فیصدی ہے۔
امریکا اسرائیل پالیسیوں کی بات کریں تو توقع کی جا رہی ہے کہ کملا ہیرس کی کامیابی بائیڈن دور کی پالیسیوں کا تسلسل ہوگی اور کسی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں، امریکہ کے زیادہ تر یورپی اور نیٹو اتحادی کملا ہیرس کو ترجیح دیں گے، جبکہ ٹرمپ کو ایک ’ناقابل پیشگوئی‘ یعنی ’وائلڈ کارڈ‘ اور امریکی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی کا وعدہ کرنے والا سمجھا جا رہا ہے۔
امریکی میڈیا رپورٹ کے مطابق سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اگر منتخب ہوتے ہیں تو اسرائیل کے حوالے سے امریکی پالیسی میں کسی بھی قسم کی تبدیلی اسرائیل اور اس کی مضبوط حمایت میں ہوگی اور مستقبل میں ٹرمپ انتظامیہ میں شامل وہی لوگ ہونگے جو امریکی خارجہ پالیسی میں اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں ۔
یہ بھی پڑھیں :ڈونلڈ ٹرمپ ، رئیل سٹیٹ سے سیاست تک کے سفرپرایک نظر
دوسری جانب ٹرمپ کے وہ حامی لوگ جو مسلمانوں کے مخالف ہیں اور انہوں نے ہمیشہ کی طرح اپنی سرخ ریاستوں کے حلقوں میں غیرملکیوں سے نفرت کو ہوا دی ہے نتیجتا امریکی مسلمانوں کے سامنے نسل کشی اور نسل کشی کے درمیان انتخاب باقی بچتا ہے۔
امریکی اخبار میں معروف سینیٹر برنی سینڈرز نے حال ہی میں ایک مضمون میں مسلم ووٹروں سے خطاب کرتے ہوئے نیتن یاہو کی حکومت اور اسرائیل کو امریکی فوجی امداد کی مخالفت پر زور دیا ہے جبکہ کملا کے موقف کے بارے میں سینڈرز نے مسلم ووٹروں کے خدشات کو تسلیم کرتے ہوئے پوچھا کہ "اگر وہ اس جنگ کی حمایت کرتی ہیں تو میں کملا ہیرس کو ووٹ کیسے دے سکتا ہوں؟"
سینڈرز کہتے ہیں کہ اس معاملے پر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے دائیں بازو کے اتحادی اس سے بھی بدتر ہیں کیونکہ کانگریس میں ریپبلکنز نے غزہ میں بھوک سے مرنے والے بچوں کے لیے انسانی امداد کو مسلسل روک رکھا ہے۔
پاکستانی تارکین وطن کی بات کی جائے تو ایک غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستانی تارکین وطن اور کچھ مسلم برادری ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کا ارادہ رکھتی ہیں جنہیں ’نو وار‘ صدر کے طور پر دیکھاجا رہا ہے، ٹرمپ کے امیگریشن سے متعلق مؤقف کے باوجود یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستانی تارکین وطن نے کملا ہیرس کے حق میں ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
مسلمان ووٹرز کیلئے اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ وہ کس کی حمایت کریں اور کس کی نہیں ، انتخابات کا نتیجہ جو بھی ہو، اس کے اثرات پوری دنیا پر پڑیں گے۔