اسرائیل کی بدترین پابندیوں کے باعث غزہ کے لوگ قحط سے دوچار ، عالمی تشویش میں اضافہ

جینیوا: (ویب ڈیسک ) غزہ میں بڑے پیمانے پر قحط کی بین الاقوامی انتباہات کے باوجود ایک سال سے زیادہ عرصہ قبل اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ جاری ہے جس سے انسانی امداد کی رسائی پر ممکنہ طور پر "بدترین پابندیوں" کا سامنا ہے۔

اس حوالے سے اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ ’یونیسیف‘ کے ترجمان جیمز ایلڈر نے کہا ہے کہ غزہ میں بچوں کی صورت حال دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے، ماہ اگست سے شروع ہونیوالی جنگ کے بعد سے کسی بھی مہینے کے مقابلے میں سب سے کم امداد پہنچی۔

ان کاکہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے کسی تجارتی ٹرک کو داخلے کی اجازت نہیں دی گئی ہے اور آج انسانی بنیادوں پر امداد پر شاید اب تک کی بدترین پابندیاں ہیں۔

ایلڈر نے نئی سڑکوں اور کراسنگ پوائنٹس کو کھولنے کے لئے حقیقی نقل و حرکت کی کمی کے بارے میں بھی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مئی کے بعد سے غزہ میں امداد کے داخلے کے مقامات کی مسلسل بندش کا سامنا ہے۔

ترجمان یونیسیف نے اس بات کی تصدیق کی کہ اکتوبر کے مہینے کے دوران شمالی غزہ میں کوئی خوراک یا خوراک کی امداد داخل نہیں ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں:غزہ میں انسانی امداد کی رسائی، امریکا کا اسرائیل کو 30 دن کا الٹی میٹم

ان کاکہنا تھا کہ غزہ میں امداد کی شدید قلت، مسلسل بمباری کے ساتھ یہ بات قابل توجہ ہے کہ غزہ کا تقریباً 85 فیصد حصہ کسی نہ کسی طرح کے اسرائیلی انخلاء کے حکم کے تابع ہے جس نے پٹی کو "ناقابل رہائش" بنا دیتا ہے۔

یاد رہے کہ یہ پیشرفت اس وقت سامنے آئی ہے جب اکتوبر 2023ء سے پٹی میں اسرائیلی فوجی آپریشن کے نتیجے میں غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے، اسرائیل شمالی غزہ کی پٹی میں اپنی کارروائیاں تیز کر رہا ہے جہاں اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ لاکھوں افراد پھنسے ہوئے ہیں۔

علاوہ ازیں غزہ کی پٹی اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں شدید قحط میں مبتلا ہے جس نے بنیادی انسانی استعمال کے مواد کی وسیع قلت کے علاوہ بیکریاں اور فلور ملز کو تباہ کردیا۔

واضح رہے کہ غزہ میں 7 اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی بربریت کے نتیجے میں اب تک 42 ہزار سے زائد فلسطینی شہید جبکہ 99ہزار زخمی ہوچکے ہیں ۔
 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں