ناقص کارکردگی کے باوجودحکومت کو کوئی خطرہ نہیں
حکومت پراندرونی دبائوبڑھ رہا، ساراقصہ پارٹی میں نمبردوبننے کی دوڑ کا نتیجہ وزراکو منانے سے بحران عارضی طورپر ٹل گیا،فریقین کوراضی رکھنامشکل
حکومتی ناقص کارکردگی کے باوجود فی الحال حکومت کو نہ ایوان کے اندر سے اور نہ ہی باہر سے کوئی خطرہ ہے ، اہم بات یہ کہ ایوان میں بڑی اکثریت کی حامل اپوزیشن کے باوجود حزب اختلاف نے ایوان کے اندر سے تبدیلی بارے کبھی سنجیدگی سے غوروخوض نہیں کیا ، کیونکہ اپوزیشن سمجھتی ہے کہ تبدیلی سرکار اپنا ممکنہ زور لگا کر دیکھ لے تاکہ انہیں گلہ نہ رہے کہ کسی نے انہیں غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی اور وہ ڈلیور نہ کر پائے ۔ فی الحال وزیراعظم عمران خان کابینہ اراکین کے تحفظات دور کرنے کیلئے سرگرم ہیں اور وزرا کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ بھی شروع ہے ۔ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ واقعتا حکومت کے خلاف اندر سے دباؤ پر قابو پا لیا گیا ہے ؟ ۔ تحفظات کے اظہار کرنے والے اراکین اسمبلی کو منا لیا گیا ۔ دیکھنا ہوگا کہ آنے والے چند ہفتوں میں حکومت اپنے معاملات پر کنٹرول بڑھاتی ہے یا معاملات اس کے ہاتھ سے نکل جائیں گے ۔ وفاقی وزیر فواد چودھری کے انٹرویو میں حکومت کے اندرونی حالات بارے تحفظات کی ٹائمنگ اہم تھی جس نے حکومت کو الرٹ کر دیا، جس سے وزیراعظم سرگرم ہوئے ۔ واقفا ن حال کا کہنا ہے کہ شکایات اور تحفظات کا عمل وقتی یا ہنگامی نہیں ۔ کھچڑی بہت پہلے سے پک رہی تھی، اراکین اسمبلی کی کوئی سننے والا ہے اور نہ ہی کوئی انکی شکایات کو لے کر آگے چلنے والاہے جس کی وجہ سے فرسٹریشن بڑھی ہے ، معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ ایک دو ملاقاتوں میں حل ہو۔ فواد چودھری نے ایک ‘‘اوپن سیکرٹ’’ کہہ ڈالا ۔ تحریک انصاف کے اندر عمران خان کی ذات کے سوا کوئی بھی دوسرا نظریہ یا بڑی شخصیت نہیں،جس پر اتفاق رائے ہو ۔ پارٹی میں دھڑے بندی کافی عرصے سے جاری تھی ۔ جوں جوں حکومت کی کارکردگی بارے تاثر کمزور ہوتا جائیگا ، اختلاف رائے بڑھتا جائے گا اور پارٹی کے اندر سیاسی انارکی کی صورتحال پیدا ہوجائے گی۔ درحقیقت یہ سارا قصہ تحریک انصاف کے اندر نمبر2بننے کی دوڑ کا نتیجہ ہے ۔ بری کارکردگی میں پھنسی حکومت پراندر سے دباؤ پہلے مرحلے میں بڑھ رہا ہے ۔ غلام سرور خان’ فواد چودھری ، راجہ ریاض اور خواجہ شیراز کا لب و لہجہ سب کچھ بتارہا ہے ۔ حکومت کے اقتدار کا موسم بہار اب سخت موسم میں داخل ہو رہا ہے ۔ گورننس میں ناکامی اور بری طرز حکمرانی نے حکومتی پویلین میں میچ ہار جانے کے بعد کے منظر پیدا کر دیے ہیں ۔ اس اختلاف رائے کے بعد غیر منتخب مشیروں کے کلچر کو روکنا ہوگا۔عمران خان کی مشکل یہ ہوگی کہ اگر سیاسی لوگوں کو راضی رکھتے ہیں تو پھر ان کا غیر منتخب لوگوں پر انحصار کم یا ختم ہوتا جائے گا۔ مگر اسکی سب سے بھاری قیمت سول ملٹری کے ‘‘سیم پیج’’ کو ادا کرنی پڑے گی۔ اس وقت بری حکمرانی میں پھنسی حکومت کیلئے دونوں فریقوں کو راضی رکھنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے ۔ یہ تمام صورتحال بتا رہی ہے کہ بری طرز حکمرانی پرحکومت کومعافی ملناتقریباً ناممکن ہو چکا ہے ۔