راستے کے آداب و حقوق ’’راستوں میں بیٹھنے سے پرہیز کرو‘‘ :(بخاری:2465)

تحریر : مفتی محمد اویس اسماعیل


راستے کا پہلا حق ہے کہ وہاں بیٹھنے والا نظروں کی حفاظت کرے، گفتگو میں اخلاقیات کا خیال رکھے،قناتیں لگا کر راستہ بند کرنا،دکان بڑھا کر لگانا، گاڑی غلط کھڑیکرنا اور گندگی پھیلانا وہ اعمال ہیں جو دوسروں کیلئے تکلیفکا باعث بنتے ہیں، ان سے اجتناب برتنا چاہئے

اسلام نے زندگی کے ہر پہلو سے متعلق تعلیمات دی ہیں۔ ان میں عقائد ہوں یا عبادات، معاملات ہوں یا اخلاقیات، انفرادی زندگی ہو یا معاشرتی زندگی، تمام پہلو شامل ہیں۔ اسلام کا اپنے پیروکاروں سے یہ تقاضا ہے کہ دوسروں کے جو حقوق تم پر عائد ہوتے ہیں، انھیں پورا کرو۔ چاہے وہ چھوٹا حق ہو یا کوئی بڑا حق ہو۔ المیہ یہ ہے کہ ہم بڑے معاملات کو تو اہمیت دیتے ہیں لیکن چھوٹے چھوٹے معاملات ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ انھی میں سے ایک اہم مسئلہ ’’راستے کے حقوق‘‘ کا ہے۔ کوئی بھی راستے میں مستقل ٹھکانا نہیں بناتا مگر راستے سے گزرتے ہوئے اس سے اگر کسی کو تکلیف پہنچے تو اس کا اثر کافی دیر تک محسوس کیا جا سکتا ہے۔ شریعت نے راستے کے حقوق متعین کئے ہیں اور واضح انداز میں مختلف پیرایوں میں انہیں بیان کیا ہے۔ یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ راستے سے مراد صرف گلی یا سڑک کا راستہ نہیں، بلکہ اس کا اطلاق کسی تعلیمی/ کاروباری ادارے میں مختلف کلاسز یا دفاتر میں جانے والے راستے پر بھی ہوتا ہے۔

راستے کے حقوق کے حوالے سے متعدد احادیث مروی ہیں، جن میں مختلف احکامات ملتے ہیں۔ ایک حدیث میں حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’راستوں میں بیٹھنے سے پر ہیز کرو‘‘۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کی: ہماری مجبوری ہے کہ ہم محفل جماتے ہیں اور آپس میں گپ شپ کر تے ہیں۔ تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر اتنی ہی مجبوری ہے تو راستے کا حق ادا کرو۔ صحابہؓ نے پوچھا: راستے کا حق کیا ہے؟نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ارشاد فرمایا: نظروں کو جھکا کر رکھو، تکلیف دہ چیز کو دُور کرو، سلام کا جواب دو اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرو۔ (بخاری شریف: 2465)، اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ نبی کریم ﷺنے راستوں میں بیٹھنے کی ممانعت فرمائی ہے، لیکن اگر اتنی ہی مجبوری ہے تو پھر چند امور کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔ واضح رہے کہ راستوں پر بیٹھنے سے مراد دکانوں، ہوٹلوں، مساجد کے باہر، گلی کے کونے میں کھڑے ہونا اور اسی طرح راستے میں گاڑی روک کر بات چیت کرنا یا کسی کا انتظار کرنا شامل ہے۔

 آج کل والدین اس بات پر پریشان ہوتے ہیں کہ ہم اپنے گھروں میں تو اخلاقی حدود کا خیال رکھ کر گفتگو کرتے ہیں مگر یہ چھوٹے بچے کہاں سے گالیاں اور اخلاق سے گری ہوئی باتیں سیکھ کر آتے ہیں؟ اگر اس کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ بچے باہر سے یہ سب کچھ سیکھ کر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات بازار میں موجود دکانداروں کا رویہ ہے۔ اکثر ان کی گفتگو اخلاقیات سے عاری ہوتی ہے وہ اس چیز کا خیال نہیں رکھتے، حتیٰ کہ بازاری گفتگوکا محاورہ عام ہوگیا ہے۔ لہٰذا جو شخص بھی راستے میں بیٹھا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنی گفتگو میں اخلاقیات کا خیال رکھے، تاکہ غیر اخلاقی گفتگو نہ ہو اور بچوں کی اخلاقیات پر بھی اس کابرا اثر نہ پڑے۔ راستے کے حقوق میں درج ذیل امور شامل ہیں:

نظروں کی حفاظت

 راستے کا سب سے پہلاحق ہے کہ وہاں بیٹھنے والا اپنی نظروں کی حفاظت کرے۔ کیوں کہ وہاں سے گزرنے والوں میں خواتین بھی شامل ہوں گی۔ اس لیے آدمی وہاں بیٹھ کر ہرکسی کو گھورتا نہ رہے، خاص طور پر خواتین کو۔ اس لیے کہ یہ شریعت کے منافی اور غیر اخلاقی ہے۔ حضرت جریر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اچانک نظر پڑجانے کے حوالے سے پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنی نگاہ پھیر لوں۔ (مسلم،2159)

تکلیف دہ اشیا ہٹانا

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ایمان کے کچھ شعبے ہیں، اس میں سب سے افضل لا الہ الا اللہ اور سب سے ادنیٰ راستے سے تکلیف دہ چیز کو دُور کرنا ہے۔ (مسلم،51) یعنی ’’ایمان‘‘ اعمال اور معاملات تک کا نام ہے۔ کسی ایک جز کو ’ایمان‘ نہیں کہتے، بلکہ تمام اجزا مل کر ایمان کی تکمیل کرتے ہیں۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹانا اجر کا کام ہے اور اس میں ضروری نہیں کہ کوئی بہت بڑی چیز آپ دُور کریں، حتیٰ کہ تکلیف دینے والا ایک کانٹا، اینٹ کا کوئی ٹکڑا بھی اگر کسی نے ہٹایا تو اس پر بھی اس کو اجر ملے گا۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک شخص راستے سے گزر رہا تھا کہ اس نے ایک کانٹا دیکھا اور اسے راستے سے ہٹا دیا، پس اس فعل پر اللہ نے اسے بخش دیا۔(بخاری، 2472)

راستے میں تکلیف دہ چیزیں

 حدیث کے الفاظ ’’تکلیف دہ چیز‘‘ ایک جامع کلمہ ہے۔ اس میں ہر طرح کی تکلیف دینا شامل ہے، چاہے وہ اپنے عمل کی وجہ سے ہو یا اپنے قول یا اشارے سے، حتیٰ کہ صرف نظروں سے بھی کسی کو تکلیف دینا شامل ہے۔ جو چیزیں راستے میں تکلیف کا باعث بنتی ہیں وہ درج ذیل ہیں۔ قناتیں لگا کر راستہ بند کرنا بھی تکلیف دینے میں شامل ہے۔ اس میں ہر طرح کے پروگرام شامل ہیں، چاہے وہ شادیاں ہوں یا مذہبی نوعیت کے پروگرام۔ البتہ ایسی جگہ پر قنات/ شامیانا لگانا جہاں لوگوں کو کوئی اعتراض نہ ہو تو اس کی گنجائش ہو سکتی ہے۔

کھانے کی چیزیں راستے میں ڈالنا 

تکلیف دہ چیز راستے سے ہٹانے سے مراد کیلے کے چھلکے بیچ راستے میں نہ پھینکے جائیں، پانی اور کولڈ ڈرنک کی بوتلیں راستے میں نہ پھینکی جائیں اور اس طرح کی جو چیزیں تکلیف دینے کا باعث ہوں ان سے اجتناب کیا جائے۔

راستے میں کھدائی کرنا

یہ چیز بھی تکلیف دہ ہے کہ بیچ راستے میں کوئی شخص اپنے مقصد کیلئے گڑھا وغیرہ کھودے اور پھر اس کو صحیح طریقے سے ہموار کر کے بند نہ کرے۔ اس میں انفرادی طور پر بھی لوگ شامل ہیں اور ادارتی سطح پر بھی۔ لہٰذا انھیں چاہیے کہ سہولت مہیا کرنے کے بعد انھیں اذیت میں مبتلا نہ کریں بلکہ اس راستے کو صحیح طور پر بند کریں۔

غلط پارکنگ

 گاڑی غلط جگہ پر کھڑی کرنا بھی ایذا دینے میں شامل ہے۔اس میں ہوتا یہ ہے کہ ایک شخص کسی غلط جگہ گاڑی پارک کرتا ہے تو بعد میں آنے والے اس کی پیروی کرتے ہوئے اور گاڑیوں کی لائن لگ جاتی ہے جو آمدورفت میں پریشانی کا سبب بنتی ہے۔ 

حدود سے بڑھ کر زمین پر قبضہ کرنا

 اپنے گھر کی حدود سے بڑھ کر زمین پر قبضہ کرنا، دکان کے آگے قبضہ کرنا، یا راستے میں کوئی چیز بیچنے کیلئے کھڑے ہو جانا، یہ تمام چیزیں اس وجہ سے ممنوع ہیں کہ اس کی وجہ سے راستہ تنگ ہو جاتا ہے۔ کچھ دکان دار اپنی دکان کے آگے کسی اور کو اپنا سامان بیچنے کیلئے کھڑا کر دیتے ہیں اور پھر اس سے پیسے بھی لیتے ہیں۔ یہ عمل تو اور زیادہ قبیح ہے۔ اس لیے کہ ایک توایسی زمین پر قبضہ کیا جو اس کی ملکیت نہیں تھی اور پھر برائی کی سرپرستی کی کہ راستہ تنگ ہوگیا، اور اس پر مستزاد یہ کہ پیسے بھی وصول کیے جو اس کا حق نہیں تھا۔ 

سلام کا جواب دینا

اسلام کی بنیاد اور اس کی پہچان امن و سلامتی ہے۔ اس کے اظہار کیلئے اپنے ماننے والوں سے اس کا مطالبہ ہے کہ سلام پھیلاؤ۔ راستے میں مختلف طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ کوئی پیدل ہوتا ہے تو کوئی گاڑی میں سوار، کوئی بیٹھا ہوتا ہے تو کوئی گزرنے والا۔ اب اس میں مختلف احکامات ہیں کہ کون کسے سلام کرے۔ اس کے احکامات بھی ہمیں اسلام کی تعلیمات میں ملتے ہیں۔ رسول اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  نے فرمایا: سوار ، پیدل چلنے والے کو سلام کرے، پیدل گزرنے والا بیٹھے ہوئے کو، اور کم لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔ (بخاری:6233)

قضائے حاجت سے ممانعت 

راستے کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کوئی بھی قضائے حاجت راستے میں نہ کرے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: لعنت کیے گیے لوگوں سے بچو، صحابہؓ نے پوچھا یارسول اللہﷺ ! وہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا: جو لوگوں کے راستے یاان کے سائے کی جگہ میں قضاے حاجت کرتا ہے۔ (صحیح مسلم: 397)۔

یاد رہے کہ راستوں کو آلودہ کرنے کے حوالے سے یہ چیز بھی شامل ہے کہ راستے میں کوڑا کرکٹ،گندگی اور اسی طرح کی دیگر اشیا ڈالی جائیں۔ اسی طرح انتظار گاہ میں تھوکنا بھی گندگی پھیلانے کے زمرے میں آتا ہے۔

راستہ بھولنے والے کو راستہ بتانا

 راستے کا ایک حق یہ بھی ہے کہ کوئی شخص راستہ بھول جائے تو اسے صحیح راستے کی طرف رہنمائی کرنا۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: راستہ بتلانا بھی صدقہ ہے۔ (بخاری،2891)

ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم کہاں تک راستے کے حقوق ادا کرتے ہیں۔ اگر راستے میں جاتے ہوئے کوئی ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھ کر اس پر عمل کرے تو یقیناًاس کی اپنی زندگی بھی خوشگوار ہوگی اور وہ لوگ بھی خوش و خرم ہوں گے، جن کو اس شخص کی نیکی کی وجہ سے پریشانی سے نجات مل جائے گی۔ اس طرح ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا جذبہ پیدا ہو گا اور معاشرے میں سکون و اطمینان اور محبت و اخوت کی فضا قائم ہو گی۔

 مفتی محمد اویس اسماعیل ایگزیکٹیو ڈائریکٹر،

 الاخوان مجلس ِ افتاء کراچی ہیں)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

سالگرہ پر بچے چاہتے ہیں کچھ خاص!

بچوں کو اس کائنات کی سب سے خوبصورت اور معصوم مخلوق کہا جاتا ہے ۔سب کیلئے ہی اپنے بچے بہت خاص ہوتے ہیں اور بچوں کیلئے خاص ہوتا ہے ان کا جنم دن۔جب وہ سمجھتے ہیں کہ گھر والوں کو سب کام چھوڑ کر صرف ان کی تیاری پر دھیان دینا چاہئے۔ بچوں کی سالگرہ کیلئے سجاؤٹ میں آپ ان تمام چیزوں کی فہرست بنائیں جن میں آپ کے بچوں کی دلچسپی شامل ہو تاکہ وہ اپنے اس خوبصورت دن کو یادگار بنا سکیں۔

’’ویمپائرفیس لفٹ‘‘

کیا آپ کے چہرے پر بڑھاپے کے یہ تین آثار نظر آتے ہیں؟ (1)جلد کی رنگت کا خون کی گردش کی کمی کی وجہ سے سر مئی ہو جانا۔ (2) چہرے کی ساخت کا گرنا اور لٹک جانا، پٹھوں اور کولاجن کے کم ہوجانے کی وجہ سے۔(3) جلد کی بناوٹ کا کم ملائم ہوجانا۔اس کے نتیجے میں چہرہ تھکاہوا اور لٹکا ہوا نظر آتا ہے۔ چہرے کی زندگی سے بھرپور اور گلابی رنگت (جیسا کہ جلد کی ہر رنگت کے چھوٹے بچوں میں اور نوجوانی میں دیکھی جاتی ہے)مدھم ہو کر بے رونق سرمئی ہو جاتی ہے۔

آج کا پکوان

کشمش کا بونٹ پلائو:اجزاء:گوشت ایک کلو، چاول ایک کلو، گھی آدھا کلو، دار چینی، الائچی، لونگ، زیرہ سفید 10، 10گرام، پیاز250گرام، ادرک 50گرام، بونٹ کی دال آدھا کلو، دھنیا20گرام، مرچ سیاہ 10گرام، کشمش200گرام، نمک حسب ضرورت، زعفران 5گرام۔

عزیز حامد مدنی اک چراغ تہ داماں

عزیز حامد مدنی نے نہ صرف شاعری بلکہ تنقید، تبصرے اور تقاریر میں ان روایات کی پاسداری کی جو عہد جدید میں آئینے کی حیثیت رکھتے ہیں

اردوشعریات میں خیال بندی

معنی آفرینی اور نازک خیالی کی طرح خیال بندی کی بھی جامع و مانع تعریف ہماری شعریات میں شاید موجود نہیں ہے اور ان تینوں اصطلاحوں میں کوئی واضح امتیاز نہیں کیا گیا ہے۔ مثلاً آزاد، ناسخ کے کلام پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

علامہ محمداقبالؒ کا فکروفلسفہ :شاعر مشرق کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی، مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبالؒ بیسویں صدی کی نابغہ روز گار شخصیت تھی۔ وہ ایک معروف شاعر، مفکر، فلسفی،مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کے اہم رہنما تھے۔اپنے فکر و فلسفہ اور سیاسی نظریات سے اقبالؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا۔ ان کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی۔