بخل کرنے والوں کی مذمت
بخل کے معنی کسی چیز کو مضبوطی سے پکڑ لینے، اس کا حریص بننے اور دوسروں سے روک رکھنے کے ہیں۔ بخل نہایت بری عادت اور کم عقلی کی علامت ہے۔ بخیل انسان اللہ کے ہاں ناپسندیدہ شخص ہے۔ یہ ایک ایسی بد خصلت ہے جو انسان کی زندگی کے کسی ایک پہلو ہی پر اثر نہیں ڈالتی بلکہ اس کی سوچ اور عمل دونوں پر حاوی ہو جاتی ہے۔ بخل انسان کو اس طرح جکڑ لیتا ہے کہ وہ تمام عمر اس کے اثر سے نہیں نکل پاتا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اور اس نے مال جمع کیا پھر اسے تقسیم سے روکے رکھا‘‘ (سورۃ المعارج: 18)۔ بخل کر نے والے کیلئے قر آن و حدیث میں مذمت آئی ہے اور سخت وعیدیں ہیں، جس کو متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔
بخل کے معنی کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاً لازم ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے یا جس جگہ مال و اسباب خرچ کرنا ضروری ہو وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بخل ہے۔ بخل درحقیقت مال کی محبت ہے اور مال کی محبت قلب کو دنیا کی طرف متوجہ کر دیتی ہے جس سے اللہ کی محبت ضعیف و کمزور ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں ’’اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کیلئے برا ہے، عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو گا اور اللہ ہی وارث ہے آسمانوں اور زمین کا اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے‘‘(سورہ آل عمران: 180)۔
بخیل کواللہ کی مخلوق اور اللہ کی راہ میں کیے جانے والے کاموں سے بالکل رغبت نہیں ہوتی۔ اْس کی محبت کا محور تو صرف اْس کی اپنی دولت ہوتی ہے وہ اسے زندگی کا مقصود نظر جانتا اور مانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ ’’اللہ کسی اترانے والے شیخی باز سے محبت نہیں کرتا، جو آپ بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی بخل کی ترغیب دیتے ہیں، سنو! جو بھی منہ پھیرے، اللہ بے پرواہ اور خوبیوں والا ہے‘‘ (الحدید: 24)۔
بخل کے بارے میں ایک اور مقام پر نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ ’’اپنے آپ کو بخل سے بچاؤ کہ اس نے پہلی اُمتوں کو ہلاک کر دیا ہے‘‘۔ پس مسلمانوں کے شایان شان نہیں کہ وہ بخل کریں اور جہنم میں جائیں، بخل کے معنی میں اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ واجب کا ادا نہ کرنا بخل ہے، اسی لئے بخل پر شدید وعیدیں آئی ہیں۔ ترمذی کی حدیث میں ہے ’’بخل اور بدخلقی یہ دو خصلتیں ایماندار میں جمع نہیں ہوتیں‘‘۔ اکثر مفسرین نے فرمایا کہ یہاں بخل سے زکوٰۃ کا نہ دینا مراد ہے، بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ جس کو اللہ نے مال دیا اور اس نے زکوٰۃ ادا نہ کی روز قیامت وہ مال سانپ بن کر اْس کو طوق کی طرح لپٹے گااور یہ کہہ کر ڈستا جائے گا کہ میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں۔
حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، لالچ نے انہیں بخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال دلایا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے بخل ایک نہایت ہی قبیح اور مذموم فعل ہے، نیز بخل بسا اوقات دیگر کئی گناہوں کا بھی سبب بن جاتا ہے اس لیے ہر مسلمان کو اس سے بچنا لازم ہے۔بخل کے پانچ اسبا ب ہیں اور ان کا علاج بھی اس طرح ہے،بخل کاپہلا سبب تنگ دستی کاخوف ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھے کہ راہ خدا میں مال خرچ کرنے سے کمی نہیں آتی بلکہ اِضافہ ہوتا ہے،بخل کا دوسرا سبب مال سے محبت ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ قبر کی تنہائی کو یاد کرے کہ میرا یہ مال قبر میں میرے کسی کا م نہ آئے گابلکہ میرے مرنے کے بعد ورثاء اسے بے دردی سے تصرف میں لائیں گے،بخل کا تیسرا سبب نفسانی خواہشات کا غلبہ ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ خواہشات نفسانی کے نقصانات اور اْس کے اْخروی انجام کا باربار مطالعہ کرے۔بخل کا چوتھا سبب بچوں کے روشن مستقبل کی خواہش ہے اس کا علاج یہ ہے کہ اللہ جل شانہ پر بھروسہ رکھنے میں اپنے اعتقاد ویقین کو مزید پختہ کرے کہ جس رب نے میرا مستقبل بہتر بنایا ہے وہی رب میرے بچوں کے مستقبل کو بھی بہتر بنانے پر قادر ہے۔ بخل کا پانچواں سبب آخرت کے معاملے میں غفلت ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس بات پر غور کرے کہ مرنے کے بعد جو مال ودولت میں نے راہِ خدا میں خرچ کی وہ مجھے نفع دے سکتی ہے،لہٰذا اس فانی مال سے نفع اٹھانے کیلئے اسے نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا ہی عقل مندی ہے۔حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا ’’بندوں پر کوئی صبح نہیں آتی مگر اس میں دو فرشتے نازل ہوتے ہیں، ان میں سے ایک کہتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدل عطا فرما اور دوسرا کہتا ہے اے اللہ! بخل کرنے والے کو تباہی عطا کر (صحیح بخاری: 1356)۔
ایک اور مقام پر حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺنے فرمایاظلم کرنے سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کے دن تاریکی ہے اور بخل سے بچو کیونکہ بخل نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا ہے اور بخل ہی کی وجہ سے اپنوں نے لوگوں کے خون بہائے اور حرام کو حلال کیا‘‘ (صحیح مسلم 2079)۔
حضرت ابوہریرہؓ حضورﷺکا ارشاد مبارک نقل کرتے ہیں بد ترین عادتیں جو کسی انسان میں ہوں وہ دوہیں، ایک وہ بخل جو بے صبر کردینے والا ہے، دوسری وہ بزدلی ہے جو جان نکال دینے والی ہو‘‘ (ابو داؤد)۔
حضرت عبداللہ ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے ارشادفرمایا: وہ شخص مومن نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر کھانا کھالے اورپاس ہی اس کا پڑوسی بھوکا رہے۔ (شعب الایمان، مشکوٰۃ) ۔
حضر ت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورﷺکا ارشادہے کہ سخاوت جنت میں ایک درخت ہے، پس وہ شخص سخی ہوگا، وہ اس کی ایک ٹہنی پکڑلے گا، جس کے ذریعے سے وہ جنت میں داخل ہوجائے گا، اوربخل جہنم کاایک درخت ہے جو شخص بخیل ہوگا وہ اس کی ایک شاخ پکڑلے گا، یہاں تک کہ وہ ٹہنی اسے جہنم میں داخل کر کے ہی رہے گی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جنت میں ایک درخت ہے جس کا نام’’سخا‘‘ ہے سخاوت اسی سے پیدا ہوتی ہے اور دوزخ میں ایک درخت ہے جس کا نام ’’شح‘‘ہے، شح (بخل)اسی سے پیدا ہوا ہے، اس لیے شحیح (بخیل) جنت میں نہیں جائے گا۔(شعب الایمان، مشکوٰۃ) اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے راستے میں خرچ کرنے کی توفیق نصیب فرمائے اور بخل کر نے سے بچائے،آمین۔