یادرفتگان: نیاز فتح پوری اردو ادب کی ایک عہد ساز شخصیت

تحریر : محمد ارشد لئیق


تعارف: نیاز فتح پوری1884ء کو ہندوستان کے ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام نیاز محمد خان اور تاریخی نام لیاقت علی خاں تھا۔ ان کے والد محمد امیر خان پولیس انسپکٹر تھے جن کے تبادلوں کی وجہ سے ان کا بچپن بارہ بنکی، فتح پور، لکھنئو اور رام پور میں گزرا۔ ابتدائی اکیس بائیس برس فتح پور میں قیام رہا، یہیں مڈل اور میٹرک کے امتحان پاس کئے۔ دینی تعلیم بھی حاصل کی۔ دوران تعلیم ہی انہوں نے شعر کہنا شروع کر دیئے تھے۔ 1901ء میں وہ پولیس میں بطور سب انسپکٹر بھرتی ہوئے، 1902ء میں وہ مستعفی ہو گئے۔ اس کے بعد وہ شعبہ تدریس اور صحافت سے وابستہ رہے۔ مختلف سکولوں میں بطور ہیڈ ماسٹر جبکہ اخبارات میں مدیر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ انہوں نے مذہبی اور ادبی موضوعات پر 50 سے زائد کتب لکھیں۔ ہندوستان میں ان کی تدریسی اور ادبی خدمات پر انہیں ’’پدم بھوش‘‘ کے اعزاز سے نوازا گیا۔ 1962ء میں ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے اور 31جولائی 1962ء سے لے کر اپنی وفات 24مئی 1966ء تک کراچی میں مقیم رہے۔

نیاز فتح پوری اردو ادب کی بلاشبہ ایک قد آور شخصیت تھے۔ انہوں نے ناصرف مختلف اصناف سے متعلق یادگار تحریریں چھوڑی ہیں، بلکہ اپنے افکار و خیالات کی مدد سے اردو کی ادبی دنیا میں جمود کو توڑ کر طوفان تلاطم بھی برپا کیا ہے۔ ان کا مطالعہ ایک شخص سے بڑھ کر ایک متحرک عہد اور ذہنی تشکیل نو اور بیداری کے مطالعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ نیاز فتح پوری ان چند ادباء میں ہیں جنہوں نے اردو زبان کے خط وخال کو سنوارنے میں اپنی زندگی کا ایک حصہ قربان کر دیا اور اردو زبان کو ایسی لطافت، دلکشی اور شیرینی عطا کی جس سے نثر بھی نظم کا جزو بن گئی۔ ان کی رنگین تحریریں فضا میں رنگ و نگہت بکھیر دیتی ہیں۔ نیاز قاری کے ذہن کو اپنے سحر انگیز انداز بیاں میں قید کر لیتے ہیں۔ ان کی شخصیت سوزوساز کا ایک امتزاج رنگین تھی جس کے سبب ہم انہیں ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے۔ ان کے ادبی کارناموں کو رہتی دنیا تک فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

نیاز فتح پوری بیک وقت شاعر، افسانہ نگار، نقّاد، محقق، مفکّر، مورخ، عالم دین، ماہر نفسیات، صحافی، مترجم اور نہ جانے کیا کیا تھے۔ ان کی شخصیت میں علم کے کتنے ہی سمندر موجزن تھے۔ ان کی تحریریں ہزاروں صفحات پر اتنے گوناگوں ادبی و علمی موضوعات پر پھیلی ہوئی ہیں کہ اس حوالہ سے اردو میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔نیاز کو اپنی زبان (اردو)سے عشق کی حد تک محبت تھی اور وہ زبان کی خدمت کو اپنا فرض اولین سمجھتے تھے۔ 

نیاز فتح پوری کے فنی کریئر پر نظر ڈالیں تو میٹرک پاس کرنے کے بعد وہ پولیس میں بھرتی ہو گئے،  تقریباً ایک سال ملازمت کرنے کے بعد نیاز نے استعفیٰ دے دیا ۔ اس کے بعد انھوں نے مختلف چھوٹے بڑے عہدوں پر ملازمتیں کیں، تدریس کا کام کیا یا پھر اخبارات سے وابستہ رہے۔ وہ 1910ء میں’’ زمیندار‘‘ اخبار سے وابستہ ہوئے،1911ء میں ہفتہ وار ’’توحید‘‘  کے نائب مدیر مقرر ہوئے، 1913ء میں ہفت روزہ ‘‘خطیب‘‘ کے قلمی معاون رہے، اور 1919ء میں اخبار ’’رعیت‘‘ کے مدیر اعلیٰ بنے۔ اس عرصہ میں ان کی ادبی اور علمی سرگرمیاں جاری رہیں اور انھوں نے اپنی  شاعری، افسانوں اور علمی مضامین کی بدولت با ذوق علمی وادبی حلقوں میں شہرت حاصل کر لی۔ 1914ء میں حکیم اجمل خان نے ان کو اپنے قائم کردہ انگریزی اسکول میں ہیڈ ماسٹر مقرر کر دیا۔ 

 یہ حقیقت ہے کہ نیاز نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا تھا۔ وہ اردو کے ساتھ فارسی اور عربی میں شعر کہا کرتے تھے۔ ان کی مختلف اصناف میں کی گئی شاعری اس دور کے معروف جریدوں میں شائع ہوا کرتی تھی۔ شاعری گاہے بگاہے دوسروں کو سنانے کیلئے کرتے تھے۔جوں جوں وہ تخلیقی، علمی اور صحافتی نثرنگاری میں زیادہ سے زیادہ مشغول ہوتے گئے شاعری سے ان کی وابستگی کم ہوتی گئی۔ ان کا کوئی مجموعہ کلام شائع نہیں ہوا جس سے ہر دور کے سخن نوازوں کو ان کی شاعری کے بارے میں کوئی مستحکم رائے قائم کرنے میں مدد ملے۔ 

نیاز کا تنقید کے میدان میں اپنا الگ رنگ تھا، وہ ہمیشہ عام زاویہ سے ہٹ کر بات کرتے تھے اور اختلاف رائے کا خیرمقدم کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔جس کے دو فائدے ہوتے تھے ، ایک تو جس کے کلام پر تنقید کرتے تھے اس کی باقاعدہ اصلاح ہو جاتی تھی، اور دوسرے ایک ہی موضوع پر مختلف آراسامنے آ جاتی تھیں۔ ان کی تنقید کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ فلسفیانہ اساس پر مبنی ہے اور اس میں کافی حد تک نیا پن موجود ہے۔ 

 تنقید کے ساتھ ساتھ نیاز نے اور بھی بہت کچھ لکھا ہے، وہ ایک بڑے افسانہ نگار بھی ہیں۔ نیاز فتحپوری کا شمار دور اوّل کے ان چند افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اردو زبان میں مختصر افسانے کو متعارف کرایا اور بڑے تواتر کے ساتھ کہانیاں لکھیں۔ ان کا پہلا افسانہ ’’اک پارسی دوشیزہ کو دیکھ کر‘‘ 1915ء میں چھپا تھا۔انہوں نے بہترین افسانے تخلیق کئے اور ان افسانوں میں رومانیت کا رنگ سمو دیا۔ ان کے افسانے زندگی کے حسین و جمیل پہلوئوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان افسانوں میں اصلاحی پہلو کم اور جمالیاتی پہلو زیادہ ہے۔ ان کی انتہا پسند رومانی تحریروں نے اردو افسانہ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ ان کے افسانوں کو پڑھ کر جو تاثر ذہن پر قائم ہوتا ہے، وہ دیرپا بھی ہے اور فرحت بخش بھی۔

دنیائے اردو میں نیاز بحیثیت مترجم بھی ایک بڑا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کے تراجم میں خاص بات یہ ہے کہ وہ جس زبان سے ترجمہ کرتے ہیں اس کو اردو کا اپنا رنگ دے دیتے ہیں۔ جہاں تک انشا پردازی کا سوال ہے وہ اس فن میں بھی اپنے معاصرین سے بہت آگے نظر آتے ہیں۔ وہ جس عنوان پر قلم اٹھاتے ہیں اپنی انشا پردازی کے جوہر بکھیرتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے شعر نما نثر ایک بڑے عرصے تک اردو ادب پر چھائی رہی۔ 

نیاز فتحپوری چاہے افسانہ لکھیں یا انشائیہ، ترجمہ ہو یا تنقید ہر جگہ ان کا زور بیاں ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح نظر آتا ہے۔ ان کی تحریریں ان کے زور بیاں سے نکھرتی ہیں ۔ ان کے جملے با معنی اور گہرے ہوتے ہیں۔ انہیں الفاظ، تشبہیات اور استعارات کی تحقیق کا ستھرا ذوق تھا۔ 

وہ تقریباً 42 کتب کے مصنف ہیں۔ نیاز نے ایک طرف مذہبی اور ادبی موضوعات پر کتابیں لکھیں تو دوسری طرف ’’فراست الید‘‘ (پامسٹری) اور ’’ترغیبات جنسی‘‘ جیسے موضوعات پر بھی ضخیم کتابیں لکھیں۔ انھوں نے نگار کے قرآن نمبر، خدا نمبر، وغیرہ شائع کئے تو دوسری طرف داغ نمبر، نظیرنمبر، مومن نمبر وغیرہ مختلف شاعروں پر خاص نمبر شائع کئے۔ نیاز ادب کی دنیا میں یقیناً دوربین اور پیشگو ثابت ہوئے، وہ ایک عہد ساز شخصیت کے مالک تھے۔ 

ان کی ذاتی زندگی پر بات کی جائے تو انہوں نے تین شادیاں کیں۔ پہلی شادی 1901ء میں 17سال کی عمر میں الہ آباد میں ہوئی۔ 1923ء میں ان کی پہلی بیوی کا انتقال ہوا۔ 1924ء میں لکھنو میں ان کی دوسری شادی مختار بیگم سے ہوئی، جن کا انتقال 1947ء میں ہوا۔ اسی سال مرحومہ کی چھوٹی بہن گلزار بیگم سے شادی ہوئی۔ وہ 1962ء میں ہجرت کر کے ہندوستان سے پاکستان آ گئے۔ 1966ء کے آغاز میں معلوم ہوا کہ وہ سرطان کے مرض میں مبتلا ہیں۔ اس مرض نے 24 مئی 1966ء کو ان کی جان لے لی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

بے وقت کی بھوک اور ڈائٹنگ

بہت سی لڑکیوں کو ہر وقت کچھ نا کچھ کھانے پینے اور منہ چلانے کی عادت ہوتی ہے، ایسی لڑکیاں اپنی بے وقت کی بھوک کو برداشت نہیں کر پاتیں اور اپنی ڈائٹنگ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کچھ نہ کچھ کھانے لگ جاتی ہیں۔

سسرال کو اپنا ہمنوابنانا مشکل نہیں

جب بھی کوئی لڑکی بابل کا انگنا چھوڑ کر پیا دیس سدھارتی ہے تو جہاں زندگی کے اس نئے موڑ پر بہت سی خوشیاں اس کی منتظر ہوتی ہیں وہیں کچھ مسائل اور الجھنیں بھی حصہ میں آتی ہیں۔ نئے گھر اور نئے ماحول میں خود کو ایڈجست کرنا آسان کام نہیں، کیونکہ لڑکی کی شادی تو محض ایک فرد سے ہوتی ہے لیکن مشرقی روایات کے مطابق گزارہ اسے پورے کنبے کے ساتھ کرنا ہوتا ہے۔

رہنمائے گھر داری

جلد میں جلن اکثر خواتین جلد میں جلن کی شکایت کرتی ہیں، ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے جلد جھلس گئی ہو، وہ کسی بھی قسم کی کریم بھی استعمال نہیں کر سکتیں۔ ایسی خواتین کیلئے ایک انتہائی مفید نسخہ بتانے جا رہی ہوں۔امرود پکا ہوا ایک عدد، دہی 2چمچ، Coca powerایک کھانے کا چمچہ، انڈا ایک عدد۔ امرود کو اچھی طرح میش کر لیں، پھر اس میں باقی اجزاء ملا کر پیسٹ بنا لیں۔ اگر جلد میں زیادہ جلن ہو تو اس میں پودینہ یا کافور بھی مکس کر سکتی ہیں۔ اس پیسٹ کو 1گھنٹہ لگا کر سادہ پانی سے واش کر لیں۔

آج کا پکوان: چکن جلفریزی

اجزاء:چکن اسٹرپس آدھا کلو، تیل ایک چوتھائی کپ، پیاز2عدد کٹی اور درمیانی، ادرک2کھانے کے چمچ جولین کٹا ہوا، لال مرچ ایک کھانے کا چمچ پسی ہوئی، ہلدی ایک چوتھائی چائے کا چمچ، کالی مرچ آدھا چائے کا چمچ، گرم مصالحہ ایک چوتھائی چائے کا چمچ، مسٹرڈپائوڈر آدھا چائے کا چمچ، نمک 3چوتھائی چائے کا چمچ، سویا سوس ایک کھانے کا چمچ، کیچپ ایک چوتھائی کپ، ٹماٹر2عدد کیوبز میں کٹے ہوئے، شملہ مرچ ایک عدد اسٹرپس میں کٹی ہوئی، ہری مرچ 3عدد اسٹرپس میں کٹی ہوئی، ہرا دھنیا ایک کھانے کا چمچ کٹا ہوا۔

شاد عظیم آبادی اور جدید غزل

:تعارف اردو زبان کے ممتاز شاعر، نثر نویس اور محقق شاد عظیم آبادی 17جنوری 1846ء کو بھارتی صوبہ بہار کے دارالخلافہ پٹنہ میں پیدا ہوئے ۔ان کا تعلق ایک متمول گھرانے سے تھا۔ ان کا اصل نام نواب سید علی محمد تھا۔ ابتدائی تعلیم شاہ ولایت حسین سے حاصل کی۔ وہ کل وقتی شاعر تھے اور شاعری کا تحفہ انہیں قدرت کی طرف سے ملا تھا۔ شاعری میں ان کے کئی استاد تھے لیکن شاہ الفت حسین فریاد کو صحیح معنوں میں ان کا استاد کہا جا سکتا ہے۔ شاد عظیم آبادی نے غزل اور مثنوی کے علاوہ مرثیے، قطعات ،رباعیات اور نظمیں بھی لکھیں۔ 1876ء میں ان کا پہلا ناول ’’صورت الخیال‘‘شائع ہوا۔ ان کی دیگر تصنیفات میں ’’حیات فریاد نوائے وطن، انٹکاب کلام شاد، میخانہ الہام، کلام شاد‘‘ شامل ہیں۔ کچھ حلقوں کے مطابق انہوں نے نظم و نثر کی 60 کتابیں چھوڑی ہیں۔ انہوں نے 1927ء میں 81برس کی عمر میں وفات پائی۔

مستنصر کے ناولوں میں المیوں کا تسلسل

مستنصر حسین تارڑ کے ناول اس شعر کی فکری تاریخی اور عمرانی توسیع و تفسیر معلوم ہوتے ہیں وقت کرتا ہے پرورش برسوںحادثہ ایک دم نہیں ہوتا