سید الاُولیاء شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ

تحریر : مولانا قاری محمد سلمان عثمانی


یہ اسلامی تاریخ کی ایک روشن حقیقت ہے کہ صوفیائے کرامؒ و اولیائے عظامؒ دلوں کے فاتح تھے اور آج بھی اہل ایمان کے قلب و ذہن اولیائے کرامؒ کی محبت سے پرنور اور ان کے پیغام سے منور ہیں۔

 بلاشبہ ان بزرگان دین نے کتاب و سنت کی روشنی میں رحمت اللعالمین کے اسوۂ حسنہ اور اکابر صحابہ کرامؓ کے طرز عمل کو اپنے لئے نمونہ بنایا اور اسلام کی اعلیٰ تعلیمات اور اپنے پاکیزہ کردار کی قوت سے انتہائی بے مثال رفتار سے ہزارہا گم کردہ راہ انسانوں کو اسلام کی آغوش میں داخل کیا، جس کیلئے انہوں نے جگر سوز جدوجہد کی۔ یہ ایک ایسی تاریخی حقیقت ہے جو گردنوں کے جھکانے کے فن اور دلوں کو فتح کرنے کے فن میں واضح امتیازکو نمایاں کرتی ہے، بلاشبہ اسلام کی آفاقی تعلیمات دلوں کے فتح کرنے کا فن رکھتی ہیں۔ 

انہی برگزیدہ ترین ہستیوں میں ایک محبوب ہستی، آسمانِ ولایت کے آفتاب، علم و معرفت کے تاجدار، سلطان طریقت، حجۃ العارفین، عالم ربانی، قطب زمانی، محبوب سبحانی، سلسلہ قادریہ کے بانی، سرتاج اولیاء حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی ذات اقدس ہے۔ آپؒ کا اسم گرامی عبدالقادر، کنیت ابو محمد اور لقب محی الدین ہے۔ سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ایران کے مشہور قصبہ ’’جیل یا جیلان‘‘ میں یکم رمضان المبارک 470ھ میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کی والدہ ماجدہ اُم الخیر حضرت فاطمہ بنت ابو عبداللہ الحسینیؒ نہایت عابدہ، زاہدہ خاتون تھیں۔ آپؒ کے والد بزرگوار حضرت ابو صالح الحسنی المعروف جنگی دوستؒ اپنے وقت کے ولی کامل تھے۔ آپؒ نجیب الطرفین سیّد ہیں۔

حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی ؒ25 سال تک مجاہدات میں مصروف رہے، اس لئے اس عرصے کے دوران آپ وعظ سے علیحدہ رہے، مگر جوں ہی آپؒ ہر لحاظ سے علوم ظاہری و باطنی میں کامل ہو گئے تو آپؒ کو حکم دیا گیا کہ مسند ارشاد پر جلوہ افروز ہوں، اس حکم کا واقعہ یوں ہے۔ حضرت شیخ کا بیان ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضورﷺ تشریف لائے اور آپ ﷺ فرما رہے ہیں۔ اے عبدالقادر تم راہ حق بتانے کیلئے وعظ و نصیحت کیوں نہیں کرتے؟ تاکہ لوگ گمراہی سے بچیں۔ اس کے جواب میں آپؒ نے سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت اقدس میں التجا کی ’’یا رسول اللہﷺ میں ایک عجمی ہوں۔ عرب کے فصحاء کے سامنے لب کشائی کیسے کروں؟ اس پر حضورﷺ نے فرمایا کہ اپنا منہ کھولو، تو آپ نے تعمیل ارشاد فرماتے ہوئے منہ کھولا۔ سرور کائنات ﷺ نے اپنا لعاب دہن آپ کے منہ میں ڈال دیا۔ اس طرح سرکار دو عالمﷺ نے سات مرتبہ آپ کے منہ میں اپنا لعاب لگایا اور بعدازاں حکم دیا کہ اب جائو، وعظ، نصیحت کے ذریعے لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دو۔ آپؒ کے سوانح نگاروں نے بعض کتب میں یوں بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ ہاتف غیبی سے اشارہ ہوا کہ اے عبدالقادر جیلانی! بغداد میں داخل ہو کر لوگوں میں وعظ کرو۔ چانچہ جب میں نے بغداد واپسی کے بعد لوگوں کو پہلی ہی جیسی حالت پر پایا تو پھر واپسی کا قصد کر لیا، لیکن ہاتف غیبی نے مجھ سے دوبارہ کہا ’’اے عبدالقادر! بغداد میں لوگوں کو نصیحت کرو، کیوں کہ تمہاری ذات سے لوگوں کو بہت فائدہ پہنچنے والا ہے۔

آپؒ فرماتے تھے کہ لوگوں کے دلوں پر میل جم گیا ہے، جب تک اسے زور سے رگڑا نہیں جائے گا، وہ دور نہ ہوگا۔ میری سخت کلامی انشاء اللہ ان کیلئے آب حیات ثابت ہو گی۔ ایک دفعہ اپنے وعظ کے متعلق آپؒ نے فرمایا کہ میرا منبر وعظ پر بیٹھنا تمہارے قلوب کی اصلاح و تطہیر کیلئے ہے، نہ کہ الفاظ کے الٹ پھیر اور تقریر کی خوش نمائی کیلئے۔ میری سخت کلامی سے مت بھاگو، کیونکہ میری تربیت اس نے کی ہے، جو دین خداوندی میں سخت تھا۔ میری تقریر بھی سخت ہے اور کھانا بھی سخت اور روکھا سوکھا ہے، پس جو مجھ سے اور میرے جیسے لوگوں سے بھاگا اسے فلاح نصیب نہیں ہوئی۔ جن باتوں کا تعلق دین سے ہے ان کے متعلق جب تو بے ادب ہے تو میں تجھے چھوڑوں گا نہیں اور نہ یہ کہوں گا کہ اسے کئے جا۔ تو میرے پاس آئے یا نہ آئے، پروا نہ کروں گا۔

آپ کو پیدائشی ولی کہا گیا ہے۔ اس حقیقت کے نشانات بھی آپ کے مواعظ میں تابندہ ہیں، اس ضمن میں آپ کا ارشاد ہے۔ میں بچپن میں اپنے وطن میں ایک آواز سنا کرتا تھا ’’ یا مبارک، یا مبارک‘‘۔ پس میں اس آواز سے ڈر کر بھاگا کرتا تھا کہ آواز دینے والا نظر نہیں آتا۔ نیز خلوت میں بھی مجھے سنائی دیا کرتا تھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے’’ میں تمیں اچھے حال پر پا رہا ہوں‘‘۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ تصوف کے مشہور سلسلے سلسلۂ قادریہ کے بانی شمار ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عالم اسلام میں اس سلسلے سے وابستہ بزرگان دین نے اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور معاشرے کی اصلاح میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ اس کے ہمہ جہت اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ آپ کو یہ فیضان عطا ہوا، اپنے والدین کے زیر سایہ، جو حسنی اور حسینی سیّد تھے۔ ان کے متعلق آپ نے دوران وعظ فرمایا ’’ میرے والد دنیا سے بے رغبت تھے۔ باوجود یہ کہ اس کے حاصل کرنے پر انہیں قدرت تھی۔ میری والدہ اس زہد میں ان کے موافق اور ان کے اس فعل پر راضی تھیں۔ وہ دونوں نیکو کار، دین دار اور مخلوق خدا پر شفیق تھے‘‘۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کو اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب ﷺ کا قرب ملا تو وہ مقام رفعت بھی عطا ہوا، جہاں سے آپؒ نے فرمایا’’ اپنے دین کی پوشاک حضرت محمد ﷺ سے مانگو، میری اتباع کرو کہ میں رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر ہوں۔ میں آپ ﷺ کا تابع ہوں، کھانے میں بھی پینے میں بھی۔ آپ ﷺ کے جملہ احوال اور ان امور میں جن کی طرف آپ ﷺ اشارہ فرمایا کرتے تھے میں ہمیشہ اسی طرح تمہیں راہ حق کی طرف بلاتا رہوں گا۔ یہاں تک کہ حق تعالیٰ کو جو کچھ میرے وجود سے مقصود ہے، وہ پورا ہو جائے۔

لوگوں نے آپ سے عرض کی کہ ہم آپؒ جیسے روزے رکھتے ہیں اور آپؒ جیسی نمازیں پڑھتے، آپؒ جیسی ریاضت کرتے ہیں، لیکن آپؒ جیسے حالات بالکل ہم نہیں دیکھ پاتے، تب فرمایا ’’تم نے (ظاہری) اعمال میں تو میری پیروی کی ہے، کیا خدا کی نعمتوں میں مزاحمت کر سکتے ہیں؟ واللہ میں کبھی نہیں کھاتا، یہاں تک کہ مجھے کہا جاتا ہے کہ تمہیں میرے حق کی قسم ہے، کھائو اور میں کبھی پانی نہیں پیتا، یہاں تک کہ مجھ سے کہا جاتا ہے کہ تمہیں میرے حق کی قسم ہے پیو اور میں کوئی کام نہیں کرتا یہاں تک کہ مجھے کہا جاتا ہے کہ یہ کام کرو‘‘(بہجتہ الاسرار)۔

حضرت شیخ امام موفق ابن قدامہ ؒ فرماتے ہیں کہ ہم بغداد شریف گئے تو ہم نے دیکھا کہ شیخ سید عبدالقادر جیلانی ؒ ان میں سے ہیں کہ جنہیں وہاں پر عمل، عمل اور فتویٰ نویسی کی مہارت دی گئی ہے، کوئی طالب علم یہاں کے علاوہ کسی اور جگہ کا ارادہ اس لئے نہیں کرتا تھا کہ آپ میں تمام علوم جمع ہیں، آپ کا سینہ فراخ تھا اور آپ سیر چشم تھے۔ اللہ عزوجل نے آپ میں اوصاف جمیلہ اور احوال عزیزہ جمع فرما دیئے تھے۔(بہجتہ الاسرار)

امام ربانی شیخ عبدالوہاب شعرانیؒ شیخ الحدثین عبدالحق محدث دہلوی ؒ علامہ محمد بن یحییٰ حلبی تحریر فرماتے ہیں کہ ’’ حضرت سید نا شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ تیرہ علوم میں تقریر فرمایا کرتے تھے‘‘۔ ایک جگہ علامہ شعرانی ؒ فرماتے ہیں کہ ’’ حضور غوث پاک‘‘ کے مدرسہ عالیہ میں لوگ آپ سے تفسیر، حدیث ، فقہ اور علم الکلام پڑھتے تھے، دوپہر سے پہلے اور بعد دونوں وقت لوگوں کی تفسیر، حدیث، فقہ، کلام، اصول اور نحو پڑھاتے تھے اور ظہر کے بعد قرأتوں کے ساتھ قرآن مجید پڑھاتے تھے‘‘۔

سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی حیات مبارکہ اہل ایمان کیلئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپؒ کی زندگی میں دو چیزیں بہت نمایاں ہیں۔ اپنے خالق اللہ تبارک و تعالیٰ سے بے پناہ محبت اور اس کی مخلوق کی خدمت کا بے لوث و بے انتہا جذبہ۔ آپؒ کی ذات اقدس اہل طریقت کیلئے اعلیٰ مثال رہی ہے۔ آپؒ ولایت و معرفت کے مینارہ نور کی حیثیت سے کائنات ارضی پر جلوہ گر ہوئے اور اسلام کی تعلیمات اور اس کی روحانی زندگی کو مشارق و مغارب کی پنہائیوں میں نافذ کرتے رہے۔ 

سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے 91 سال کی عمر مبارک میں بتاریخ 11 ربیع الثانی 561ھ ہجری کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ دنیا بھر میں آپؒ کے معتقدین پھیلے ہوئے ہیں۔ صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی بغداد (عراق) میں آپؒ کا مزارپُر انوار زیارت گاہ خلائق اور مرجع خاص و مقام ہے اور آپؒ کی تعلیمات مسلمانوں کی دینی تربیت، تزکیہ اور اخلاقی و معاشرتی اصلاح کا سرچشمہ ہیں، جس کے فیض سے لاکھوں نفوس مستفیض ہورہے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

غرور کی سزا

بارہ سالہ ماہین ساتویں کلاس کی طالبہ تھی۔ وہ بہت ذہین اور اچھے دل کی مالک تھی۔ اپنی ذہانت کی وجہ سے پورے خاندان میں اسے ایک نمایاں حیثیت حاصل تھی۔

لہسن

لہسن بھی ہے بچو! بڑی تعریف کے قابل ثانی کوئی اس کا نہ کوئی مدمقابل پوچھو جو حکیموں سے وہ تعریف کریں گےشاعر بھی سدا اس کے قصیدے ہی پڑھیں گے

ذرامسکرایئے

ایک بچہ مزاحیہ بات پر تین مرتبہ ہنستا تھا، کسی نے اس سے پوچھا’’تم ہر مذاق پر تین مرتبہ ہنستے ہو، آخر اس کی وجہ کیا ہے‘‘؟ بچے نے جواب دیا: ’’ ایک مرتبہ لوگوں کے ساتھ ہنستا ہوں، دوسری مرتبہ جب میری سمجھ میں آتا ہے تب ہنستا ہوں اور تیسری مرتبہ اپنی بے وقوفی پر ہنستا ہوں‘‘۔٭٭٭

حرف حرف موتی

٭… اخلاق سے اچھا تحفہ کوئی نہیں۔ ٭… مسکراہٹ دل جیتنے کا سب سے اچھا طریقہ ہے، بچو! آپ اس طریقے پر عمل کرکے پوری دنیا فتح کر سکتے ہیں۔٭… سب کے ساتھ ہنسئے، لیکن کسی پر ہنسنے کی عادت ترک کردیجئے۔

پہیلیاں

(1)دبلی پتلی سی اک رانی اوپر آگ اور نیچے پانی منہ چومو تو شور مچائےبات کرو تو چپ ہو جائے٭٭٭

فروغِ روا داری و قیام امن، اسلامی تصور

’’اسلام امن و سلامتی کا دین ہے،جس میں جبر و اکراہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘‘(سورۃ البقرہ ) ’’اے رسولؐ لوگوں کو اپنے پروردگار کے راستے کی طرف دانائی اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلائو ‘‘(سورۃ النحل)