فروغِ روا داری و قیام امن، اسلامی تصور

تحریر : مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان


’’اسلام امن و سلامتی کا دین ہے،جس میں جبر و اکراہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘‘(سورۃ البقرہ ) ’’اے رسولؐ لوگوں کو اپنے پروردگار کے راستے کی طرف دانائی اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلائو ‘‘(سورۃ النحل)

’’اسلام امن و سلامتی کا دین ہے، جس میں جبر و اکراہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘‘ (سورۃ البقرہ : 268)۔ یہ مذہب تبلیغی ہے اور اس وقت دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں اقلیت و اکثریت کی صورت میں اس کے ماننے والے موجود ہیں اور تقریباً اٹھاون ممالک کا ریاستی مذہب اسلام ہے۔ ازمنہ سابقہ اور حالیہ میں صلیبیوں، ترکوں اور تاتاریوں نے مسلمانوں کو سختی کے ساتھ کچلنے کی کوششیں بھی کیں لیکن اکثر ایسا ہوا کہ فاتحین نے ہی اسلام قبول کیا اور پھر اس کی تقویت کا باعث بنے۔ اسی حقیقت کے بارے میں پروفیسر تھامس آرنلڈ نے کہا تھا: ’’اگرچہ عظیم الشان اسلامی سلطنت کے حصے بکھر گئے اور اسلام کی سیاسی قوت کو زوال آ گیا لیکن دین اسلام کی روحانی فتوحات بدستور، بلا روک ٹوک جاری رہیں‘‘ (’’دی پریچنگ آف اسلام‘‘، ص 24)

یہ امر قابل غور ہے کہ اسلام نے اپنے سیاسی زوال اور انحطاط کے زمانے میں بھی بعض نہایت شاندار روحانی فتوحات حاصل کیں، مثلاً اسلام کی تاریخ میں دو مواقع ایسے آئے ہیں جب وحشی کفار نے مسلمانوں کو سختی کے ساتھ پامال کیا۔ سلجوق ترکوں نے گیارہویں صدی اور تاتاریوں نے تیرہویں صد ی میں، مگر ان دونوں موقعوں پر فاتحین نے اسی قوم کا مذہب اختیار کر لیا جس کو انہوں نے مغلوب کیا تھا۔ مسلمان مبلغین نے اپنا مذہب وسطی افریقہ ، چین اور جزائرہند چین میں بھی پھیلایا، حالانکہ ان کو وہاں کسی دنیوی حکومت کی امداد حاصل نہ تھی۔ (ایضاً)

یہی اسلامی تعلیمات، جو ہمیشہ اسلام کی تقویت کا باعث بنی ہیں، اسی لیے حکومتیں مسلم ہوں یا غیر مسلم مسلمانوں نے اپنے کردار و عمل سے روا داری کو فروغ دیا اور مختلف مذاہب و قومیتوں کے باوجود امن قائم کیا۔ اس لیے اسلام کے پھیلاؤ کا اصل سبب یہی اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کا کردار ہے۔ عصر حاضر میں روا داری کو فروغ دینے اور امن قائم کرنے کیلئے اسی کردار کو اپنانے کی ضرورت ہے، اس بارے میں قرآن و حدیث کی تعلیمات کیا ہیں؟ اور مسلمانوں کا کردارو عمل کیا ہے؟ اس مضمون میں اختصار کے ساتھ اسے بیان کیا جاتا ہے۔

فریضہ تبلیغ

 اسلام کی تاریخ میں فریضہ تبلیغ ایسی چیز نہیں کہ اس کا خیال بعد کے زمانے میں پیدا ہوا ہو۔ یہ وہ فرض ہے جو مسلمانوں پر ابتدا ہی سے عائد کر دیا گیا تھا۔ جیسا کہ قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات سے ثابت ہے: ’’اے رسولؐ لوگوں کو اپنے پروردگار کے راستے کی طرف دانائی اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلائو اور ان کے ساتھ ایسے طریق پر مباحثہ کرو جو بہت اچھا ہو‘‘ (النحل: 125)۔

 ’ ’ہم نے ہر امت کیلئے ایک طریقہ مقرر کر دیا ہے جس پر وہ چلتی ہے۔ پس اس بارے میں تجھ سے کوئی نہ جھگڑے اور توا پنے پروردگار کی طرف بلا۔ بیشک تو سیدھے راستے پر ہے۔ اور اگر لوگ تجھ سے جھگڑیں تو کہہ دے کہ جو تم کرتے ہو اس کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے‘‘ (سورۃ التوبہ:6)۔

جبر وا کراہ کی ممانعت

 ان آیات سے معلوم ہوا کہ اسلام ابتدا ہی سے نظریہ اور عمل کے اعتبار سے ایک تبلیغی مذہب رہا ہے۔ رسول اللہﷺ کی سیرت اس امر کی روشن مثال ہے اور آپﷺ خود مبلغین اسلام کے اس طویل سلسلے کے سرخیل ہیں۔ جنہوں نے کفار کے دلوں میں اپنے دین کیلئے راہ پیدا کی۔ اگر اسلام کے تبلیغی جوش کا ثبوت تلاش کرنا ہو تو اسے کسی جابر شخص کی ایذا رسانی یا متعصب آدمی کے غیظ و غضب میں ڈھونڈنا عبث ہے۔ اسی طرح مسلم مجاہد کی وہ خیالی تصویر بھی حقیقت سے بہت دور ہے جس کے ایک ہاتھ میں تلوار اوردوسرے میں قرآن دکھایا گیا ہے۔(تاریخ اسلام، ج2، ص 831)

اسلام کی صحیح روح کا مظہر وہ مسلمان مبلغ اور تاجر ہیں، جنہوں نے نہایت خاموشی کے ساتھ اپنے دین کو روئے زمین کے ہر خطے میں پہنچایا ہے۔ تبلیغ دین کے یہ پُر امن طریقے صرف اس زمانے میں ہی اختیار نہیں کیے گئے جبکہ سیاسی حالات نے جبرو اکراہ کے استعمال کو ناممکن یا خلاف مصلحت بنا دیا تھا، بلکہ قرآن شریف کی بہت سی آیات میں ایسے پر امن طریقوں کی سخت تاکید آئی ہے۔ 

پرامن تبلیغ کی تاکید

دین اسلام پرامن تبلیغ کا داعی ہے، جیساکہ قرآن مجید میں ہے: ’’اہل کتاب کے ساتھ، سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے ان میں سے ظلم کیا ہے، جھگڑا مت کرو، مگر ایسے طریقے سے جو بہت اچھا ہو، اور کہہ دو کہ ہم اس پرجو ہم پر اتارا گیا ہے اور تم پر اتارا گیا ہے، ایمان رکھتے ہیں، اور ہمارا اللہ اور تمہارا اللہ ایک ہے، اور ہم اسی کو مانتے ہیں‘‘ (العنکبوت: 46)۔

 حضورﷺ کی تعلیمات

امام بخاریؒ حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، اور مہاجر وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی منع کردہ چیزوں کو چھوڑ دے‘‘ (دعوت اسلام، ص 25-30)

مسلمان اور سلامتی

دائرہ اسلام میں مکمل طور پر داخل ہونے کیلئے ارکان اسلام نماز، روزہ، زکوٰۃ اور شہادتین کی ادائیگی ضروری ہے۔ جیسا کہ  آیت مبارکہ ہے کہ ’’اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ‘‘ (البقرہ :208) ، اس میں ’’سلم ‘‘ میں داخل ہونے سے تعبیر کیا ہے، یعنی وہ سلامتی کے سمندر میں اپنا بادبان کھول کر اپنی کشتی چلاتا ہے۔ ایسا شخص ہر دم ہر سو سلامتی کی مہک پھیلاتا ہے۔ لوگ اس میں صرف بھلائی پاتے اور اس سے خیر ہی کی توقع رکھتے ہیں۔

تین حقوق

اللہ کا حق، ریاست کا حق اور دین کا حق (دعوت اسلام، ص 25-30 )۔حضرت عرباض بن ساریہؓ سے روایت ہے کہ آقا کریم ﷺ نے فرمایا: ’’میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اور سمع و اطاعت کی وصیت کرتا ہوں، اگرچہ تم پر حبشی غلام امیر بنا دیا جائے، تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا، وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا لہٰذا میری اور خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھنا اور نئی نئی باتوں سے بچنا، کیونکہ وہ بدعت گمراہی ہے‘‘ (الجامع الصحیح، رقم الحدیث 10)۔ 

اس حدیث مبارکہ میں رسول اللہﷺ نے تین حقوق کا ذکر فرمایا ہے۔

اوّل :تقوٰی جو اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔

 دوم : سننا اور اطاعت اختیار کرنا، جو حکومت چلانے والوں کا حق ہے۔ 

سوم: سنت کے ساتھ تعلق قائم رکھنا، جو دین کاحق ہے۔ (نور سرمدی فخرانسانیت محمدؐ،ص 238-240)

مسجد میں گندگی پھیلانے والے بدوی کے ساتھ آپ ﷺکا برتاؤ

 حضرت انس بن مالکؓ کا بیان ہے ’’ہم مسجد میں رسول اللہﷺ کے ہمراہ بیٹھے تھے کہ ایک بدوی مسجد میں آیا اور اس نے کھڑے ہو کر پیشاب کرنا شروع کر دیا۔ صحابہ نے اسے روکنا چاہا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اسے نہ روکو بلکہ اسے (اپنے حال پر) چھوڑ دو‘‘۔ جب وہ پیشاب سے فارغ ہو گیا تو رسول اللہﷺ نے اسے بلا کر ارشاد فرمایا: ’’یہ مساجد پیشاب اور گندگی کیلئے نہیں ہیں۔ یہ تو اللہ کے ذکر، نماز اور تلاوت قرآن کیلئے ہیں‘‘۔ پھر رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کو حکم دیا، جس نے پانی لا کر اس پر بہا دیا (الترمذی: 2676)۔

عیسائی وفدِ کو مسجدنبویؐ میں ٹھہرانا

 فتح مکہ کے بعد آنحضور ﷺ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ ثقفیؓ کو تبلیغ اسلام کیلئے نجران بھیجا مگر ان کی تبلیغی مساعی کا نجران کے نصاریٰ نے کوئی اثر قبول نہ کیا بلکہ الٹا ان پر طرح طرح کے اعتراضات کیے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے واپس آکر حضورﷺ کو صورت حال سے آگاہ کیا توآپﷺ نے اسقف نجران کے نام ایک مکتوب ارسال فرمایا۔ جس پراہل نجران نے 9ہجری میں 60 آدمیوں پر مشتمل اپنا ایک وفد مدینہ منورہ بھیجا۔ اس وفد میں نجران کے بڑے بڑے معززین اور شرفاء شامل تھے۔ ان لوگوں کیلئے مسجد نبویؐ کے صحن میں خیمے لگائے گئے، یہ لوگ غالباً اتوار کے دن مدینہ منور پہنچے تھے، جو ان کا یوم عبادت تھا، چنانچہ انہوں نے اپنے طریقے پر مسجد نبویؐ میں عبادت کرنی چاہی تو صحابہ کرامؓ نے اعتراض کیا۔ حضورﷺ نے فرمایا: ’’کرنے دو‘‘۔ ان لوگوں نے خاصی مدت مدینہ منورہ میں قیام کیا، اس دوران حضورﷺ انہیں برابر حق کی طرف بلاتے رہے اور ان کے سوالوں کا جواب وحی کی رو سے دیتے رہے۔ (قشیری، الجامع الصحیح:258)

حضرت عمر فاروقؓ کا عیسائی غلام

سیدنا عمر فاروقؓ کا ایک نصرانی غلام تھا، اس کا بیان ہے کہ آپؓ نے مجھ سے کہا مسلمان ہو جاؤ تاکہ مسلمانوں کے بعض معاملات میں تم سے میں مدد لیا کروں، کیونکہ ہمارے لیے یہ مناسب نہیں کہ مسلمانوں کے معاملے میں ان لوگوں سے مدد لوں جو غیر مسلم ہیں لیکن میں نے انکار کر دیا تو آپ ؓ نے فرمایا ’’دین اسلام میں زبردستی نہیں‘‘ (البقرہ: 256)،اور جب آپؓ کی وفات قریب ہوئی تو آپؓ نے مجھے آزاد کر دیا اور کہا: تمہاری جہاں مرضی ہو، چلے جائو۔ (الفاروق عمر بن خطابؓ شخصیت و عمرہ، ص 184)

حضرت میاں میرؒ کا سکھ 

تالاب کا سنگ بنیاد رکھنا 

حضرت میاں میر قادری لاہوریؒ کی معاصر گرو سے دوستی تھی، سکھ روایات کے مطابق امرتسر کے مشہور تالاب کا سنگ بنیاد حضرت میاں میر سے رکھوایا گیا۔

حضرت مجدد الف ثانی کی 

روا داری سے متعلق تعلیمات 

پروفیسر ڈاکٹر محمد ہمایوں عباس شمس لکھتے ہیں: آپ تمام آئمہ کی جلالت شان کے قائل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ حتی الا مکان اقوال مجتہدین کو جمع کرنے کی پوری کوشش کرتے تاکہ متفق علیہ قول پر عمل واقع ہو جائے۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خواجہ بدر الدین سرہندی لکھتے ہیں: ’’حضرت مجدد الف ثانیؒ ایک عرصے تک پشمینے کے ایک مصلیٰ پر نماز ادا فرماتے رہے اور امام مالک ؒ کے مسلک میں پشمینے پر سجدہ مکروہ ہے، اور حضرت مجدد الف ثانی ؒ کا طریقہ جمع مذہب کا تھا، تو آپ نے سجدے کی جگہ ٹاٹ کا ایک ٹکڑا سی لیا۔ (حضرات القدس، (اردو)، ص 432)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

غرور کی سزا

بارہ سالہ ماہین ساتویں کلاس کی طالبہ تھی۔ وہ بہت ذہین اور اچھے دل کی مالک تھی۔ اپنی ذہانت کی وجہ سے پورے خاندان میں اسے ایک نمایاں حیثیت حاصل تھی۔

لہسن

لہسن بھی ہے بچو! بڑی تعریف کے قابل ثانی کوئی اس کا نہ کوئی مدمقابل پوچھو جو حکیموں سے وہ تعریف کریں گےشاعر بھی سدا اس کے قصیدے ہی پڑھیں گے

ذرامسکرایئے

ایک بچہ مزاحیہ بات پر تین مرتبہ ہنستا تھا، کسی نے اس سے پوچھا’’تم ہر مذاق پر تین مرتبہ ہنستے ہو، آخر اس کی وجہ کیا ہے‘‘؟ بچے نے جواب دیا: ’’ ایک مرتبہ لوگوں کے ساتھ ہنستا ہوں، دوسری مرتبہ جب میری سمجھ میں آتا ہے تب ہنستا ہوں اور تیسری مرتبہ اپنی بے وقوفی پر ہنستا ہوں‘‘۔٭٭٭

حرف حرف موتی

٭… اخلاق سے اچھا تحفہ کوئی نہیں۔ ٭… مسکراہٹ دل جیتنے کا سب سے اچھا طریقہ ہے، بچو! آپ اس طریقے پر عمل کرکے پوری دنیا فتح کر سکتے ہیں۔٭… سب کے ساتھ ہنسئے، لیکن کسی پر ہنسنے کی عادت ترک کردیجئے۔

پہیلیاں

(1)دبلی پتلی سی اک رانی اوپر آگ اور نیچے پانی منہ چومو تو شور مچائےبات کرو تو چپ ہو جائے٭٭٭

اسلام میں بیٹی کارتبہ

نبی کریمﷺ نے بیٹی کی بہترین پرورش پر جنت کی بشارت دی