آئینی ترمیم چند گھنٹوں کی دوری پر

تحریر : عدیل وڑائچ


کھیل اہم مرحلے میں داخل ہو چکا ہے‘ بالآخر آئینی ترامیم کے معاملے پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ساتھ اتفاقِ رائے پیدا کر لیا گیا ہے۔ خورشید شاہ کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی آج آئینی ترمیم کے مسودے کو حتمی شکل دے گی۔

 خصوصی کمیٹی کے اجلاس کے بعد کابینہ کا خصوصی اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں آئینی ترمیم کے مسودے کی منظوری لی جائے گی اور اس کے بعد اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسے پاکستان تحریک انصاف کے کئی اراکینِ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کی حمایت سے مطلوبہ دو تہائی اکثریتکے لیے نمبر پورے ہو چکے ہیں۔ دو تہائی اکثریت کے لیے قومی اسمبلی میں 224 جبکہ سینیٹ میں 64اراکین کی حمایت درکار ہے۔ اگرچہ حکومت کی جانب سے آئینی ترمیم کی دو کوششیں اس سے قبل کی جا چکی ہیں۔ پہلی کوشش اگست کے آخر میں جبکہ دوسری ستمبر کے وسط میں کی گئی مگر نمبر پورے نہ ہونے اور آئینی ترمیم کے مسودے پر حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں میں  اتفاقِ رائے نہ ہونے کے باعث معاملہ اکتوبر کے تیسرے ہفتے تک پہنچ گیا، مگر اب وہ مرحلہ آن پہنچا ہے کہ جب آئینی ترمیم چند گھنٹوں کی دوری پر ہے۔

 مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا مشترکہ ڈرافٹ پہلی مرتبہ ستمبر کے وسط میں سامنے آیا اور اس کی بہت سے شقیں متنازع ہونے کے باعث اتفاقِ رائے کی راہ میں رکاوٹ بن گئیں۔ اس مسودے میں اگرچہ 54کے لگ بھگ ترامیم میں سب سے زیادہ توجہ کا مرکز آئینی عدالت کا قیام تھا۔ مولانا فضل الرحمن جو پہلے تو آئینی عدالت کے حق میں تھے انہوں نے اچانک آئینی عدالت کے بجائے سپریم کورٹ میں ہی آئینی بینچ بنانے کی باتیں شروع کر دیں۔ مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت نے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں توسیع کی بھی مخالفت کی تھی۔ اس ڈرافٹ میں آرٹیکل 63(اے) میں ترمیم کے علاوہ چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن اراکین کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق بھی تجاویز موجود تھیں مگر پہلے مسودے کا تنازع سامنے آنے کے بعد حکومت کا حتمی مسودہ آج پہلی مرتبہ سامنے آنے کا امکان ہے۔ گزشتہ مسودے میں سب سے متنازع شق آئین کے آرٹیکل آٹھ کا خاتمہ تھا جو قرار دیتا ہے کہ وہ تمام قوانین‘ جو بنیادی حقوق سے متصادم ہوں‘ کالعدم قرار دیے جائیں گے۔ جب اس شق کی جمعیت علمائے اسلام (ف) نے مخالفت کی تو بعد میں بلاول بھٹو زرداری کہنے لگے کہ پیپلز پارٹی بھی اس شق کو آئینی ترامیم کی تجاویز میں شامل کرنے کی مخالف تھی۔

منگل کے روز بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کے بعد مولانا فضل الرحمن نے اعلان کیا کہ ان کی جماعت کا آئینی ترمیمی مسودے پر پاکستان پیپلز پارٹی سے اتفاق ہو گیا ہے‘ اب کوشش ہو گی کہ حکومتی جماعتوں سمیت دیگر کے ساتھ بھی اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے۔ کچھ حکومتی اراکین نے بتایا کہ حکومتی مسودے میں زیادہ تر نکات وہی ہیں جو ستمبر کے وسط میں سامنے آنے والے مسودے میں تھے۔ اب اتفاقِ رائے آئینی عدالت پر ہوا ہو یا آئینی بینچ پرمگر یہ بات طے ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے بنیادی سٹرکچر میں تبدیلی بہر صورت ہونا ہی ہے جس میں چیف جسٹس آف پاکستان کے تقرر کا طریقہ کار تبدیل ہونے جا رہا ہے اور چیف جسٹس کے تقرر کے لیے پارلیمانی کمیٹی تین سینئر ترین ججز کے پینل میں سے ایک کا انتخاب کرے گی۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے اعلیٰ عدلیہ کے تقرر کے طریقہ کار میں جو تبدیلی کی گئی تھی سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد انیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے ججز کے تقرر کے معاملے میں پارلیمانی کمیٹی کا کردار صرف علامتی رہ گیا تھا۔ حکومتی جماعتیں یہ طے کر چکی ہیں کہ چیف جسٹس کے علاوہ ججز کے تقرر کے معاملے میں بھی پارلیمان کا کردار علامتی نہیں بلکہ موثر ہو گا۔ اس کے لیے آئین کے آرٹیکل 175میں ترمیم کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 

 پیپلز پارٹی کے مسودے میں تجویز کیا گیا ہے کہ آئینی عدالت کا قیام وفاق کے علاوہ چاروں صوبوں میں بھی کیا جائے جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے نئے مسودے میں کہا گیا ہے کہ پانچ ججز پر مشتمل آئینی بنچ تشکیل دیا جائے۔ نتیجہ جو بھی ہو‘ یہ بات طے ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کے پاس موجود اختیارات کم ہونے جا رہے ہیں۔  موجودہ صورتحال میں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اس عمل کا بائیکاٹ کرنے کے بجائے آئینی ترامیم کے مشاورتی عمل کا حصہ ہے اور خورشید شاہ کی زیر صدارت خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کر رہی ہے۔ گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں تحریک انصاف کے رکن عامر ڈوگر نے کمیٹی کو درخواست کی کہ تحریک انصاف کو اس معاملے پر مشاورت کے لیے وقت درکار ہے جس پر کمیٹی کا اجلاس جمعہ تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔ پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی نے (ن) لیگ‘ پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ڈرافٹ کو یکجا کیا اور لاہور میں ہونے والی بڑی بیٹھک میں حتمی ڈرافٹ پیش کیا گیا۔ لاہور میں ہونے والی ملاقات میں میاں نواز شریف‘ وزیراعظم شہباز شریف‘ بلاول بھٹو زرداری اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے شرکت کی۔ اٹارنی جنرل اور وزیر قانون نے اجلاس کے شرکا کو حتمی مسودے پر بریفنگ دی جس کے بعد آئینی ترمیم کے مسودے پر اتفاقِ رائے پیدا کیا گیا۔

آئینی ترمیم تو جلد یا بدیر منظور ہو جائے گی مگر کیا یہ معاملہ آسانی سے منطقی انجام کو پہنچے گا یا اس پر عدلیہ کی جانب سے کوئی رد ِعمل سامنے آئے گا؟ آئینی ترمیم کی درخواستوں پر سپریم کورٹ آف پاکستان میں سماعت بھی جاری ہے‘ مگر عدلیہ کے اپنے اندر اختلافِ رائے اس سارے معاملے میں حکومت کے لیے آسانی پیدا کر رہا ہے۔ اگرچہ وکلا تنظیموں کی جانب سے ابھی تک کوئی بڑا ردِعمل سامنے نہیں آیا مگر آئینی ترمیم منظور ہونے کے بعد بینچ یا بار کی جانب سے کسی بھی قسم کا کوئی ردِعمل دلچسپ صورتحال پیدا کر سکتا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

غرور کی سزا

بارہ سالہ ماہین ساتویں کلاس کی طالبہ تھی۔ وہ بہت ذہین اور اچھے دل کی مالک تھی۔ اپنی ذہانت کی وجہ سے پورے خاندان میں اسے ایک نمایاں حیثیت حاصل تھی۔

لہسن

لہسن بھی ہے بچو! بڑی تعریف کے قابل ثانی کوئی اس کا نہ کوئی مدمقابل پوچھو جو حکیموں سے وہ تعریف کریں گےشاعر بھی سدا اس کے قصیدے ہی پڑھیں گے

ذرامسکرایئے

ایک بچہ مزاحیہ بات پر تین مرتبہ ہنستا تھا، کسی نے اس سے پوچھا’’تم ہر مذاق پر تین مرتبہ ہنستے ہو، آخر اس کی وجہ کیا ہے‘‘؟ بچے نے جواب دیا: ’’ ایک مرتبہ لوگوں کے ساتھ ہنستا ہوں، دوسری مرتبہ جب میری سمجھ میں آتا ہے تب ہنستا ہوں اور تیسری مرتبہ اپنی بے وقوفی پر ہنستا ہوں‘‘۔٭٭٭

حرف حرف موتی

٭… اخلاق سے اچھا تحفہ کوئی نہیں۔ ٭… مسکراہٹ دل جیتنے کا سب سے اچھا طریقہ ہے، بچو! آپ اس طریقے پر عمل کرکے پوری دنیا فتح کر سکتے ہیں۔٭… سب کے ساتھ ہنسئے، لیکن کسی پر ہنسنے کی عادت ترک کردیجئے۔

پہیلیاں

(1)دبلی پتلی سی اک رانی اوپر آگ اور نیچے پانی منہ چومو تو شور مچائےبات کرو تو چپ ہو جائے٭٭٭

فروغِ روا داری و قیام امن، اسلامی تصور

’’اسلام امن و سلامتی کا دین ہے،جس میں جبر و اکراہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘‘(سورۃ البقرہ ) ’’اے رسولؐ لوگوں کو اپنے پروردگار کے راستے کی طرف دانائی اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلائو ‘‘(سورۃ النحل)