سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں

تحریر : طلحہ ہاشمی


بلاول بھٹو زرداری نے جو کہا سچ کر دکھایا۔ آخرکار مولانا فضل الرحمن کو منا ہی لیا۔ اسے کہتے ہیں سیاست میں کوئی چیز حرفِ آخر نہیں ہوتی۔ کراچی میں دونوں رہنماؤں کی طویل ملاقات ہوئی اور اس کے بعد مشترکہ نیوز کانفرنس میں دونوں رہنماؤں نے آئینی ترمیم کے مسودے پر اتفاق کرلیا۔

 اس مسودے میں کون کون سے نکات شامل ہیں یہ تو نہیں بتایا گیا، بلکہ جب ایک کے بعد ایک صحافی نے گھما پھرا کر مولانا صاحب سے یہ سوال کیا کہ آئینی عدالت یا آئینی بینچ ؟تو مولانا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیے۔ اس پر نیوز کانفرنس میں بڑے زور کا قہقہہ پڑا۔ اسی طرح ایک اور دلچسپ چیز یہ ہوئی کہ اتنے سنجیدہ معاملے پر گفتگو کے دوران بھی بلاول بھٹو زرداری مائیک سے کھیلتے رہے۔ کبھی اپنے سامنے تو کبھی مولانا کے سامنے۔ اسے کہتے ہیں اعتماد۔ 

آئینی ترمیم پر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان بھی اپنے پتے کھیل رہی ہے۔ وزیراعظم سے ملاقات میں متحدہ کے وفد نے  آئینی ترمیم میں بلدیاتی اختیارات کا مطالبہ کرڈالا، جس پر احسن اقبال کی قیادت میں رانا ثنااللہ اور اعظم نذیر تارڑ پر مشتمل وفد نے کراچی میں ایم کیو ایم کے مرکز کا دورہ کیا۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جب ایم کیو ایم کا عروج تھا تو چاہے کوئی بھی وفاقی یا صوبائی حکومت میں ہو اُسے اُس وقت کے ایم کیو ایم مرکز ضرور جانا پڑتا تھا ۔اب بڑے عرصے بعد وفاقی حکومت کے وفد کا دورہ موجودہ ایم کیو ایم قیادت کی اہم کامیابی قرار دی جاسکتی ہے۔ دورے کے موقع پر احسن اقبال نے میڈیا کو بتایا کہ آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد اس معاملے پر بات ہوگی اور پیپلز پارٹی سے مشاورت اور رضامندی کے بعد اس معاملے کو آگے بڑھایا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے وفد نے بھی اسلام آباد میں متحدہ رہنماؤں سے ملاقات کی۔ ویسے تو ایم کیو ایم آئینی ترمیم کے لیے ووٹ دینے پر تیار تھی اور اگر اس کے ساتھ بلدیاتی نمائندوں کو اختیار بھی دلا دیا تو سونے پر سہاگہ کہلائے گا۔

ادھرعمرکوٹ میں پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے ڈاکٹر شاہنواز کا معاملہ بھی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ مقتول کی قبر کشائی کی جاچکی ہے لیکن اسی سے وابستہ ایک واقعہ کراچی میں بھی رپورٹ ہوا کہ دو تنظیموں نے ایک ہی دن اور ایک ہی وقت پر ریلیاں نکالنے کا اعلان کردیا۔ کراچی میں دفعہ 144 نافذ تھی اسی لیے پولیس نے ریلی نہ نکالنے دی جس پر احتجاج تشدد میں بدل گیا اور پولیس نے خواتین کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔ مشتعل افراد نے پولیس وین کو آگ لگادی اور جھڑپوں میں پولیس اہلکار اور کچھ لوگ زخمی بھی ہوئے۔ اہم بات یہ ہے کہ نہ صرف لوگوں میں سے قانون کی پاسداری کا عنصر ختم ہوتا جارہا ہے ساتھ ہی عدم برداشت بھی بڑھ گئی ہے۔ اگر دفعہ 144 نافذ تھی تو سب کو قانون پر عمل کرنا چاہیے تھا۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے خواتین پر تشدد پر اظہارِ افسوس اور معذرت کی، یہ بھی بتایا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی وجہ سے چاہتے تھے کہ احتجاج مؤخر کردیا جائے، اس کے باوجود ہمارے دوست آئے، پھر بھی تشدد نہیں ہونا چاہیے تھا۔

آج کل لوگ سندھ اور پنجاب میں سکولوں اور ہسپتالوں کا موازنہ کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے ایک گفتگو کے دوران پنجاب میں سکولوں کی نجکاری پر تنقید کی، ساتھ ہی بولے کہ سندھ کے ہسپتالوں میں دس روپے کی پرچی بنتی ہے۔ اس پر پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کا فوری ردعمل آیا، بولیں کہ سندھ میں تو سکول  سرے سے موجود ہی نہیں اور اگر کچھ ہیں بھی تو اُن میں جانور بندھے نظر آتے ہیں، امتحانات میں نقل اور پورے پورے  سینٹرز کا بکنا رواج ہے، تعلیم کے شعبے میں گھوسٹ ملازمین اور اساتذہ کی خبریں عام ہیں جبکہ پنجاب کے سات اضلاع میں شرح خواندگی ٹاپ پر ہے۔ کراچی اور حیدرآباد کو ہٹا دیں تو پورے سندھ میں شرح خواندگی صفر ہے، ایم ڈی کیٹ امتحانات کی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے۔عظمیٰ بخاری کا بیان سچائی پر مبنی اور تلخ تھا یا نہیں لیکن اس پر سندھ حکومت کو پتنگے لگ گئے، وزیرتعلیم سندھ سردار علی شاہ سامنے آگئے اور عظمیٰ بخاری کے بیان پر حیرانگی کا اظہار ۔ انہوں نے پنجاب کے تعلیمی نظام کو فرسودہ قرار دے دیا اور بولے کہ ان کا نظام تو جدید نظام سے آشنا ہی نہیں عظمیٰ صاحبہ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ پنجاب میں ایک کروڑ 20 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں، سندھ میں پاکستان کی پہلی ٹیچرز لائسنس پالیسی کا اطلاق ہو چکا ہے۔ میرٹ پر 60 ہزار اساتذہ کی بھرتیاں ہوچکی ہیں، سندھ میں کوئی بھی سکول استاد نہ ہونے کی وجہ سے بند نہیں ہے جبکہ پنجاب میں اساتذہ کی کمی ہے۔

عظمیٰ بخاری اور سردار شاہ کے بیانات اپنی جگہ لیکن اگر سندھ کے تعلیمی نظام پر نظر ڈالی جائے تو گھوسٹ سکول اور اساتذہ  سسٹم میں موجود ہیں، اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ سردار صاحب سیاسی فرنٹ پر بھی لڑتے رہیں ساتھ ہی نظام کی بہتری پر بھی توجہ دیں، گھوسٹ اساتذہ اگر ہیں تو انہیں نکال باہر کریں اور اگر نہیں ہیں تو نیوز کانفرنس میں سکولوں کی تعداد، ان کی موجودہ صورتحال اور اساتذہ کی تفصیلات بیان کریں۔ ساتھ ہی تعلیمی قابلیت وغیرہ بھی عوام کے سامنے لائیں۔ ورنہ  الزامات لگتے رہیں گے۔ آپ دفاع پر مجبور ہوں گے اور عوام بے بسی سے ہنسنے کے سوا کچھ نہیں کریں گے!

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

غرور کی سزا

بارہ سالہ ماہین ساتویں کلاس کی طالبہ تھی۔ وہ بہت ذہین اور اچھے دل کی مالک تھی۔ اپنی ذہانت کی وجہ سے پورے خاندان میں اسے ایک نمایاں حیثیت حاصل تھی۔

لہسن

لہسن بھی ہے بچو! بڑی تعریف کے قابل ثانی کوئی اس کا نہ کوئی مدمقابل پوچھو جو حکیموں سے وہ تعریف کریں گےشاعر بھی سدا اس کے قصیدے ہی پڑھیں گے

ذرامسکرایئے

ایک بچہ مزاحیہ بات پر تین مرتبہ ہنستا تھا، کسی نے اس سے پوچھا’’تم ہر مذاق پر تین مرتبہ ہنستے ہو، آخر اس کی وجہ کیا ہے‘‘؟ بچے نے جواب دیا: ’’ ایک مرتبہ لوگوں کے ساتھ ہنستا ہوں، دوسری مرتبہ جب میری سمجھ میں آتا ہے تب ہنستا ہوں اور تیسری مرتبہ اپنی بے وقوفی پر ہنستا ہوں‘‘۔٭٭٭

حرف حرف موتی

٭… اخلاق سے اچھا تحفہ کوئی نہیں۔ ٭… مسکراہٹ دل جیتنے کا سب سے اچھا طریقہ ہے، بچو! آپ اس طریقے پر عمل کرکے پوری دنیا فتح کر سکتے ہیں۔٭… سب کے ساتھ ہنسئے، لیکن کسی پر ہنسنے کی عادت ترک کردیجئے۔

پہیلیاں

(1)دبلی پتلی سی اک رانی اوپر آگ اور نیچے پانی منہ چومو تو شور مچائےبات کرو تو چپ ہو جائے٭٭٭

فروغِ روا داری و قیام امن، اسلامی تصور

’’اسلام امن و سلامتی کا دین ہے،جس میں جبر و اکراہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘‘(سورۃ البقرہ ) ’’اے رسولؐ لوگوں کو اپنے پروردگار کے راستے کی طرف دانائی اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلائو ‘‘(سورۃ النحل)