قومی یکجہتی میں ادب کا کردار
ہر ادب، ادیب کے ایک نظریئے کے تحت پیدا ہوتا ہے اور ادیب ایک معاشرے کا جزو ہوتا ہے اور اس معاشرے کا ایک نظریۂ حیات ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے ادیبوں اور ان کی تخلیقات یعنی ادب میں جہت اور سمت کا تعین اس اجتماعی شعور یا نظریئے سے پیدا ہوتا ہے۔
ظاہر ہے کہ اگر کسی معاشرے یا قوم کے مختلف افراد نظریاتی اعتبار سے الگ الگ راہیں اختیار کرلیں تو پھر ان میں نہ اجتماعی شعور باقی رہ سکتا ہے اور نہ مقصد یا حصول کیلئے یکجہتی کا تصور۔ پاکستان کے معاملہ میں یہ بات خاص طور پر یوں اہم ہے کہ اس کی بنیاد ہی ایک نظریئے پر قائم ہوئی ہے۔ یہ محض ایک جغرافیائی وحدت یا ارضی حد بندی یا محض کسی ایک نو آبادیاتی نظام کی غلامی سے آزادی سے مختلف ہے۔ یہ اساس اسلام اور وہ معاشرہ ہے جو مسلمانوں نے برصغیر میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک اپنی کم و بیش آٹھ سو سالہ حکومت میں پیدا کیا۔ اگریکجہتی کی یہ اساس نہ ہو تو کم از کم ہندو اکثریت کے علاقوں میں مسلمان اپنی انفرادی حیثیت کھو چکے ہوتے، لیکن کوئی شہر، کوئی قصبہ پورے ملک میں ایسا نہیں ملے گا جہاں کم یا زیادہ ان کے آثار نہ ملتے ہوں اور یہ نتیجہ ہے اس تصور کا کہ ان میں ایک قوم ہونے کا شعور تھا۔ سیاسی نظریات چاہے کچھ رہے ہوں، سماجی حالت چاہے کتنی مختلف رہی ہو، جب آزادی کی جدوجہد شروع ہوئی تو بالکل ابتدا ہی میں مسلمانوں نے محسوس کیا کہ ان کی ایک علیحدہ انفرادی قومی حیثیت اور تشخص ہے تویہ کام ادیبوں نے سیاسی مدبروں سے پہلے شروع کیا ۔
پاکستان کے قیام کے فوراً بعد ہم دیکھتے ہیں کہ کم و بیش پندرہ بیس برسوں تک ترقی پسند تحریک اور حلقہ ارباب ذوق کے ادبی نظریات کا اثر ہمارے ادب میں مؤثر حلقہ ارباب ذوق کے ادبی نظریات کا اثر ہمارے ادب میں موثر طریقے پر پایا جاتا ہے۔ یہ فوری ردعمل انفرادی تھا۔ بعض لوگوں نے بعض موضوعات پر چاہے بھارت میں ہوں یا پاکستان میں ایک ہی طرح کا اثر قبول کیا، لیکن آہستہ آہستہ منطقی نتیجے کے طور پر دونوں آزاد مملکتوں کی تحریروں میں دونوں ملکوں کے نظریوں کی جھلک واضح سے واضح تر ہونے لگی۔ بعض ایسے مسائل بھی پیدا ہوئے جنہوں نے پھر نظریاتی اتحاد کو نقصان پہنچایا مثلاً بعض حلقوں اور علاقوں میں بعض مشکوک و شبہات پیدا ہوئے اور انہیں دور کرنے کی معقول کوشش نہیں کی گئی اور وہ سارے مسائل اٹھ کھڑے ہوئے جو غلامی کے دور میں بھی نہیں اٹھے تھے۔ بہرحال ان مسائل کے ساتھ ساتھ ایک جماعت اس پر مصر ہے کہ یکجہتی کیلئے کوئی بنیاد نہیں ہے اور ہر علاقے میں زبان الگ، تہذیب الگ تاریخی پس منظر الگ، ظاہر ہے ایسی صورت میں کسی ایسے نظریئے کا تصور نہیں ہو سکتا جسے نظریہ پاکستان کہا جا سکے۔ یہ نظریہ تو محض قومی یکجہتی اور اتفاق سے پیدا ہو سکتا ہے اور یہ عمل یکطرفہ نہیں ہو سکتا۔
اس سلسلے میں ادیب پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے۔ ادیب کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے قلم سے غلط فہمیوں، شکوک و شبہات اور عملی عدم مساوات کو جہاں ہ موجود ہو اور حقیقت میں موجود ہے دور کرنے کی کوشش کرے۔ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانا درست نہیں، اس لئے کہ ہر کسی کی حفاظت کی ذمہ داری صرف ایک مضبوط قلعے ہی میں ہو سکتی ہے۔ یکجہتی کا یہی فرض ہے جو ادیب ادا کر سکتا ہے۔
میں ادب میں Regimentationیا حکم کا قائل نہیں ہوں لیکن اس کا ضرور قائل ہوں کہ جو اس ملک میں رہنا چاہتے ہیں اور اس نظریئے سے اتفاق کرتے ہیں انہیں اپنی تحریروں سے اس نظریئے کو تقویت پہچانا چاہئے یعنی اتحاد کی بنیادوں کو واضح تر کرکے پیش کریں۔ افہام و تفہیم اور اس سے زیادہ ادیب کو جو ایک خالص علاقے میں رہتا ہے اور خاص زبان کا ادیب ہے۔ دوسرے علاقے کے ادب اور ادیب کی اہمیت سے انحراف کرنے کے بجائے ان کا اعتراف کرنا چاہئے اور اس کا اعتماد حاصل کرنا چاہئے۔ ایک زبان کے ادب کو دوسری زبان کے ادب میں منتقل کرنا چاہئے اور ایسی روایات کو جو مختلف ہیں مشترک اساس بنانا چاہئے۔ مثلاً صوفیانہ خیالات جو اردو شاعری کا بڑا حصہ ہیں اور کم و بیش پاکستان کے تمام علاقوں میں صوفیائے کرام نے انہی جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ ان کی ہم آہنگی اور یکجہتی کو ثابت اور قبول کرنا چاہئے۔
علاقائی زبانوں کے میل جول سے اردو زبان پر اثرات پڑ ے ہیں اورزبان کی ٹیکسال کو اب نیا تصور دینا ہوگا اور زبان و ادب کی تاریخ میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ قائم جو سودا کے شاگرد تھے۔ دکن کی شاعری کے عہد زریں کو جو دلی پر ختم ہوتا ہے۔ لچر زبان کہتے ہیں۔ خود دلی والوں کی زبان پر لکھنو والے ہنستے تھے اور میر انیس جیسے شاعر کو یہ کہنا پڑا۔ ’’صاحبو یہ میرے گھر کی زبان ہے۔ حضرات لکھنئو اس طرح نہیں بولتے‘‘ تو پھر آج یہ کون دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ زبان جو 1947ء سے پہلے ٹکسالی تھی آج بھی وہی ٹکسالی ہے اردو اب پاکستان کے جن علاقوں میں بولی جاتی ہے وہاں کے مقامی عناصر کا اُردو میں دخل ایک فطری لسانی عمل ہے۔ جسے شعوری اور جبری طور پر روکنے کی کوشش تو کی جا سکتی ہے روکا نہیں جا سکتا۔ پاکستان کی اردو کا اپنا مزاج اور اپنا انداز ہے اور یہ کسی ایک علاقے یا ایک آہنگ پر منحصر نہیں ہوبلکہ جو بات آج اردو کے متعلق کہی جاتی ہے کہ یہ کسی علاقے کی زبان نہیں اور ہر علاقے کی زبان ہے وہی اس زبان کا آہنگ ہوگا جو کسی علاقے کا آہنگ نہیں اور ہر علاقے کا آہنگ ہوگا۔ ہمارے شاعروں اور ادیبوں کا اس وقت سب سے بڑا اور مقدم فرض یہی ہے۔