26ویں آئینی ترمیم،فیصلہ کن دن

تحریر : سلمان غنی


شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس کے انعقاد کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان کی علاقائی اور عالمی سطح پر اہمیت بڑھ گئی اور اس تاثر کو تقویت ملی کہ پاکستان بڑے اجلاس کے انعقاد کی صلاحیت رکھتا ہے اور دنیا کے اہم ممالک اس میں اپنی شرکت یقینی بناتے ہیں۔

بلاشبہ اس کا کریڈٹ وزیراعظم شہبازشریف اور ان کی حکومت کو جاتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس بڑی مشق سے پاکستان کی معیشت پر کیا اثرات ہوتے ہیں اور پاکستان کس سپیڈ سے آگے بڑھتا ہے۔

 دوسری جانب سیاسی محاذ پر بھی کچھ ٹھہرائو محسوس کیا جا رہا ہے۔ شنگھائی کانفرنس کے انعقاد سے ایک رات قبل تحریک  انصاف نے اپنے احتجاج کی کال واپس لیکر ملک میں یکجہتی کی فضا میں اپنا حصہ ڈالا جبکہ مجوزہ آئینی ترمیم کے حوالے سے بھی اتفاقِ رائے کے امکانات روشن ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن مجوزہ آئینی ترمیم کے حوالے سے اتفاق رائے کیلئے سرگرم ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آئینی ترمیم پر اتفاق رائے ہی سیاسی استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔ ان کی پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ ملاقات ہو چکی ہیں کہ اتفاق رائے پر پیش رفت جاری ہے اور خود مولانا فضل الرحمن نے اپنے اس بیان کے ذریعے اس کی تصدیق کی ہے کہ ہم اتفاق رائے سے ترمیم کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ اس کے بعد ان کی مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف سے جاتی عمرہ میں ملاقات ہوئی جس میں صدر مملکت آصف علی زرداری سمیت پیپلزپارٹی کی قیادت اور وزیراعظم شہبازشریف سمیت  مسلم لیگ (ن) کے ذمہ داران بھی موجود تھے۔ اس ملاقات میں مجوزہ ترمیم پر ملک کی سینئر لیڈر شپ کے اتفاق رائے سے طے پایا کہ اپنے دیگر اتحادیوں کو بھی اعتماد میں لیں گے۔ مولانا فضل الرحمن کے اب حتمی مذاکرات پی ٹی آئی کی لیڈر شپ سے ہوں گے۔ مذکورہ ترمیم کے حوالے سے آج 17 اکتوبر کو سہ پہر قومی اسمبلی کا اجلاس بھی طلب کیا گیا ہے۔پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں متفقہ ترمیم پر اتفاق رائے ہوچکا۔ اس حوالے سے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ یہ ضرور  نظر آ رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن جو چند روز قبل مذکورہ ترمیم کی منظوری کیلئے بلائے جانے والے اجلاس میں بڑی رکاوٹ بن گئے تھے اور اس عمل کو مؤخر کرنا پڑا تھا، اب اس ترمیم کی منظوری کیلئے سرگرم ہیں اور حکومت کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اس حوالے سے معاملات طے پا چکے ہیں اور نمبرز گیم اب بڑا مسئلہ نہیں ۔ لہٰذا آج کا اجلاس نتیجہ خیز ہوگا۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کے اراکین بھی اسلام آباد پہنچ چکے ہیں اور دو تہائی اکثریت کا سو فیصد یقین ہوتے ہی مذکورہ آئینی ترمیمی بل ایوان میں پیش کر دیا جائے گا۔مگر اس حوالے سے اگلے 48 گھنٹے اہم ہیں۔ اب تک کی صورتحال میں ایک بات سامنے آئی ہے کہ آئینی عدالت کیلئے سرگرم جماعتیں اب آئینی عدالت سے آئینی بینچ تک آ چکی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس حوالے سے پی ٹی آئی کو بھی ساتھ ملانے میں کامیاب ہوتی ہیں یا نہیں ۔ یہ اہم ہوگا کیونکہ صورتحال جس نہج پر پہنچ چکی ہے اس میں خود مولانا فضل الرحمن کیلئے تحریک انصاف کو ملانا لازم ہوگا کیونکہ  آج اگر مولانا فضل الرحمن کی سیاسی اور پارلیمانی محاذ پر مرکزی اہمیت و حیثیت ہے تو اس کی بڑی وجہ ان کا سیاسی قوتوں کے درمیان پل بننا ہے۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی نے مولانا فضل الرحمن سے بہت سی توقعات قائم کر رکھی ہیں، لہٰذا مولانا یہ نہیں چاہیں گے کہ وہ مجوزہ آئینی ترمیم میں اپنا سیاسی وزن حکومت کے پلڑے میں ڈال دیں اورپی ٹی آئی اُن کے ساتھ نہ ہو۔

اگر مجوزہ آئینی ترمیمی بل پر تحریک انصاف کے مؤقف پر نظر ڈالی جائے تو وہ اسے اپنی سیاسی بقا کیلئے زندگی موت کا مسئلہ بنائے ہوئے ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ آج کی صورتحال میں مذکورہ ترمیمی بل پاس ہونے کے بعد اس کے مؤقف اور سیاسی کردار کو بڑا دھچکا لگے گا کیونکہ اسے اب عدلیہ کے علاوہ کسی سے کوئی امید نہیں اور وہ اس ترمیم کو عدلیہ کے آزادانہ کردار پر اثر انداز ہونے کی منظم کوشش قرار دیتی آ رہی ہے ۔ لہٰذا وہ نہیں چاہے گی کہ حکومت کی جانب سے مجورہ آئینی ترمیمی بل کامیابی سے ہمکنار ہو۔ اس حوالے سے مولانا فضل الرحمن کی سرگرمیوں اور میل ملاقاتوں پر پی ٹی آئی کے تحفظات بھی سامنے آ گئے ہیں۔ ویسے تو اب  بھی کچھ حلقے یہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن چند روز قبل تک تو اس ترمیم میں عجلت کے خلاف تھے۔ اب اتنی  جلدی میں کیوں ہیں؟ البتہ اب بھی یہ امکانات ختم نہیں ہوئے کہ مولانا فضل الرحمن اجلاس میں تاخیر کاکوئی سبب بنا لیں اور ساری تیاریاں دھری کی دھری رہ جائیں۔

 جہاں تک یہ سوال ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کی لیڈر شپ مذکورہ آئینی ترمیم کو اپنی سیاست کیلئے خطرہ قرار دے  رہی ہے تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں ہونے والی تبدیلی کا عمل 8فروری کے انتخابات کے مستقل کے بارے بڑے کردار کا حامل ہوگا ۔ پی ٹی آئی کے ذمہ داران خصوصاً اس کے اراکین اسمبلی ابھی سے یہ امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ انتخابی عمل کے بارے عدلیہ کی نئی قیادت کا فیصلہ ان کے مؤقف کے مطابق ہو گا اور ملک میں نئے انتخابات ناگریز ہوجائیں گے۔وزیر دفاع خواجہ محمد آصف بھی میڈیا کے ذریعے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ عدلیہ میں ہونے والی تبدیلی کے حوالے سے ایسے سگنل آ رہے ہیں کہ انتخابات کا ریکارڈ کھلے گا اور اس کے بعد انتخابات ہوں گے ۔ان کے بیانات سے بہت سے خدشات جنم لے رہے ہیں ۔ اس امر میں بھی دو آرا نہیں کہ اسی طرح کی اطلاعات اور خدشات کی بنا پر ہی  عدالتی ترمیم میں حکومت اس قدر سنجیدہ ہے۔ حکومت مذکورہ ترمیم کو اپنے سیاسی مستقل کیلئے ناگزیر سمجھے ہوئے ہے اور  ترمیم کی منظوری کے ضمن میں نمبرز گیم پوری کرنے کے دعوئوں کے باوجود ابھی تک مزید اراکین کو ساتھ ملانے اور ان سے ترمیم کے حق میں ووٹ دلوانے کیلئے سرگرم ہے۔ اس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ ترمیم حکومتی بندوبست کیلئے اہم ہے اور اگر حکومت مذکورہ ترمیم کروانے میں کامیاب ہوتی ہے تو یہ تحریک انصاف کیلئے کسی بڑے سیاسی دھچکے سے کم نہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پراسرار انداز میں مذکورہ ترمیم کی ناکامی کیلئے سرگرم ہے۔ وہ حکومتی اراکین کو بھی اس طرح کی پیشکش کرتی نظر آ رہی ہے کہ مذکورہ ترمیم کیلئے ووٹ نہ ڈالنے کی صورت میں آنے والے انتخابات میں ان کیلئے پارٹی ٹکٹ حاضر ہوگا، لیکن کیا کوئی حکومتی رکن آج کے حالات میں ایسی پیشکش قبول کر ے گا؟ ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

غرور کی سزا

بارہ سالہ ماہین ساتویں کلاس کی طالبہ تھی۔ وہ بہت ذہین اور اچھے دل کی مالک تھی۔ اپنی ذہانت کی وجہ سے پورے خاندان میں اسے ایک نمایاں حیثیت حاصل تھی۔

لہسن

لہسن بھی ہے بچو! بڑی تعریف کے قابل ثانی کوئی اس کا نہ کوئی مدمقابل پوچھو جو حکیموں سے وہ تعریف کریں گےشاعر بھی سدا اس کے قصیدے ہی پڑھیں گے

ذرامسکرایئے

ایک بچہ مزاحیہ بات پر تین مرتبہ ہنستا تھا، کسی نے اس سے پوچھا’’تم ہر مذاق پر تین مرتبہ ہنستے ہو، آخر اس کی وجہ کیا ہے‘‘؟ بچے نے جواب دیا: ’’ ایک مرتبہ لوگوں کے ساتھ ہنستا ہوں، دوسری مرتبہ جب میری سمجھ میں آتا ہے تب ہنستا ہوں اور تیسری مرتبہ اپنی بے وقوفی پر ہنستا ہوں‘‘۔٭٭٭

حرف حرف موتی

٭… اخلاق سے اچھا تحفہ کوئی نہیں۔ ٭… مسکراہٹ دل جیتنے کا سب سے اچھا طریقہ ہے، بچو! آپ اس طریقے پر عمل کرکے پوری دنیا فتح کر سکتے ہیں۔٭… سب کے ساتھ ہنسئے، لیکن کسی پر ہنسنے کی عادت ترک کردیجئے۔

پہیلیاں

(1)دبلی پتلی سی اک رانی اوپر آگ اور نیچے پانی منہ چومو تو شور مچائےبات کرو تو چپ ہو جائے٭٭٭

فروغِ روا داری و قیام امن، اسلامی تصور

’’اسلام امن و سلامتی کا دین ہے،جس میں جبر و اکراہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘‘(سورۃ البقرہ ) ’’اے رسولؐ لوگوں کو اپنے پروردگار کے راستے کی طرف دانائی اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلائو ‘‘(سورۃ النحل)