سوء ادب :ہمارے جانور شیر
یہ جنگل کا بادشاہ کہلاتا ہے لیکن جب سے ن لیگ نے اسے اپنے انتخابی نشان کے طور پر اپنایا ہے، اِس کا دماغ مزید خراب ہو گیا ہے اور وہ کسی کی پرو ا ہی نہیں کرتا۔
نیز یہ جو کہا جاتا ہے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ اِس نے بھی اِس کے غرور میں اضافہ کر رکھا ہے حالانکہ اگر ایمانداری اور غور سے دیکھا جائے توایک دن میں شیر زیادہ سے زیادہ کیا کر سکتا ہے جبکہ گیدڑ تو سو سال میں ہر طرح کی موج مستیاں بھی کر سکتا ہے۔ تاہم اپنے غرور اور گھمنڈ کی وجہ سے وہ اکثر اوقات منہ کی بھی کھاتا ہے جیسے کہ ایک بار جنگل میں اُس کا ہاتھی سے ٹاکرا ہو گیا تو اُس نے اُس سے پُوچھا ، ’’تمہیں پتا ہے جنگل کا سب سے طاقتور جانور کونسا ہے؟‘‘ جس پر ہاتھی نے اُسے اپنی سونڈ میں لپیٹ کر کوئی چالیس فٹ پرے پھینک دیا۔ شیر مٹی جھاڑتا اُٹھ کھڑا ہُوا اور ہاتھی سے بولا،’’اگر تمہیں معلوم نہیں تھا تو اِس میں اتنا ناراض ہونے کی کیا بات تھی ؟‘‘۔
بعض اوقات اسے اِس کی اوقات بھی یاد دلائی جاتی ہے لیکن وہ اسے یاد رکھنے کی بجائے بھول جاتا ہے۔جنگل میں شیر کی شادی تھی، تنبو کناتیں لگی ہوئی تھیں، مہمان جانور آجا رہے تھے اور بڑی رونق لگی ہوئی تھی جبکہ وہاں دیکھا گیا کہ ایک چوہا بھی اِدھر اُدھر پھُدک رہا ہے۔کبھی وہ تنبو کناتوں والوں کو جھاڑ تا اور کبھی دیگیں پکانے والوں کوڈانٹتا،کسی نے اُس سے پوچھا ،’’شادی تو شیر کی ہو رہی ہے ،تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘۔ جس پر چوہا بولا،’’شادی سے پہلے میں بھی شیر ہُوا کرتا تھا!‘‘۔
یہ اپنے آپ کو بہت انصاف پسند کہتا ہے اور جنگل کا بادشاہ ہونے کی رعایت سے اسے ایسا ہونا بھی چاہیے، فی الحقیقت وہ ایسا نہیں ہے بلکہ اکثر اوقات دھونس دھاندلی سے بھی کام لیتا ہے ایک دفعہ اُس نے ہرن کا شکار کیا جبکہ وہاں چیتا بھیڑیا اور ریچھ وغیرہ بھی موجود تھے۔ اُس نے سب کے سامنے شکار کے چار حصے کیے اور بولا،’’یہ ایک حصہ تو میرا ہے کیونکہ میں جنگل کا بادشاہ ہوں اور یہ دوسرا حصہ اِس لیے میرا ہے کہ شکار میں نے کیا ہے اور یہ تیسرا حصہ اِس لیے میرا ہے کیونکہ مجھے بھوک زیادہ لگی ہوئی ہے اور یہ چوتھا حصہ جس میں ہمت ہے وہ آگے بڑھ کے اُٹھا لے !‘‘۔
چراغِ سبز
یہ استاد الاساتذہ محقق مترجم نقاد اور شاعر ڈاکٹر تحسین فراقی کا تازہ ترین مجموعہ کلام ہے، جسے دارالنوار،الحمد مارکیٹ اُردو بازار لاہو رنے شائع کیا ہے۔اس میں غزلیں، نظمیں، روایات اور بیٹے عثمان نوید کی یاد میں نوحے شامل ہیں۔ پسِ سرورق تحریر ڈاکٹر خورشید رضوی کی ہے جن کے مطابق ڈاکٹر فراقی صاحب کی شاعری کے پس منظر میں وسیع مطالعہ اور برسوں کی ریاضت بولتی ہے۔سلاست و شکو ہ اُن کے کلام سے مابہ الامتیاز ہے،توانا صحت مند روایات کے اِنحلال اور چہار سُو اُمڈتی ہوئی ابتری کا حزن اِس شاعر کا غالب موضو ع کہا جا سکتا ہے۔ کہیں کہیں کچھ ظرافت کا چھینٹا بھی دیا گیا ہے مگر طبعی سنجیدگی مجموعی مزاج پر حاوی رہتی ہے۔ رُباعی کی مشکل صنف پر بھی ڈاکٹر فراقی کی گرفت لائقِ داد ہے۔ ’’چراغِ سبز‘‘ کا خیر مقدم میرے لیے مسرت اور اعزاز کی بات ہے۔
اس کے علاوہ مبین مرزا کے مطابق ہمارے یہاں اب تو ایسے شاعر کم کم ہیں جو شاعری جزویست از پیغمبری کا شعور رکھتے ہیں اور کارِ سخن کو طرز ِحیات گردانتے ہیں۔ تحسین فراقی ایسے ہی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ بادالنظر میں یہ مجموعہ مختصر سا ہے لیکن مطالعے سے اندازہ ہو تا ہے کہ انسانی احساس اور حقیقتِ احوال کے اُن رنگوں کو سمیٹے ہوئے ہیں، جن کی جھلک فی زمانہ کم ہی مجموعہ ہائے سخن میں دکھائی دیتی ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ شعر گوئی تحسین فراقی کے اعماقِ جاں کا معاملہ ہے ۔شعر کا اکھوا اِن کے اندرپھوٹتا ہے اور اسی طرح پھوٹتا ہے جیسے چٹان کا سنگلاخ سینہ چیر کر نرم ونازک کونپل پھوٹتی ہے۔ نمونہ ٔ کلام کے طور پر یہ اشعار دیکھئے ۔
وہی مٹی ہے مگر چاک ہے درکار نیا
اب کوئی نقش مرے پیشِ نظر دوسرا ہے
صرف پیچ وخم ِ دستار پہ مت جایئے گا
غور سے دیکھئے دستار میں سر دوسرا ہے
اور اب آخر میں اپنے جواں مرگ بیٹے کی یاد میں یہ نوحہ:
اکیلا چھوڑ کے ، تنہا کہا ں چلا گیا ہے
مرا خموش ستارا کہاں چلا گیا ہے
پلٹ کے ایک نظر بھی مجھے نہیں دیکھا
مرا پسر،مرا پیارا ،کہاں چلا گیا ہے
ستارہ بار ہیں جس کے فرا ق میں آنکھیں
وہ جان و دل کا اُجالا کہاں چلا گیا ہے
وہ جس کے دم سے معطر تھا گھر کا گھر میرا
وہ میرا عنبرِ سارا کہاں چلا گیا ہے
وہ جس کو دیکھ کے دل میں چراغ جلتے تھے
وہ رنگ ونور کا دھارا کہاں چلا گیا ہے
براجمان ہے اب تک جو تختِ جاں پہ میرے
وہ میرا راج دُلارا کہا چلا گیا ہے
تھا برگِ گل سے بھی نازک لطیف گُل جس کا
وہ موجۂ گلِ حمرا کہاں چلا گیا ہے
تجھے پکارتا پھرتاہوں کو بکو کب سے
جواب دے مرے یارا کہاں چلا گیا ہے
آج کا مطلع
ذرا بھی فرق نہیں،ہو بہو دھڑکتا ہے
یہ دل نہیں،مرے سینے میں تُو دھڑکتا ہے