اسلام میں بیٹی کارتبہ

تحریر : مفتی محمد وقاص رفیع


نبی کریمﷺ نے بیٹی کی بہترین پرورش پر جنت کی بشارت دی

زمانہ قبل از اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت عالم انسانیت مختلف قسم کی معاشرتی و اخلاقی بیماریوں سے دوچار تھا۔ تعلیم و تربیت کا فقدان تھا، ظلمت وجہالت عروج پر تھی، غربت و افلاس نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ ایسے میں ظالمانہ و جاہلانہ رسومات کا جنم لینا ایک بدیہی سی بات ہے۔ ایسی ہی جاہلانہ رسومات میں سے ایک قبیح رسم بعض قبیلوں میں بیٹی کو زندہ درگور کرنے کی بھی تھی۔ اِس رسم کی بنیاد بے جا غیرت پر مبنی تھی کہ کل کسی کو بیٹی دینی نہ پڑے، کوئی ہمارا داماد بن نہ سکے، کسی کے سامنے ہماری نظریں جھک نہ سکیں، اِس لئے جو بھی بیٹی کسی کے گھر میں پیدا ہوتی وہ اسے زندہ زمین میں دفن کر دیتا۔ 

 قرآنِ مجید نے اِن ہی لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے: ’’اور جب اُن میں سے کسی کو بیٹی کی (پیدائش) کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اُس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ دل ہی دل میں کڑھتا رہتا ہے، اِس خوشخبری کو برا سمجھ کر لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور سوچتا ہے کہ) ذلت برداشت کر کے اسے اپنے پاس رہنے دے، یا اسے زمین میں گاڑ دے، دیکھو! انہوں نے کتنی بری باتیں طے کر رکھی ہیں (سورۃ النحل: 58-59)۔ دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے: ’’اور جس بیٹی کو زندہ زمین میں گاڑ دیا گیا تھا اُس سے پوچھا جائے گا کہ اسے کس جرم میں قتل کیا گیا؟‘‘ (سورۃ التکویر: 8-9)

اسلام نے جب دُنیا میں اپنی کرنیں بکھیرنی شروع کیں اور اُس کو تمام مذاہب پر غلبہ نصیب ہوا تو اُس نے ساری دُنیا کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔ اُس نے زمانۂ جاہلیت کی رسومات کو توڑا، لوگوں کو ظلمت و جہالت سے نکالا، اُن کی صحیح تعلیم و تربیت کی، اور اُنہیں انسانیت کا کھویا ہوا مقام واپس دلایا۔ زمانۂ جاہلیت میں بیٹی کو جتنا منحوس خیال کیا جاتا تھا، اسلام نے اُتنا ہی اُس کو خوش قسمت اور بابرکت بتایا۔

ایک حدیث میں آتا ہے حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جس شخص نے اپنی بیٹی کو زندہ درگور نہیں کیا، نہ ہی اُسے برا سمجھا اور نہ ہی بیٹے کو اُس پر مقدم کیا تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ جنت میں داخل فرمائیں گے‘‘(سنن ابی داؤد: 5146)۔دوسری حدیث میں آتا ہے حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’وہ عورت مبارک ہوتی ہے جس کی پہلی اولاد بیٹی ہو‘‘ (تفسیر روح البیان: ج5، ص 45)

ایک اور حدیث میں آتا ہے حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جس شخص کے یہاں دو بیٹیاں پیدا ہوئیں اور جب تک وہ اُ س کے پاس رہیں اُس نے اُن کے ساتھ بھلائی کی، تو یہ اُس کو جنت میں لے جائیں گی۔‘‘ (مستدرک حاکم: 7351)

ایک حدیث میں آتا ہے حضورِ اقدس ﷺ نے ارشا دفرمایا کہ: جس شخص نے دو یا تین بیٹیوں یا دو یا تین بہنوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں یا مر گئیں تو میں اور وہ جنت میں ایسے ہوں گے جس طرح دو انگلیاں آپس میں ملی ہوئی ہوتی ہیں‘‘ (صحیح ابن حبان : 447)۔

ایک دوسری حدیث میں آتا ہے حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے دو بیٹیوں کی پرورش کی تو وہ اور میں اِس طرح جنت میں داخل ہوں گے جس طرح یہ دو انگلیاں آپس میں ملی ہوئی ہیں، پھر آپ ﷺ نے دونوں اُنگلیوں کو ملا کر بھی دکھایا (جامع ترمذی: 1914)۔

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر کوئی شخص بیٹیوں کی آزمائش میں مبتلا کیا گیا اور پھر اُس نے خوش دلی کے ساتھ اُن کی پرورش کی اور اُن پر احسان کیا تو یہ بیٹیاں جہنم کی آگ سے اُس کیلئے آڑ بن جائیں گی (صحیح بخاری: 1418، صحیح مسلم: 2629)۔

حضرت عائشہؓ کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی، اُس کے ساتھ اُس کی دو بیٹیاں تھیں، حضرت عائشہ ؓ نے اُس عورت کو تین کھجوریں دیں، اُس نے ایک ایک کھجور تو اپنی دونوں بیٹیوں کو دے دی اور تیسری خود کھانا چاہتی تھی، لیکن بیٹیوں نے وہ بھی مانگ لی، اُس عورت نے اُس کھجور کے دو ٹکڑے کر کے وہ بھی آدھی آدھی اُن دونوں بیٹیوں کو دے دی، حضورِاقدس ﷺ کو جب اِس واقعہ کا علم ہوا تو آپﷺ نے فرمایا کہ: ’’اِس عورت کو جہنم سے آزاد کر دیا گیا ہے اور اِس پر جنت واجب ہو چکی ہے‘‘ (صحیح مسلم:2630)۔

امام ابوالفرج اصبہانیؒ نے اپنی کتاب ’’الاغانی‘‘ میں بیٹیوں کے زندہ درگورکرنے کے خاتمے کا پس منظر اِس طرح بیان فرمایا ہے: ’’بیٹیوں کو سب سے پہلے زندہ درگور کرنے سے روکنے کا والا شخص صعصعہ بن ناجیہ فرزدق کا دادا ہے، اُس کا واقعہ یہ ہے کہ صعصعہ کی دو اُونٹنیاں گم ہو گئی تھیں، وہ اُن کی تلاش میں نکلا، جب رات کی تاریکی چھا گئی تو اُس نے اپنے سامنے (کچھ فاصلے پر) آگ رُوشن ہوتی ہوئی دیکھی، اُس نے آگ کا قصد کیا، اور جب آگ کے پاس پہنچا تو اُس نے اچانک وہاں ایک بوڑھے اور ایک دردِ زہ میں مبتلا عورت کو پایا، صعصعہ نے سلام کیا اور بوڑھے سے اپنی دو اُونٹنیوں کے بارے میں پوچھا، بوڑھے نے کہا میں نے اُن کو پایا ہے، اور اللہ نے اُن کے ذریعے ہم کو زندہ کر دیا ہے، پھر بوڑھے نے اُن عورتوں سے کہا جو اُس کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں اگر ہمارے بیٹا پیدا ہوا تو اُس کے متعلق تو میں کچھ نہیں جانتا کہ میں اُس کا کیا کروں گا اور اگر بیٹی پیدا ہوئی تو یقیناً میں اُس کو قتل کر دوں گا، اور اُس کی آواز تک نہ سنوں گا، چنانچہ اُس کے ہاں بیٹی ہی پیدا ہوئی، صعصعہ نے اپنی دونوں اونٹنیوں اور اُس اونٹ کے عوض جس پر وہ سوار ہو کر اُونٹنیاں تلاش کرنے کیلئے نکلا تھابیٹی کو خرید لیا۔ اُس کے بعد صعصعہ نے اپنا یہ شیوہ بنالیا کہ جو شخص بھی اپنی بیٹی کو زندہ درگور کرنا چاہتا تھا وہ دو اونٹنیوں اور ایک اونٹ کے عوض میں وہ اُس سے خرید لیتا، یہاں تک کہ دورِ اسلام کی آمد تک تین سو زندہ درگور ہونے والی بیٹیوں کو چھڑا چکا تھا (کتاب الاغانی: ص220)۔

جب اسلام دُنیا میں آیا تو صعصعہ بن ناجیہ حضورِ اقدس ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے اسلام قبول کیا، پھر حضور ﷺ سے عرض کیا کہ: ’’یا رسول اللہﷺ! میں نے زمانۂ جاہلیت میں کچھ اچھے کام کئے ہیں، کیا مجھے اُن کا اجر ملے گا؟‘‘ حضور ﷺ نے دریافت فرمایا کہ: ’’کیا کیا کام کیے ہیں؟‘‘ حضرت صعصعہ بن ناجیہ ؓ نے بتایا کہ: ’’تین سو بچیوں کو ایک ایک اونٹ اور دو دو اونٹنیوں کے عوض خرید کر زندہ کیا ہے‘‘۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’یہ صلہ رحمی کے باب میں سے ہے، اور تمہیں اِس کا اجر ملے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی دولت سے نواز کر تم پر احسان کیا ہے۔ (نفحۃ العرب: ص 57)

افسوس! بیٹی کو منحوس اور نامبارک سمجھی جانے والی زمانۂ جاہلیت کی یہ قبیح اور بری رسم آج ہم مسلمانوں میں در آئی ہے، ہم مسلمانوں کی اکثریت بیٹی کی پیدائش کو اچھا نہیں سمجھتی، اُس سے تنگ دل ہوتی ہے، اُس کو بوجھ سمجھتی ہے، اور اُس کو انتہائی حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے، حالانکہ اکثر و بیشتر مشاہدہ میں آتا رہتا ہے کہ بیٹوں کی بہ نسبت بیٹیاں ماں باپ کی خدمت زیادہ کرتی ہیں، اُن کی اطاعت و فرماں برداری میں بیٹوں سے بڑھ کر ہوتی ہیں، اُن کے مر جانے کے بعد اُن کیلئے پڑھ پڑھ کر اور اُن کی طرف سے صدقہ و خیرات کر کے بیٹوں کے مقابلے میں اُن کو زیادہ ثواب پہنچاتی ہیں، تو پھر بیٹیوں کی پیدائش سے ہم کیوں پریشان ہوں، اُن کے وجود کو ہم کیوں بوجھل سمجھیں اور اُن کی تعلیم و تربیت اور اُن کی پرورش سے ہم کیوں تہی دامنی کا ثبوت دیں؟ بالخصوص جب کہ اسلام نے اُن کی پیدائش کو مصیبت و ذلت سمجھنے سے منع کیا ہے اور اسے کافروں اور مشرکوں کا فعل اور اُن کا شعار قرار دیا ہے۔

مفتی محمد وقاص رفیع اسلامک ریسرچ اسکالر ’’ الندوہ ‘‘ ایجوکیشنل ٹرسٹ اسلام آباد ہیں 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

غرور کی سزا

بارہ سالہ ماہین ساتویں کلاس کی طالبہ تھی۔ وہ بہت ذہین اور اچھے دل کی مالک تھی۔ اپنی ذہانت کی وجہ سے پورے خاندان میں اسے ایک نمایاں حیثیت حاصل تھی۔

لہسن

لہسن بھی ہے بچو! بڑی تعریف کے قابل ثانی کوئی اس کا نہ کوئی مدمقابل پوچھو جو حکیموں سے وہ تعریف کریں گےشاعر بھی سدا اس کے قصیدے ہی پڑھیں گے

ذرامسکرایئے

ایک بچہ مزاحیہ بات پر تین مرتبہ ہنستا تھا، کسی نے اس سے پوچھا’’تم ہر مذاق پر تین مرتبہ ہنستے ہو، آخر اس کی وجہ کیا ہے‘‘؟ بچے نے جواب دیا: ’’ ایک مرتبہ لوگوں کے ساتھ ہنستا ہوں، دوسری مرتبہ جب میری سمجھ میں آتا ہے تب ہنستا ہوں اور تیسری مرتبہ اپنی بے وقوفی پر ہنستا ہوں‘‘۔٭٭٭

حرف حرف موتی

٭… اخلاق سے اچھا تحفہ کوئی نہیں۔ ٭… مسکراہٹ دل جیتنے کا سب سے اچھا طریقہ ہے، بچو! آپ اس طریقے پر عمل کرکے پوری دنیا فتح کر سکتے ہیں۔٭… سب کے ساتھ ہنسئے، لیکن کسی پر ہنسنے کی عادت ترک کردیجئے۔

پہیلیاں

(1)دبلی پتلی سی اک رانی اوپر آگ اور نیچے پانی منہ چومو تو شور مچائےبات کرو تو چپ ہو جائے٭٭٭

فروغِ روا داری و قیام امن، اسلامی تصور

’’اسلام امن و سلامتی کا دین ہے،جس میں جبر و اکراہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘‘(سورۃ البقرہ ) ’’اے رسولؐ لوگوں کو اپنے پروردگار کے راستے کی طرف دانائی اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلائو ‘‘(سورۃ النحل)