میئر شپ کا معاملہ دلچسپ مرحلے میں!

تحریر : عابد حسین


کراچی سمیت سندھ کے 30 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے دونوں مرحلوں اور ضمنی انتخابات میں کامیاب ہونے والے بلدیاتی نمائندوں نے اپنے اپنے عہدوں کا حلف اٹھالیا ہے۔ کراچی کی 246 یونین کمیٹیوں میں سے 239 یو سی چیئرمین، وائس چیئرمین اور وارڈ ممبرز کی حلف برداری کی تقریبات منعقد ہوئیں۔

 سات چیئرمین اوروائس چیئرمین مختلف وجوہ اور پولیس کی جانب سے گرفتاریوں کے باعث حلف نہیں اٹھاسکے۔ ان چیئرمین اوروائس چیئرمینوں کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔ الیکشن کمیشن نے ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر اور ریٹرننگ افسران کو حلف برداری کے لیے مقرر کیا تھا جنہوں نے بلدیاتی نمائندوں سے اردو ،سندھی اورانگریزی میں حلف لیا۔ ملیر کے منتخب بلدیاتی نمائندگان کی حلف برداری ریٹرننگ آفیسر بشارت حسین کی نگرانی میں ہوئی اور30 یونین کمیٹیوں کے منتخب بلدیاتی نمائندگان سے حلف لیاگیا۔ 

دیکھا جائے تو سندھ میں بلدیاتی نظام کی تشکیل بتدریج اپنے اختتام کی جانب رواں دواں ہے۔ سندھ کے بلدیاتی اداروں میں مخصوص نشستوں کے لئے امیدواروں کے لیے کاغذات نامزدگی کا عمل 22 مئی سے شروع ہو چکا ہے۔ مخصوص نشستوں کی حلف برداری 10 اور 14 جون کو ہوگی۔اس دوران کراچی کے لیے میئر شپ کا مرحلہ دلچسپ مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔منتخب نمائندوں کی حلف برداری کے روز پی ٹی آئی کے بعض منتخب بلدیاتی نمائندوں کی اچانک گرفتاری سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی میئر کا گیم اپنے حق میں کرنے کیلئے پوری طرح تیار ی کررہی ہے ۔ تاہم اسے جماعت اسلامی کی شکل میں سخت مزاحمت کا سامناہے۔

 پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری واضح طور پر کہہ چکے تھے کہ کراچی کا میئر جیالا ہوگا لیکن مطلوبہ تعداد ابھی پوری نہیں ہوسکی ۔ اسی لیے صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ کو یہ وضاحت کرنی پڑی ہے کہ بلاول بھٹو صاحب نے کہا تھا کہ مئیر کراچی جیالا ہی ہوگا لیکن اگر کوئی اور ہوا تو اسے سپورٹ کیا جائے گا۔ ناصر شاہ کے اس جملے میں پائی جانے والی سیاسی لچک ایک مثبت اشارہ ہے۔ ہونا بھی یہی چاہیے کہ پیپلز پارٹی اپنی مخالف جماعت پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان پر ضد اورانا کا الزام لگاتی ہے تو اسے خود اس سے احتراز برتنا چاہیے۔آسانی کے ساتھ جو پارٹی اپنے نمبر پورے کرلے اسی کا میئر بن جانا چاہیے۔سیاسی جوڑ توڑ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی دائمی بیماری ہے ،بلدیات کو اس سے بچاکر ہی نچلی سطح پر عوام کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

مبصرین کے مطابق میئر کراچی کے لیے پیپلز پارٹی کے حلقوں میں دو رائے پائی جاتی ہیں۔ابتداء میں نجمی عالم کا نام میئر کراچی کے لیے لیا گیا،بعض حلقوں نے سعید غنی کا نام پیش کیا جس پر سعید غنی نے یہ وضاحت کی کہ وہ سینیٹر تک رہ چکے ہیں اس لیے شہری سطح کے اس منصب پر کسی اور کو آنا چاہیے۔اسی دوران بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کا نام سرفہرست ہوگیااور چونکہ مرتضیٰ وہاب نے بلدیاتی الیکشن میں حصہ نہیں لیا تھا اس لیے پیپلزپارٹی نے سندھ اسمبلی کے اجلاس میں بلدیاتی قوانین میں ایک متفقہ ترمیم کرتے ہوئے قانون پاس کرالیا کہ میئر کراچی کا امیدوار کوئی بھی ہوسکتا ہے۔پیپلز پارٹی کے حلقوں میں اب مرتضیٰ وہاب ،سلیم مانڈوی والا ،مسرور احسن اور دیگر لیڈر شپ کے لیے بھی میئر کراچی کا الیکشن لڑنے کے لیے دروازے کھل چکے ہیں۔غالب امکان یہی ہے کہ بیرسٹر مرتضیٰ وہاب ہی اس منصب کے لیے نامزد کیے جائیں گے۔

بلدیاتی نمائندوں کی حلف برداری کے حوالے سے پی ٹی آئی کراچی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے 36 منتخب چیئرمینوں نے عہدوں کا حلف اٹھا لیاہے اس طرح مخالفین کے فارورڈ بلاک اور حلف نہ اٹھانے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں لیکن پی ٹی آئی کے 5 یوسی چیئرمین ،یوسی 2 جناح ٹاؤن سے پی ٹی آئی کے سینئر رہنما فردوس شمیم نقوی ،یوسی 10 نارتھ ناظم آباد سے ملک عمر دراز ،یوسی 5 کورنگی ٹاؤن سے امجد حسین ،یوسی 5 چنیسر ٹاؤن کے چیئرمین شاہد انصاری ، یوسی مومن آباد سے محمد مصطفی گرفتاری کی وجہ سے حلف نہیں اٹھاسکے ہیں۔ گرفتار یوسی چیئرمینوں کی حلف برداری کے لیے ڈی آر او نے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے تھے جو کہ نہیں کیے گئے۔پی ٹی آئی نے مطالبہ کیا ہے کہ میئر کے انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کے گرفتار یوسی چیئرمینوں سے حلف لیا جائے۔

 ایم کیو ایم پاکستان نے صنعتکاروں، تاجروں اور اقتصادی ماہرین پر مشتمل ’’پاکستان اکنامک فورم ‘‘تشکیل دے دیا ہے بلکہ مردم شماری ،قومی اتفاق رائے کے موضوع پر ایک اہم اور طویل کانفرنس کا انعقاد بھی کیا گیا۔اس کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو مجرمانہ حد تک کم کرنے پر ایم کیوایم پاکستان کا مؤقف سامنے آیا ہے۔ سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے مطابق مردم شماری کا عمل دوبارہ کرالینا چاہیے کیونکہ اب زیادہ خرچہ نہیں آئے گا اوریہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

26ویں آئینی ترمیم کے بعد۔۔۔

بالآخر26ویں آئینی ترمیم منظور ہو گئی‘ جس کی منظوری کے بعد اس پر عملدرآمد بھی ہو گیا۔ ترمیم منظور ہونے کے بعد ایک غیریقینی صورتحال کا خاتمہ ہوا اور ملک میں ایک نیا عدالتی نظام قائم کر دیا گیا جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے بڑے اور اہم اختیارات تقسیم کر دیے گئے ہیں۔ آئینی ترمیم کا عمل حیران کن طور پر خوش اسلوبی سے مکمل ہو گیا۔

آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج،بے وقت کی را گنی وکلا ءکا ردعمل کیا ہو گا؟

چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب پر جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی کے عمل کے بعد ملک کے سیاسی محاذ پر ٹھہرائو کے امکانات روشن ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے عمل کو ملک میں ترقی، خوشحالی اور سیاسی و معاشی استحکام کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس عمل سے عوام کیلئے عدل و انصاف کے دروازے کھلیں گے اور ملک آگے کی طرف چلے گا۔

سیاست سے انتقام ختم کریں؟

ملک بھر کے میڈیا پر آج کل صرف ایک ہی خبر اہم ترین ہے اور وہ ہے 26 ویں آئینی ترمیم کے مثبت اور منفی اثرات۔لیکن محلاتی سازشیں ہوں یا چاہے کچھ بھی ہورہا ہو، عوام کا اصل مسئلہ تو یہی ہے کہ انہیں کیا مل رہا ہے۔

پولیس ایکٹ میں تبدیلی سیاسی مداخلت نہیں؟

پاکستان تحریک انصاف مسلم لیگ( ن) پر’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے کو تبدیل کرنے کا الزام لگاتی ہے لیکن خود پی ٹی آئی نے جس طرح یوٹرن لیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔بانی پی ٹی آئی کے نظریے کے برعکس خیبرپختونخوا حکومت نے محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت کی راہ ہموار کردی ہے۔ پولیس ایکٹ 2017ء میں خیبرپختونخوا پولیس کو غیر سیاسی بنانے کیلئے قانون سازی کی گئی تھی اور وزیراعلیٰ سے تبادلوں اورتعیناتیوں سمیت متعدد اختیارات لے کر آئی جی کو سونپ دیئے گئے تھے۔

26ویں آئینی ترمیم،ملا جلا ردعمل

26ویں آئینی ترمیم کو جہاں سیا سی عمائدین پاکستان کے عدالتی نظام میں احتساب اور کارکردگی کو بہتر بنا نے کیلئے ضروری قرار دیتے ہیں وہیں کچھ سیا سی جماعتیں اور وکلاتنظیمیں آئینی ترمیم کوعدالتی آزادی اور قانون کی حکمرانی پر قدغن سمجھتی ہیں۔

وزیراعظم کا انتخاب،معاملہ ہائیکورٹ میں

آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے چوہدری انوار الحق کے بطور وزیر اعظم انتخاب کے خلاف درخواست پر لار جر بنچ تشکیل دے دیا ہے۔ وزیر اعظم کے انتخاب کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے رکن قانون ساز اسمبلی فاروق حیدر کے وکلا نے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی۔