تحریک انصاف کا سیاسی مستقبل کیا؟

تحریر : عدیل وڑائچ


پاکستان تحریک انصاف اپنے قیام سے لے کر اب تک کے سب سے مشکل ترین دورسے گزر رہی ہے بلکہ مشکل دور تو تحریک انصاف نے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔ اپوزیشن کا دور ہو یا حکومت اسے ہمیشہ تعاون ہی ملا مگر مقبولیت کے نشے نے ایک کے بعد ایک ایسا فیصلہ کرایا کہ اقتدار کے ایوان کے بعد پارلیمان سے باہر ہوناپڑا بلکہ اب تو سیاست سے بھی باہر ہونے کی بات ہونے لگی ہیں۔

 حکومت نے 9 مئی کے واقعات کے بعد پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا عندیہ دیا ہے تاہم اس پر حتمی فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کا ایک کے بعد ایک پنچھی اڑان بھر رہا ہے۔ ہر روز ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ آج کون پی ٹی آئی کو داغ مفارقت دینے جا رہا ہے ؟ مگر اب تک 3شخصیات ایسی ہیں جن کے پی ٹی آئی چھوڑنے اس جماعت کو ہلا کر رکھ دیاہے۔ ابھی تحریک انصاف عامر کیانی کے چھوڑنے کا غم نہیں بھلا پائی تھی کہ شیریں مزاری اور ،فواد چوہدری کا پارٹی اور اسد عمر کا جنرل سیکریٹری  کا پارٹی عہدہ چھوڑنے کا اعلان تو بھونچال ہی لے آیا ۔فواد چوہدری نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ وہ سیاست سے بریک لے رہے ہیں اور عمران خان سے راہیں جدا کر رہے ہیں۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ جو بھی نامی گرامی شخصیت تحریک انصاف کو چھوڑ رہی ہے وہ سیاست چھوڑنے کا بھی اعلان کر رہی ہے۔ عمران خان اور ان کے قریبی ساتھی موجودہ صورتحال پر پریشان ہیں مگر انہوں نے اپنے کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ پارٹی چھوڑنے والوں کو تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ کارکنوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر تنقید ان رہنماؤں کو پارٹی قیادت کے خلاف بولنے پر مجبور کریگی جس کی پی ٹی آئی ابھی متحمل نہیں ہے۔ تحریک انصاف میں تین اقسام کے لو گ پائے جاتے ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جو دیگر جماعتوں سے لائے گئے یا خود آئے ، دوسری قسم وہ ہے جو سینئر قیادت کا حصہ ہیں مگر تحریک انصاف کے علاوہ کسی دوسری جماعت میں نہیں رہے ، تیسری قسم ان نوجوان رہنماؤں کی ہے جو اس جماعت کی سٹوڈنٹ فیڈریشن کے ذریعے سیاست میں داخل ہوئے۔ تا حال پاکستان تحریک انصاف کو چھوڑنے والوں میں پہلی دو اقسام کے لوگ شامل ہیں۔ امکان ہے کہ تیسری کیٹگری کے افراد تحریک انصاف چھوڑنے میں سب سے زیادہ مزاحمت  کریں گے۔ شیریں مزاری اور فواد چوہدری کے جماعت چھوڑنے کے اعلانات نے ان پارٹی رہنماؤں کیلئے راہ ہموار کر دی ہے جو سیاسی اور عوامی دباؤ کے باعث تحریک انصاف چھوڑنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ آنے والے دنوں میں مزید بڑے نام جماعت چھوڑنے کا اعلان کر سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی چھوڑنے والے کچھ افراد کسی دوسری بڑی جماعت کا حصہ بنیں گے جبکہ کئی ارکان کے اکٹھ کیساتھ ایک نیا سیاسی دھڑا تشکیل پائے جانے کا امکان ہے۔

 پارٹی سے استعفے کیساتھ سیاست چھوڑنے کا اعلان کرنے والے انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔موجودہ صورتحال میں جہانگیر خان ترین بہت متحرک ہو چکے ہیں اور انہوں نے لاہور میں ڈیرے ڈال لیے ہیں ، تحریک انصاف چھوڑنے والے رہنماؤں کے ساتھ انکا دھڑا رابطے کر رہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ق لیگ کی جانب سے بھی پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کیلئے دروازے کھولنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

9 مئی پی ٹی آئی کیلئے ایک ڈراؤنا خواب بن کر رہ گیا ہے جس نے چند روز میں انتہائی مقبول جماعت کو عرش سے فرش پر لا کھڑا کیا ہے۔ جیو فینسنگ اور کال ریکارڈ ز کے ذریعے ملنے والے شواہد اور گرفتار ملزمان کے اعترافی بیانات بتا رہے ہیں کہ عسکری اور حکومتی املاک کو نقصان پہنچانے والے معاملے کاکھرا پارٹی کی قیادت تک جاتا ہے۔ ایسے ثبوت اداروں کے ہاتھ لگ چکے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ 9 مئی کے واقعات اتفاقیہ نہیں بلکہ ایک منظم کارروائی کا نتیجہ تھے جس میں سیاسی جماعت کے رہنما کارکنوں کو حملے کی ترغیب یا ہدایت دے رہے تھے۔ ایسے میں 9 مئی کے واقعات سے پارٹی کو بری الذمہ قرار دینا کسی  کیلئے آسان کام نہیں۔ عمران خان نے بھی دبے لفظوں میں ان واقعات کی مذمت کی مگر انہوں نے ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ نہیں کیا۔ وہ جماعت جو اب سے دو ہفتے قبل سیاسی میدان میں فرنٹ فٹ پر کھیل رہی تھی ،اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ عدالت سے ملنے والے ریلیف بھی تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کو فائدہ نہیں پہنچا پا رہے۔

 ریاست کا غم و غصہ بتا رہا ہے کہ اس طوفان کے سامنے کھڑے ہونا اب کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی خود کو 9 مئی کے واقعات سے دور رکھنا چاہتا ہے۔ تحریک انصاف بطور جماعت بھی جلاؤ گھیراؤ کے جرم میں پکڑے جانے والے افراد کی اونرشپ لینے کو تیار نہیں ہے۔ یوں عسکری اور قومی املاک پر حملہ کرنے کا ایندھن بننے والے کارکن پارٹی کے تعاون کے بغیر قانون کا سامنا کر رہے ہیں۔ جماعت چھوڑنے والے ارکان سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں پارٹی سے فوری علیحدگی میں ہی عافیت ہے۔ 

جہاں تک تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا معاملہ تو حکومت میں اس معاملے پر اختلاف رائے پایا جاتاہے۔ پیپلز پارٹی سمیت کئی اتحادی کسی بھی سیاسی جماعت کو بین کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ اگر یہ فیصلہ ہو بھی جائے کہ کسی جماعت پر پابندی عائد کرنی ہے تو قانونی طریقہ کار کے تحت وفاقی حکومت کو اس کے خلاف گزٹ آف پاکستان میں ڈکلیریشن شائع کرنا ہوگا۔ اس ڈکلیریشن کے 15 روز کے اندر معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان کو ریفر کیا جائے گا یوںکسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کرنے کا حتمی فیصلہ سپریم کورٹ آف پاکستان ہی کر ے گی یہ اختیار حکومت کے پاس انتہائی محدود ہے۔ 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

26ویں آئینی ترمیم کے بعد۔۔۔

بالآخر26ویں آئینی ترمیم منظور ہو گئی‘ جس کی منظوری کے بعد اس پر عملدرآمد بھی ہو گیا۔ ترمیم منظور ہونے کے بعد ایک غیریقینی صورتحال کا خاتمہ ہوا اور ملک میں ایک نیا عدالتی نظام قائم کر دیا گیا جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے بڑے اور اہم اختیارات تقسیم کر دیے گئے ہیں۔ آئینی ترمیم کا عمل حیران کن طور پر خوش اسلوبی سے مکمل ہو گیا۔

آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج،بے وقت کی را گنی وکلا ءکا ردعمل کیا ہو گا؟

چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب پر جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی کے عمل کے بعد ملک کے سیاسی محاذ پر ٹھہرائو کے امکانات روشن ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے عمل کو ملک میں ترقی، خوشحالی اور سیاسی و معاشی استحکام کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس عمل سے عوام کیلئے عدل و انصاف کے دروازے کھلیں گے اور ملک آگے کی طرف چلے گا۔

سیاست سے انتقام ختم کریں؟

ملک بھر کے میڈیا پر آج کل صرف ایک ہی خبر اہم ترین ہے اور وہ ہے 26 ویں آئینی ترمیم کے مثبت اور منفی اثرات۔لیکن محلاتی سازشیں ہوں یا چاہے کچھ بھی ہورہا ہو، عوام کا اصل مسئلہ تو یہی ہے کہ انہیں کیا مل رہا ہے۔

پولیس ایکٹ میں تبدیلی سیاسی مداخلت نہیں؟

پاکستان تحریک انصاف مسلم لیگ( ن) پر’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے کو تبدیل کرنے کا الزام لگاتی ہے لیکن خود پی ٹی آئی نے جس طرح یوٹرن لیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔بانی پی ٹی آئی کے نظریے کے برعکس خیبرپختونخوا حکومت نے محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت کی راہ ہموار کردی ہے۔ پولیس ایکٹ 2017ء میں خیبرپختونخوا پولیس کو غیر سیاسی بنانے کیلئے قانون سازی کی گئی تھی اور وزیراعلیٰ سے تبادلوں اورتعیناتیوں سمیت متعدد اختیارات لے کر آئی جی کو سونپ دیئے گئے تھے۔

26ویں آئینی ترمیم،ملا جلا ردعمل

26ویں آئینی ترمیم کو جہاں سیا سی عمائدین پاکستان کے عدالتی نظام میں احتساب اور کارکردگی کو بہتر بنا نے کیلئے ضروری قرار دیتے ہیں وہیں کچھ سیا سی جماعتیں اور وکلاتنظیمیں آئینی ترمیم کوعدالتی آزادی اور قانون کی حکمرانی پر قدغن سمجھتی ہیں۔

وزیراعظم کا انتخاب،معاملہ ہائیکورٹ میں

آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے چوہدری انوار الحق کے بطور وزیر اعظم انتخاب کے خلاف درخواست پر لار جر بنچ تشکیل دے دیا ہے۔ وزیر اعظم کے انتخاب کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے رکن قانون ساز اسمبلی فاروق حیدر کے وکلا نے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی۔