کھانے پینے کے آداب

تحریر : مفتی محمد وقاص رفیع


اسلام اپنی روشن اور مبارک تعلیمات کے ذریعے زندگی کے تمام شعبوں میں انسان کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ وضع قطع، بود و باش، رہن سہن حتیٰ کہ کھانے پینے تک کے متعلق اسلام نے انسان کو اپنی تعلیمات سے مستفید رکھا ہے اور اُس کی بہترین رہنمائی اور کامل رہبری کی ہے۔ ذیل میں ہم اسلام کی انہیں مبارک تعلیمات کی رُوشنی میں کھانے پینے کے متعلق اسلامی آداب اسوۂ رسول ا کی رُوشنی میں پیش کرتے ہیں۔

کھانا ہمیشہ ہاتھ دھو کر دائیں ہاتھ سے کھانا چاہیے۔ حضرت ابراہیم ؓ فرماتے ہیں کہ ’’حضور ﷺ اپنا دایاں ہاتھ کھانے، پینے، وضو اور اِن جیسے کاموں کیلئے فارغ رکھتے تھے اور اپنا بایاں ہاتھ استنجا، ناک صاف کرنے اور اِن جیسے کاموں کیلئے رکھتے تھے‘‘ (کنز العمال: 41684)

کھانا ہمیشہ اپنے سامنے سے کھانا چاہیے، پورے برتن میں ہاتھ گھمانا اور دوسرے کے منہ کے سامنے سے کھانا ٹھیک نہیں ہے۔اسی طرح عمر بن ابو سلمہؓ سے روایت ہے کہ میں جب چھوٹا تھا رسول اللہ ﷺ کی گود میں بیٹھا تھااور میرا ہاتھ پوری تھالی میں گھوم رہا تھا، تو مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’لڑکے! اللہ کا نام لو، اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ، اور جو تمہارے سامنے ہے اس میں سے کھاؤ‘‘ (بخاری: 3576 ،مسلم 2022 )

 حضرت جعفر بن عبد اللہ بن حکم بن رافع ؒ کہتے ہیں کہ ’’میں بچہ تھا، کبھی اِدھر سے کھا رہا تھا، کبھی اُدھر سے۔ حضرت حکم ؓ مجھے دیکھ رہے تھے، اُنہوں نے مجھ سے فرمایا: ’’اے لڑکے! ایسے نہ کھاؤ جیسے شیطان کھاتا ہے‘‘ (کنز العمال: 41699)۔حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ : ’’حضور ﷺ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ اور دودھ نکالنے کیلئے بکری کی ٹانگوں کو باندھا کرتے، اور جو کی روٹی پر بھی غلام کی دعوت قبول کر لیا کرتے تھے‘‘(کنز العمال: 18665)۔

کھانا کھانے سے پہلے بسم اللہ ضرور پڑھ لینی چاہیے تاکہ شیطان کھانے میں شریک نہ ہو سکے۔ حضرت اُمیہ مخشیؓ فرماتے ہیں کہ ’’نبی کریم ﷺ نے دیکھا کہ ایک آدمی کھانا کھا رہا ہے، اُس نے بسم اللہ نہیں پڑھی، کھاتے کھاتے بس ایک لقمہ رہ گیا۔ جب اُسے منہ کی طرف اُٹھانے لگا تواُس نے ’’بسم اللہ اولہ وآخرہ‘‘ کہا۔ اِس پر حضور ﷺ ہنس پڑے اور فرمایا: ’’اللہ کی قسم! شیطان تمہارے ساتھ کھاتا رہا، پھر جب تم نے بسم اللہ پڑھی تو جو کچھ اُس کے پیٹ میں تھا وہ سب اُس نے قے کردیا‘‘ (ابو داؤد: 3768)۔ کھانے کی برائی اور اُس کی توہین نہیں کرنی چاہیے! اسی طرح کھانے میں کبھی کوئی عیب اور نقص نہیں نکالنا چاہیے!۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ: ’’حضور ﷺ کبھی کھانے میں عیب نہیں نکالتے تھے۔ اگر طبیعت چاہتی تو کھا لیتے ورنہ چھوڑ دیتے‘‘ (تفسیر ابن کثیر: ج2،ص68) ۔کھانا ہمیشہ تین اُنگلیوں سے کھانا چاہیے! اور کھانا کھانے کے بعد اُنگلیاں چاٹ لینی چاہئیں کہ یہ سنت ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ ’’ نبی کریم ﷺ جب کھانا کھالیتے تو اپنی تین اُنگلیاں چاٹ لیا کرتے‘‘(شمائل ترمذی: 131 )۔

کھانے پینے میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنی چاہیے! بہت زیادہ کھانا نہیں کھانا چاہیے کہ اِس سے جسم خراب ہو جاتا ہے، طبیعت بوجھل ہو جاتی ہے، اور نماز وغیرہ عبادات میں سستی اور کاہلی پیدا ہو جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت عمر فاروق ؓ فرماتے ہیں کہ ’’بہت زیادہ کھانے پینے سے بچو! کیوں کہ اِس سے بدن خراب ہو جاتا ہے اور کئی قسم کی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں اور نماز میں سستی آ جاتی ہے۔ لہٰذا کھانے پینے میں میانہ روی اختیار کرو! اِس لئے کہ میانہ روی سے جسم زیادہ ٹھیک رہتا ہے اور اِسراف (فضول خرچی) سے انسان زیادہ دُور رہتا ہے‘‘ (کنز العمال: 41713)

غلاموں، نوکروں چاکروں اور اپنے ماتحت کام کرنے والے لوگوں کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلانا چاہیے۔ حضرت ابو محذورہؒ فرماتے ہیں کہ : ’’میں حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں حضرت صفوان بن اُمیہؓ ایک پیالہ لے کر آئے، حضرت عمر ؓ نے مسکینوں کو اور آس پاس کے لوگوں کے غلاموں کو بلایا اور اِن سب نے آپؓ کے ساتھ یہ کھانا کھایا اور پھر حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اُن لوگوں پر لعنت کرے جو اِس بات سے اعراض کرتے ہیں کہ اُن کے غلام اُن کے ساتھ کھانا کھائیں‘‘۔ حضرت صفوان ؓ نے کہا کہ ’’ہمیں اُن کے ساتھ کھانے سے اِنکار نہیں، لیکن ہمیں عمدہ کھانا اتنا نہیں ملتا جو ہم خود بھی کھالیں اور اُنہیں بھی کھلا دیں، اِس لئے ہم کھانا الگ بیٹھ کر کھا لیتے ہیں‘‘ (کنز العمال: 25650)۔

کھانے پینے کی چیزوں میں پھونک مارنا مکروہ اور منع ہے۔ حضرت علی ؓ کے غلام حضرت مسلم ؒ کہتے ہیں کہ: ’’ (ایک مرتبہ) حضرت علیؓ نے پینے کی کوئی چیز منگوائی، میں اُن کے پاس پانی کا ایک پیالہ لایا اور میں نے اُس پیالہ میں پھونک ماردی تو حضرت علیؓ نے اُسے واپس کردیا اور پینے سے انکار کردیا اور فرمایا: ’’ تم ہی اسے پی لو‘‘ (یعنی تمہیں اِس میں پھونک نہیں مارنی چاہیے تھی) (طبقات ابن سعد:ج4 ص 346)

کھانا جس پلیٹ یا برتن میں کھایا جارہا ہو اگر اُس میں ختم ہو جائے اور مزید کھانا لایا جائے تو نیا برتن استعمال کرنے کے بجائے اُسے اُسی برتن میں ڈال کر کھایا جائے جس میں پہلے سے کھایا جارہا ہے۔ 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

26ویں آئینی ترمیم کے بعد۔۔۔

بالآخر26ویں آئینی ترمیم منظور ہو گئی‘ جس کی منظوری کے بعد اس پر عملدرآمد بھی ہو گیا۔ ترمیم منظور ہونے کے بعد ایک غیریقینی صورتحال کا خاتمہ ہوا اور ملک میں ایک نیا عدالتی نظام قائم کر دیا گیا جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے بڑے اور اہم اختیارات تقسیم کر دیے گئے ہیں۔ آئینی ترمیم کا عمل حیران کن طور پر خوش اسلوبی سے مکمل ہو گیا۔

آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج،بے وقت کی را گنی وکلا ءکا ردعمل کیا ہو گا؟

چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب پر جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی کے عمل کے بعد ملک کے سیاسی محاذ پر ٹھہرائو کے امکانات روشن ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے عمل کو ملک میں ترقی، خوشحالی اور سیاسی و معاشی استحکام کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس عمل سے عوام کیلئے عدل و انصاف کے دروازے کھلیں گے اور ملک آگے کی طرف چلے گا۔

سیاست سے انتقام ختم کریں؟

ملک بھر کے میڈیا پر آج کل صرف ایک ہی خبر اہم ترین ہے اور وہ ہے 26 ویں آئینی ترمیم کے مثبت اور منفی اثرات۔لیکن محلاتی سازشیں ہوں یا چاہے کچھ بھی ہورہا ہو، عوام کا اصل مسئلہ تو یہی ہے کہ انہیں کیا مل رہا ہے۔

پولیس ایکٹ میں تبدیلی سیاسی مداخلت نہیں؟

پاکستان تحریک انصاف مسلم لیگ( ن) پر’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے کو تبدیل کرنے کا الزام لگاتی ہے لیکن خود پی ٹی آئی نے جس طرح یوٹرن لیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔بانی پی ٹی آئی کے نظریے کے برعکس خیبرپختونخوا حکومت نے محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت کی راہ ہموار کردی ہے۔ پولیس ایکٹ 2017ء میں خیبرپختونخوا پولیس کو غیر سیاسی بنانے کیلئے قانون سازی کی گئی تھی اور وزیراعلیٰ سے تبادلوں اورتعیناتیوں سمیت متعدد اختیارات لے کر آئی جی کو سونپ دیئے گئے تھے۔

26ویں آئینی ترمیم،ملا جلا ردعمل

26ویں آئینی ترمیم کو جہاں سیا سی عمائدین پاکستان کے عدالتی نظام میں احتساب اور کارکردگی کو بہتر بنا نے کیلئے ضروری قرار دیتے ہیں وہیں کچھ سیا سی جماعتیں اور وکلاتنظیمیں آئینی ترمیم کوعدالتی آزادی اور قانون کی حکمرانی پر قدغن سمجھتی ہیں۔

وزیراعظم کا انتخاب،معاملہ ہائیکورٹ میں

آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے چوہدری انوار الحق کے بطور وزیر اعظم انتخاب کے خلاف درخواست پر لار جر بنچ تشکیل دے دیا ہے۔ وزیر اعظم کے انتخاب کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے رکن قانون ساز اسمبلی فاروق حیدر کے وکلا نے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی۔