یادرفتگاں: سرتاج الشعرا،خدائے سخن:میر تقی میر

تحریر : ڈاکٹر صوفیہ یوسف


خدائے سخن میر تقی میر ایک نابغہ روزگار شخصیت کا نام ہے۔ ایسی شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ میر دراصل ایک ایسے شاعر ہیں جو جملہ اصناف سخن پر قدرت کاملہ رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری سہل ممتنع کی ایسی مثال ہے کہ جس کی دوسری کوئی نظیر اردو شاعری میں نہیں ملتی۔ ان کے کلام کی اصل روح رمزیت اور ایمائیت میں مضمر ہے۔ ان کے فن میں بہت سی تہیں ہیں اور ان تہوں میں بہت سی زیریں لہریں موج زن ہیں جو میر کے کلام میں انفرادیت اور مقناطیسی کیفیت پیدا کردیتی ہیں۔

عشق کی جرات و جگر ہے شرط

زردیِ رنگ و چشم تر ہے شرط

یا یہ شعر ملاحظہ کیجیے:

آتش بلند دل کی نہ تھی ورنہ اے کلیم

یک شعلہ برقِ خرمنِ صد کوہِ طور تھا

میر تقی میر کے آباو اجداد حجاز سے ہجرت کر کے دکن پہنچے تھے۔ دکن کے بعد احمد آباد اور گجرات میں پڑاؤ ڈالا، خاندان کے کچھ افراد نے تو وہیں قیام کر لیا، جب کے کچھ نے اگلی منزلوں کا قصدکیا، آگے سفر اختیار کرنے والوں میں میر کے پردادا بھی شامل تھے جنہوں نے اکبر آباد میں سکونت اختیار کی۔ میر کی ولادت 1723ء آگرہ میں ہوئی۔ والد نے محمد تقی میر نام رکھا۔ ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے والد علی متقی سے حاصل کی۔ علی متقی درویش صنف انسان تھے۔ ان کی تربیت کا میر کی شخصیت پر گہرا اثرہوا۔ میر ابھی گیارہ برس کی عمر کو پہنچے تھے کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ایسی صورت میں غم روزگار لاحق ہوا اور میر رخت سفر باندھ کر دلی پہنچے:

فکر معاش یعنی غم زیست تابہ کے

مر جائیے کہیں کہ ٹک آرام پائیے 

 میر کی شاعری میں جو سوز و گداز اور اثر و تاثیر ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی ذات نے غمِ عشق، غم روزگار اور انقلاب زمانہ کی سختیاں جھیلیں، پے درپے بیرونی حملوں نے دلی اور اہل دلی پر جو آفت توڑی اسے سہنا پڑا۔  میر جب دل کے لٹنے کا ذکر کرتے ہیں تو اس کے پس منظر میں وہ سارے انقلابات ہوتے ہیں جن سے دلی دوچار تھی:

دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے

یہ  نگر  سو  مرتبہ   لوٹا  گیا

ان حالات نے ان کی شخصیت پر جو اثرات مرتب کیے وہ ان کی شاعری کے سلسلے میں بہت اہم ہیں۔ شاعری میں سو ز و گداز کی کیفیت انہیں اثرات کا نتیجہ ہیں۔ ان کے معاصرین میں مرزا رفیع سودا، خواجہ میر درد، میر سوز،اشرف علی خاں فغاں،ظہور الدین حاتم، قیام الدین قائم، غلام علی ہمدانی مصحفی اور قلندر بخش جرات وغیر ہ اہم ہیں۔

 میر تقی میر اردو اور فارسی کے قادرالکلام شاعر تھے۔ انھوں نے اپنے عہد کی اہم اور مروجہ اصناف مثلا غزل، قصیدہ، مثنوی، نعت، مرثیہ، منقبت، سلام، قطعہ، رباعی، رباعی مستزاد، ہجویات،  واسوخت، مخمس، ترکیب بند میں طبع آزمائی کی لیکن ان کا تخلیقی جوہر سب سے زیادہ صنف غزل میں نمایاں ہے۔ لہجے کا دھیماپن، سوز و گداز، سادگی، برجستگی اور سہل ممتنع ان کی غزلوں کے نمایاں اوصاف ہیں۔ اس بنا پر انہیں غزل کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ غم جاناں اور غم دور اں دونوں کی ترجمانی انھوں نے بڑے مؤثر پیرائے میں کی ہے۔ رنج و غم کی تصویریں ان کے کلام میں جابجا نظر آتی ہیں۔ وہ غم عشق اور غم روزگار دونوں کو صبر و سکون کے ساتھ برداشت کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ دردناک بات بھی وہ پرسکون لہجے میں کہتے ہیں:

دھوتے ہیں اشکِ خونی سے دست و دہن کومیر

طورِ نماز کیا ہے جو یہ ہے وضو کی طرح

 ان کی غزلوں میں موضوعات کا تنوع ،رنگا رنگی اور حسن بیان کی کیفیت جا بجا دیکھنے کو ملتی ہے۔بے ساختگی ، روانی اور فطری انداز بیان کی بدولت تکلف اور تصنع یا آورد کا انداز شاید ہی کہیں دکھائی دے۔ کلامِ میر کے مطالعہ سے ظاہر ہے کہ برجستگی اور عمدگی ان کے یہاں بہ درجہ اتم موجود ہے۔

فلک نے آہ تری رہ میں ہم کو پیدا کر

برنگِ سبزہ نورستہ پائمال کیا

 

رہی تھی دم کی کشاکش گلے میں کچھ باقی 

سو اس کی تیغ نے جھگڑا ہی انفصال کیا 

میر نے فارسی کی تراکیب کو اردو کے ساتھ اس طور ملادیا ہے کہ وہ بڑی موزوں اور مناسب معلوم ہوتی ہیں۔ تمام شعری صنفوں یعنی تجنیس، ترصیع ،تشبیہ، فصاعت و بلاعت ان کے کلام کو ان کے معاصرین سے ممتاز کرتی ہیں۔ ان کی شاعری زماں و مکاں کی قید سے آزاد ہے۔میر کی روح فطرت کی محرم تھی جو ان کے کلام کو حسن و صداقت کا ایسا گہوارہ بنادیتی ہے جہاں زندگی کھڑی مسکرارہی ہے:

شمع و چراغ و شعلہ و آتش شرارو برق

رکھتے ہیں دل جلے یہ بہم سب تپاک ہم

 انہوں نے فارسی الفاظ و تراکیب کو لطیف پیرائے میں بکثرت استعمال کیا ہے۔ ان کے کلام میں طرزِ  بیان کی دلکشی اور فصاحت و بلاعت کا جو کمال دکھائی دیتا ہے وہ فارسی کے ذخیرہ الفاظ پر ان کی غیر معمولی دسترس اور اس کے تخلیقی استعمال کا نتیجہ ہے:

داغ فراق و حسرتِ و صل آرزئوے شوق

میں ساتھ زیر خاک بھی ہنگامہ لے گیا

میر تقی میر نے سادہ لہجہ اختیار کیا لیکن جہاں انکشاف ذات کی صورت پیدا ہوئی ہے یا ماہیت عالم پر غور کیا ہے یا ذات و کائنات کا فشار محسوس ہوا ہے یا حیرت و استعجاب کے عالم میں ڈوب گئے ہیں۔ وہاں اکثر فارسی آمیز امتزاجی پیرایے سے اظہار کا حق ادا ہوا ہے۔دلی کی ٹکسالی زبان اور عوامی بول چال کا اثر میر کے کلام پر چاہے جتنا بھی ہو لیکن فارسی تراکیب کا اسے کثرت سے استعمال اس سے قبل کی اردوشاعری میں شاید ہی مل سکے گا۔میرکا کمال ان تراکیب کے بر محل اور بے ساختہ استعمال میں پو شیدہ ہے:

کچھ نہ دیکھا پھر بجزیک شعلہ پرپیچ و تاب

شمع تک تو ہم نے دیکھا تھا کہ پروانہ گیا

میر کا امتیاز صرف یہ ہی نہیں کے وہ خدائے سخن اور غزل کے بے تاج بادشاہ ہیں بلکہ وہ اولین تذکرہ نگار اور خود نوشت سوانح نگار بھی ہیں۔میر نے اپنی شاعری کے ذریعے اردو زبان کے دامن کو وسیع تر کر دیا۔ان کے کلام میں جہاں فارسی کا رنگ گہرا ہے وہیں وہ مقامی بولیوں کے الفاظ کا بھی تخلیقی انداز سے استعمال کرتے ہیں۔ اردو کے چھ دیوان، مثنوی دریائے عشق، دیوان فارسی، نثر دریائے عشق فارسی، ذکر میر، فیض میر ، اور نکات الشعرا ان کی یادگار تصانیف ہیں۔ کلیات میر (اردو شاعری کے چھ دیوان) پہلی بارفورٹ ولیم کالج سے 1811ء میں شائع ہوئی۔ میر نے جو کچھ شعر کی شکل میں یادگار چھوڑا ہے وہ موجودہ اور آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے بھی ہے۔ ان کے اشعار پڑھنے کے بعد ہمیں ایسا بالکل نہیں لگتا ہے کہ یہ اشعار آج سے تقریباً تین سو سال قبل کہے گئے ہیں بلکہ جب بھی ان کے اشعار کا مطالعہ کریں یہ ہمیں تازہ اور ہمارے عہد کے ہی معلوم ہوتے ہیں۔ شاعر و ادیب اپنے اپنے عہد کے نباض ہوتے ہیں اور دوسروں کی بہ نسبت زیادہ حساس بھی ہوتے ہیں وہ سماج میں موجود خامیوں ،کمزوریوں کو بہتر طور سے جانتے ہیں اور مظلوموں کی آواز بن جاتے ہیں: 

شعر  میرے  ہیں  گو  خواص  پسند

پر مجھے گفتگو عوام سے ہے

میر تشبیہات و استعارات کے ذریعے ایسا پیکر تراشتے ہیں جس میں زندگی کی حرارت محسوس ہوتی ہے۔ انھوں نے شاعری کو درد اور درد کو شاعری بنایا ہے۔ان کی شاعری داخلی ، شخصی نشتریت سے بھری ہے ، میر کاخوبی یہ ہے کہ انھوں نے اپنی سحر بیانی سے آپ بیتی کو جگ بیتی بنا دیا۔میر تقی میرکی وفات (20ستمبر 1810ء ) کے ساتھ اردو شاعری کے ایک اہم زرین دور کا خاتمہ ہو گیا۔

بارے    دنیا    میں    رہو 

 غم    زدہ    یا    شاد     رہو

ایسا    کچھ   کر  کے    چلو 

  یاں    کے  بہت   یاد   رہو

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

26ویں آئینی ترمیم کے بعد۔۔۔

بالآخر26ویں آئینی ترمیم منظور ہو گئی‘ جس کی منظوری کے بعد اس پر عملدرآمد بھی ہو گیا۔ ترمیم منظور ہونے کے بعد ایک غیریقینی صورتحال کا خاتمہ ہوا اور ملک میں ایک نیا عدالتی نظام قائم کر دیا گیا جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے بڑے اور اہم اختیارات تقسیم کر دیے گئے ہیں۔ آئینی ترمیم کا عمل حیران کن طور پر خوش اسلوبی سے مکمل ہو گیا۔

آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج،بے وقت کی را گنی وکلا ءکا ردعمل کیا ہو گا؟

چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب پر جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی کے عمل کے بعد ملک کے سیاسی محاذ پر ٹھہرائو کے امکانات روشن ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے عمل کو ملک میں ترقی، خوشحالی اور سیاسی و معاشی استحکام کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس عمل سے عوام کیلئے عدل و انصاف کے دروازے کھلیں گے اور ملک آگے کی طرف چلے گا۔

سیاست سے انتقام ختم کریں؟

ملک بھر کے میڈیا پر آج کل صرف ایک ہی خبر اہم ترین ہے اور وہ ہے 26 ویں آئینی ترمیم کے مثبت اور منفی اثرات۔لیکن محلاتی سازشیں ہوں یا چاہے کچھ بھی ہورہا ہو، عوام کا اصل مسئلہ تو یہی ہے کہ انہیں کیا مل رہا ہے۔

پولیس ایکٹ میں تبدیلی سیاسی مداخلت نہیں؟

پاکستان تحریک انصاف مسلم لیگ( ن) پر’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے کو تبدیل کرنے کا الزام لگاتی ہے لیکن خود پی ٹی آئی نے جس طرح یوٹرن لیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔بانی پی ٹی آئی کے نظریے کے برعکس خیبرپختونخوا حکومت نے محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت کی راہ ہموار کردی ہے۔ پولیس ایکٹ 2017ء میں خیبرپختونخوا پولیس کو غیر سیاسی بنانے کیلئے قانون سازی کی گئی تھی اور وزیراعلیٰ سے تبادلوں اورتعیناتیوں سمیت متعدد اختیارات لے کر آئی جی کو سونپ دیئے گئے تھے۔

26ویں آئینی ترمیم،ملا جلا ردعمل

26ویں آئینی ترمیم کو جہاں سیا سی عمائدین پاکستان کے عدالتی نظام میں احتساب اور کارکردگی کو بہتر بنا نے کیلئے ضروری قرار دیتے ہیں وہیں کچھ سیا سی جماعتیں اور وکلاتنظیمیں آئینی ترمیم کوعدالتی آزادی اور قانون کی حکمرانی پر قدغن سمجھتی ہیں۔

وزیراعظم کا انتخاب،معاملہ ہائیکورٹ میں

آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے چوہدری انوار الحق کے بطور وزیر اعظم انتخاب کے خلاف درخواست پر لار جر بنچ تشکیل دے دیا ہے۔ وزیر اعظم کے انتخاب کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے رکن قانون ساز اسمبلی فاروق حیدر کے وکلا نے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی۔