کوئٹہ میں بلدیاتی انتخابات کا دنگل

کوئٹہ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پرانی حلقہ بندیوں کے تحت ہی بلدیاتی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے، جس کا شیڈول بھی آئندہ چند دنوں میں جاری کر دیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق صوبے کے بڑے شہروں میں ووٹرز کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے مگر دور دراز کے علاقوں میں یہ فرق اتنا نمایاں نہیں کہ حلقہ بندیوں پر اس سے اثر پڑے ۔ادھر کوئٹہ میں بلدیاتی انتخابات کا بھی ڈول ڈال دیا گیا ہے۔
کوئٹہ سمیت دو اضلاع کے علاوہ صوبے کے تمام اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے تمام مراحل اس سال جولائی میں مکمل کر لئے گئے تھے مگر کوئٹہ کی باری اب آئی ہے۔ بلدیاتی انتخابات کیلئے شہر کو تین ٹاؤنز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ گزشتہ حکومت میں اس حوالے سے بلدیاتی مسودہ تیار کیا گیا تھا اور گورنر بلوچستان کی منظوری کے بعد اس کی توثیق بھی کر دی گئی ۔اسی مسودے کی تیاری کے باعث صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں بلدیاتی انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے۔کوئٹہ کے چار بلدیاتی زونز میں زرغون، چلتن ،تکتو اور سریاب زون شامل ہیں جہاںچار ٹی ایم سی کی 172یونین کونسلز کے 641وارڈز پر بلدیاتی انتخابات ہوں گے۔ زرغون میں 46یونین کونسل اور 161وارڈز ہیں، چلتن میں 46یونین کونسل اور173وارڈز شامل کئے گئے ہیں، تکتو میں 42یونین کونسل اور162وارڈز جبکہ سریاب میں 38یونین کونسلز اور 145وارڈز شامل ہوں گے۔ کوئٹہ میں بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم کے بعد دیہی علاقوں کو ختم کر کے شہری علاقوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور میٹروپولیٹن کارپوریشن کی سطح پر میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب ہو گا۔ شیڈول کے اعلان کے بعد آئندہ چند روز میں کوئٹہ میں ایک بار پھر سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہو نے جا رہا ہے اور توقع ہے کہ یہاں نئے سیاسی اتحاد دیکھنے کو ملیں گے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ نئے سیاسی اتحاد آئندہ عام انتخابات پر بھی اثر انداز ہوسکتے ہیں ۔ کوئٹہ کے بلدیاتی انتخابات میں جہاں سیاسی و مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کے درمیان اتحاد کا امکان ہے وہیں علاقائی سطح پر بھی نئے اتحاد تشکیل پا سکتے ہیں جن میں قبائلی شخصیات اورسابق بلدیاتی نمائندوں کا کردار اہم ہو سکتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے بعد عام انتخابات کا مرحلہ ہو گا جس میں بلدیاتی انتخابی نتائج کے بعد سامنے آنے والے نمائندوں اور پارٹیوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب رواں ہفتے کے دوران بلوچستان کی نگران صوبائی کابینہ کا ایک اجلاس بھی منعقد ہوا جس میں صوبائی حکومت نے اپنے اخراجات میں کمی کا فیصلہ کرتے ہوئے سابق وزرا سے سرکاری گاڑیوں کی واپسی اور محکموں کے سیکرٹریز کے زیر استعمال سرکاری گاڑیوں کو بھی کم کرنے کا فیصلہ کیا ۔صوبائی کابینہ نے کرنسی اور ایرانی تیل کی سمگلنگ کی روک تھام کے فیصلے کی بھی توثیق کی اور کہا کہ اس حوالے سے صوبے میں بلا تفریق کارروائیاں کی جائیں گی۔ نگران صوبائی کابینہ نے بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے اور پولیس اور لیویز کی استعدادِ کار بڑھا نے اور امن و امان پر خرچ ہونے والی رقم پر بھی نظر ثانی کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ نصیر آباد میں خواتین پولیس سٹیشن کے قیام اور خاران میں ڈیم کے تعمیراتی اخراجات میں اضافے کی بھی منظوری دی گئی ہے۔ وفاقی حکومت کے ایک منصوبے کے تحت صوبے میں ٹیوب ویلز کو سولر پینل پر منتقل کرنے کے لیے900 ملین روپے کا تخمینہ لگایا گیا تھا جس کے تحت ایک تہائی رقم بلوچستان حکومت اور ایک تہائی رقم وفاقی حکومت اورایک تہائی رقم کسانوں نے ادا کرنی تھی۔ نگران کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سلسلے میں وفاقی حکومت سے رجوع کیا جائے کہ کسانوں کے ذمہ ایک تہائی رقم بلوچستان کے وفاق کے ذمہ واجب الادا رقم سے وصول کر لی جائے تاکہ کسانوں کو ریلیف مل سکے۔ کابینہ نے اپنے اجلاس میں یہ بھی واضح کیا کہ حکومت بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کے تحت 91ہزار پنشنرز کو ایک اعشاریہ چھ ارب روپے ادا کرنا صوبائی حکومت کے لیے مشکل ہے۔ حکومت عارضی طور پر تو ریلیف دے سکتی ہے ، اس حوالے سے صوبائی حکومت سپریم کورٹ سے بھی رجوع کرے گی۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ بلوچستان کی سیاست ہمیشہ سے مرکز کی سیاست کے زیر اثر رہی ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ صوبے کی نگران کابینہ، جس کے حوالے سے یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ اس میں سیاسی طورپر ساتھ دینے والی پارٹیوں کے لوگ نظر آئیں گے ،ایسا نہیں ہوا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق چونکہ اس وقت تک مرکز میں سیاسی صورتحال پر پھیلی گرد ہٹی نہیں اور جب تک وہاں معاملات کسی کروٹ نہیں بیٹھ جاتے بلوچستان کی سیاسی دیگ میں بھی ابال کے امکانات کم نہیں ہوں گے۔ قومی سطح کی بڑی سیاسی جماعتوں جس میں پاکستان پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ( ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف)شامل ہیں ۔ ان کا بلوچستان کی سیاست پر گہرا اثر رہا ہے اور یہ جماعتیں ہمیشہ سے بلوچستان کی سیاست پر غالب رہی ہیں،جبکہ قوم پرست جماعتیں جن میں بی این پی، پشتونخواملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی، بی این پی عوامی، اے این پی اور ان جماعتوں کے ساتھ بڑی جماعتوں نے الائنس کر کے حکومتیں بنائیں ۔ سال2018ء کے عام انتخابات میں بلوچستان عوامی پارٹی (BAPُؓٓ) وجود میں آئی اور اس کا یہ دعویٰ تھا کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو غالب نہیں آنے دیا جائے گا بلکہ بلوچستان عوامی پارٹی خود ملک کے دیگر صوبوں تک بھی وسعت دینے میں کامیاب ہو گی، تاہم ایسا ہوتا نظر نہیں آیا۔BAP ،جو 2018ء کے عام انتخابات میں بڑی جماعت بن کر ابھری تھی وہ خود اپنے ہی لوگوں کے اختلافات کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کوئٹہ میں آنے والے بلدیاتی انتخابات اور اس کے بعد عام انتخابات میں بلوچستان عوامی پارٹی اپنی جیت کے تسلسل کو کامیاب رکھ پاتی ہے یا نہیں۔