عام انتخابات،لیول پلینگ فیلڈ اور نواز شریف کی واپسی

تحریر : سلمان غنی


ملکی سیاست میں سیاسی ہلچل شروع ہے اور لگتا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے انتخابات کی تاریخ ملنے سے پہلے ہی اپنی اپنی سطح پر انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے۔سابق وزیر اعظم نواز شریف 21اکتوبر کو پاکستان آنے کا اعلان کرچکے ہیں اور ان کی آمدکے اعلان کے ساتھ ہی مسلم لیگ( ن) میں بھی جوش و جذبہ دکھائی دے رہا ہے۔

پہلے ہی کہا جارہا تھا کہ عام انتخابات سے قبل  نواز شریف کو واپس آکر انتخابی مہم چلانا ہوگی کیونکہ مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک نواز شریف کی سیاست سے جڑا ہے ۔سابق وزیر اعظم شہباز شریف بھی برملا کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف ہی مسلم لیگ (ن) کی جانب سے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہوں گے۔مسلم لیگ (ن) او ربالخصوص مریم نواز نے نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے سیاسی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں ۔  اگرچہ کچھ لوگوں کو ابھی بھی شک ہے کہ کیا واقعی نواز شریف واپس آئیں گے او ر ان کی آمد کسی بڑی طاقت کی ضمانت کے بغیر ممکن ہوگی یا وہ کسی ڈیل کے تحت ملک واپس آرہے ہیں؟مگر یوں لگتا ہے کہ نواز شریف کی واپسی نے پیپلزپارٹی کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔لیکن ان کی واپسی میں جو بھی قانونی رکاوٹیں ہوں یا انہیں جیل ہی کیوں نہ جانا پڑے،نواز شریف ہر قیمت پر وطن واپس آنے کا تہیہ کر چکے ہیں، جیسا کہ انہوں نے خود کہا ہے کہ وہ سب کچھ برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں اور ان کی واپسی کا پروگرام تبدیل نہیں ہوگا۔دوسری طرف بلاول بھٹو شکوہ کررہے ہیں کہ بڑے فیصلے کرنے والی طاقتوں کی جانب سے ان کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کو زیادہ سہولت دی جارہی ہے۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین مسلسل کہہ رہے ہیں کہ (ن) لیگ کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کو انتخابی عمل میں لیول پلینگ فیلڈ نہیں دی جارہی۔ اس طرح مسلم لیگ( ن) او ربالخصوص پیپلزپارٹی کی جانب سے ایک دوسرے پر سیاسی تنقیدبھی شروع ہے اور پیپلزپارٹی کا رویہ مسلم لیگ (ن) کے بارے میں جارحانہ محسوس ہوتا ہے۔ 

مسلم لیگ (ن) نے بھی جوابی وار کیا تھا مگر نواز شریف کی ہدایت پر پیپلزپارٹی کے خلاف تنقید بند کردی گئی۔ نواز شریف کا مؤقف ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو پیپلز پارٹی سے الجھنے کی بجائے اپنی توجہ انتخابی مہم پر رکھنی چاہیے۔ دراصل بلاول بھٹو زرداری کو لگتا ہے کہ انہیں مسلم لیگ( ن) کے مقابلے میں دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے، بلوچستان او رجنوبی پنجاب میں جو لوگ پیپلزپارٹی میں شامل ہونا چاہتے تھے ان کو بھی شامل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو یہ بھی گلہ ہے کہ سندھ ، پنجاب اور وفاق کی سطح پر جو نگران حکومتیں بنی ہیں وہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہی کا تسلسل ہیں اور مسلم لیگ (ن) کو انتخابی عمل میں سہولت کا ری کا کردار ادا کررہی ہیں۔صرف پیپلز پارٹی ہی نہیں سندھ میں ایم کیو ایم اور اسی طرح پی ٹی آئی بھی لیول پلینگ فیلڈ کا مطالبہ کررہی ہے او ران کو لگتا ہے کہ انتخابات سے پہلے ایک سیاسی جماعت کی حمایت اور انتخابی عمل کو متنازع بنایا جارہا ہے۔پیپلزپارٹی سمجھتی تھی کہ پی ٹی آئی پر مختلف نوعیت کی پابندیوں او رمسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت کی کارکردگی پر عوامی تنقید کا سیاسی فائدہ پیپلزپارٹی کو ہوگا لیکن لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی اور مقتدرہ کے درمیان کئی معاملات پر اتفاق نہیں ہو سکا ۔ بظاہریہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی او ربالخصوص بلاو ل بھٹو تنقید کررہے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو میں یہ طے ہوا ہو کہ آصف زرداری مفاہمت اور بلاول مزاحمت کی سیاست کا کارڈ کھیلیں،لیکن اہم بات یہ ہے کہ انتخابات کے ہنگام پیپلزپارٹی او رمسلم لیگ( ن) میں سیاسی لڑائی ہو تو ایک بار پھر 90ء کی دہائی کی سیاست لوٹ آئے گی۔ اسی طرح پی ٹی آئی کا معاملہ بھی اہم ہے اور دیکھنا ہوگا کہ پی ٹی آئی کو انتخابات میں حصہ لینے کا موقع کس حد تک ملتا ہے کیونکہ ابھی تک تو پی ٹی آئی دیوار سے لگی ہوئی ہے ، اس کو کسی بھی طرح سے سیاسی سرگرمیوں کاموقع نہیں مل رہا  اوراس جماعت کی ساری قیادت جیل میں یا روپوش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے لیول پلینگ کے مطالبے میں وزن ہے ، دیکھنا ہوگا کہ اگلے انتخابات میں پی ٹی آئی کہاں کھڑی ہوتی ہے۔پیپلزپارٹی کی ایک تنقید یہ بھی ہے کہ نگران حکومتیں مسلم لیگ (ن) کے لیے سہولت کاری کا کردار ادا کررہی ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کا مؤقف ہے کہ نگران حکومتوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں او راگر پیپلزپارٹی کو ان حکومتوں سے شکایت ہے تو وہ الیکشن کمیشن سے رابطہ کرے۔ بہرحال بلاول بھٹو کو لگ رہا ہے کہ مفاہمت کی سیاست کا ایجنڈا انہیں انتخابی مہم میں کوئی فائدہ نہیں دے سکے گا۔ انہوں نے آصف علی زرداری کو بھی یہ پیغام دیا ہے کہ یا تو کوئی راستہ نکالیں یا انہیں موقع دیں کے وہ اپنی مرضی کی سیاست کریں۔بطاہر یہی بلاول بھٹو کے لہجے میں تلخی کا اصل سبب ہے۔

نواز شریف کی واپسی کی صورت میں ان کے سامنے ایک طرف سیاسی حالات کا چیلنج ہوگا تو دوسری طرف قانونی محاذ پر بھی انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) کی قانونی ٹیم کا کہنا ہے کہ جو بھی قانونی رکاوٹیں تھیں وہ کافی حد تک ختم ہوچکی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ نواز شریف مینار پرجلسے سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کریں گے۔ مسلم لیگ (ن) کی کوشش ہے کہ مینار پاکستان پر تاریخی جلسہ ہونا چاہیے ، جلسہ ناکام ہونے کی صورت میں نواز شریف فیکٹر مسلم لیگ (ن) کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔نواز شریف کے لیے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ شہباز شریف کی حکومت میں عوامی مشکلات میں بدترین اضافے کی وجہ سے لوگ مسلم لیگ (ن)سے نالاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابی مہم میں (ن) لیگ کا بیانیہ کیا ہوگا اسی پر سوچ بچار جاری ہے۔انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے بات کی جائے تو زیادہ تر سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن سے فوری طور پر انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ اس سے فیصلہ کرنے والوں پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ مسئلے کا حل انتخابات سے ہی جڑا ہوا ہے،انتخابات میں تاخیر سے ملک میں سیاسی عدم استحکام بھی بڑھے گا اور معاشی بدحالی بھی۔اس لیے گیند الیکشن کمیشن کے کورٹ میں ہے کہ وہ کب انتخابات کا تاریخ کا علان کرتا ہے تاکہ ابہام ختم ہو۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا!

’’میں محمد ہوں، احمد ہوں اور آخر میں آنے والا ہوں، حاشر ہوں اور نبی التوبہ ہوں( یعنی آپ کی وجہ سے کثیر خلقت توبہ کرے گی) اور نبی الرحمہ ہوں(یعنی آپ کی وجہ سے انسان بہت سی رحمتوں سے نوازے گئے اور نوازے جائیں گے) ‘‘( صحیح مسلم) ’’اللہ اس بندے پر رحم فرمائے جو بیچتے وقت نرمی کرتا ہے، خریدتے وقت نرمی کرتا ہے اور جب تقاضا کرتا ہے تو نرمی کرتا ہے‘‘(ابن ماجہ) آپ ﷺ نے اپنے موثر انداز تعلیم سے دنیا والوں کی کایا پلٹ دی، راہزنوں کو رہبر بنا دیا اور شرک کے پجاریوں کو توحید کی دولت سے مالامال کر دیا

تم میں سے ہر ایک جوا بدہ ہے!

’’ ہر شخص نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘ عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولادکی نگہبان ہے اور اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘(صحیح بخاری )

ایفائے عہد ایمان کی نشانی

’’اور تم عہد کو پورا کیا کرو بیشک عہد کے بارے میں قیامت کے دن پوچھا جائے گا‘‘(سورہ بنی اسرائیل)

مسائل اور ان کا حل

بیوی کو آزاد اور چھوڑنے کا لفظ کہنے سے طلاق کا معاملہ سوال: شوہر نے بیوی کو کہا کہ تم میری طرف سے آزاد ہو اور کچھ دنوں بعد اس نے جھگڑے کے دوران کہا میں نے تمہیں چھوڑ دیا۔ ان الفاظ سے شرعی طور پر طلاق ہونے یا نہ ہونے کا مسئلہ بتا دیں (محمد ابراہیم، کراچی)

سرطان کے دوران اور علاج کے بعد مفید پھل

یہ امر راز نہیں رہا کہ غذا سرطان کے امکان پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی درست ہے کہ سرطان کے علاج کے بعد بحالی میں صحت مند غذا کا اہم کردار ہوتا ہے۔ پھلوں سمیت بعض غذاؤں سے ٹیومر کی نمو سست پڑ جاتی ہے اور سرطان کے علاج سے پیدا ہونے والے ذیلی اثرات کم کرنے میں مدد ملتی ہے جس سے بحالی کی راہ آسان ہو جاتی ہے۔

پیٹ کے سرطان کی 5 پیشگی علامتیں

سرطان کی کوئی قسم اچانک منٹوں میں رونما نہیںہوتی،اس کی کئی علامتیں وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتی رہتی ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ فرد ان علامتوں کو پہچانے کیسے؟ کیونکہ بخار، پیٹ درد، قے، پیٹ میں جلن وغیرہ ایک نہیں کئی امراض کی علامتیں ہو سکتی ہیں۔