شاعر،متشاعراوراستادشاعر

تحریر : سید ضیاحسین


استاد شاعروں کا فرض ہے اپنے شاگردوں کو وزن کے ساتھ عیوب سے پاک شاعری کرنے کی مشق کروائیں

بعض لوگ فطری طور پر توشاعر نہیں ہوتے لیکن کسی نہ کسی وجہ سے انہیں شاعر بننے یا کہلانے کا شوق ہوتا ہے۔ایسے افراد کسی استاد شاعر سے شاعری کے ابتدائی قواعد و ضوابط اور تھوڑا بہت علمِ عروض سیکھتے ہیں اور پھر شعر کہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بقول کسے وہ ہاتھ میں ترازو پکڑ لیتے ہیں جس کے ایک پلڑے میں باٹ رکھتے ہیں اور دوسرے پلڑے میں الفاظ ڈالتے چلے جاتے ہیں،جہاں وزن پورا ہوا، ان کا مصرع اور پھر شعر تیار ہو گیا۔ اسے کاغذ پر منتقل کیا اور دوسرے شعر کی تیاری میں لگ گئے۔یوں وہ وزن میں شعر کہنا شروع تو کر دیتے ہیں مگر ان شعروں میں کوئی خاص بات نہیں ہوتی۔ بس بے مقصد اشعار اور غزلیں کہے چلے جاتے ہیں۔  ایسے لوگ متشاعر کہلاتے ہیں۔ بعض زود گو شاعر بھی یہی کچھ کر رہے ہیں۔ ان کی کتابوں کے ڈھیر میں سے چند شعر ہی قابلِ توجہ نکل پاتے ہیں۔کچھ لوگوں نے علمِ عروض کے ماہر کے نام پر تو بڑی شہرت پائی مگر ان کا کلام شہرتِ دوام حاصل نہ کر سکا۔ایسے افراد کو عموماً عروضی کہا جاتا ہے۔اس کے بر عکس کئی شعرا ایسے بھی ہیں جنہیں علمِ عروض کی کوئی خاص شدبد نہیں مگر شاعری کی دنیا میں ان کا ایک نام ہے اور بہت اچھا کلام کہہ رہے ہیں۔

بعض خواتین و حضرات ایسے بھی ہیں جو متشاعرکہلانے کے بھی حق دار نہیں ۔ انہیںشاعر بننے کا نہیں ، بس شاعر کہلوانے کا شوق ہوتا ہے۔ ان کا مقصد شعر و ادب کی محافل میںحاضر ہو کر بطورِ شاعرخود کو متعارف کرانا اور شہرت حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ایسے افراد کسی طرح کا بھی شعر کہنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔یہ کسی شاعر سے کلام لکھواتے ہیں یا پھرکسی دوسرے کا کلام چوری کرکے اپنے نام سے پڑھتے ہیں۔

شاعر اور استاد شاعر میںبھی کافی فرق ہے۔ خود اچھا شعر کہنا ایک بات ہے اورکسی دوسرے کو اچھا شعر کہنے کی تعلیم دینا ، اس کے کلام کے نقائص کی نشاندہی کرکے اس کی اصلاح کرنا اور اسے اچھا  شعر کہنے کے قابل بنانا دوسری بات ہے۔ جس طرح ہر پڑھا لکھا شخص اچھا استاد نہیں ہو سکتا،  اسی طرح ہر اچھا شاعر استادشاعر نہیں بن سکتا۔ہم بہت سے ایسے شعراء کو جانتے ہیں جن کا شاعری کے میدان میںتو بڑا نام ہے مگر ان کا کوئی شاگرد نہیں۔یوں بھی روایتی استادی شاگردی کا اب زمانہ نہیں رہا۔ مغل بادشاہوںکے دور میںادب پروری کو عروج حاصل تھا۔ اکثر بادشاہوں اور نوابین کے درباروں میںیا ان کی سرپرستی میں مشاعروں کا انعقاد ہوتا تھا ۔شاعر لوگ معاشی فکروں سے آزاد تھے۔ ان کے وظائف مقرر تھے۔ قصیدہ گوئی پر بھی انعام و اکرام سے نوازا جاتا تھا۔مشاعروں میں ہر شاعر کے شاگرد اپنے استاد کو خوب داد سے نوازتے تھے۔یوںکسی شاعرکے شاگردوں کی تعداد کا زیادہ ہونا اس شاعر کے بڑا ہونے کی ایک دلیل کے طور پر لیا جاتا تھا۔ ان وجوہات کے باعث استادی شاگردی کا چلن عام تھا۔بعد کے ادوار میں بالخصوص تقسیم بر صغیرکے بعد سوائے چند کامیاب فلمی شاعروں کے، شاعری ذریعہ معاش نہ رہی۔ اب شاعر کو روزی روٹی کیلئے بہت تگ و دو کرنی پڑ رہی ہے لہٰذااب مفت میںشاگردوں کو شاعری کی تعلیم دینے اور ان کی اصلاح کرنے کیلئے وقت نکالنا استاد شاعروں کیلئے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔شاعری کے اسرار و رموز سیکھنے کیلئے شاگرد بھی اس طرح کی مشقت کیلئے تیار نہیں۔علامہ ذوقی مظفر نگری کے شاگردوں سے سنا ہے کہ جب ان کاکوئی شاگرد اپنی کوئی غزل لکھ کران کے پاس لے جاتا تھا اور ان کوسناتا تھا تو اگر انہیں وہ غزل پسند نہیں آتی تھی تووہ اسے پھاڑکر پھینک دیا کرتے تھے۔ اب ایساکون شاگرد ہو گا جو اپنے استاد کو ایسا کرنے کی اجازت دے گا۔ اب شاگردوں کے پاس بھی وقت نہیں۔ وہ بھی اس چکر میں رہتے ہیںکہ غزل لکھ کر استاد کو واٹس ایپ کر دی جائے اور اصلاح شدہ غزل اسی طرح واپس مل جائے۔

وہ افراد جو نہ تو فطری طور پر شاعر ہیں اور نہ ہی شاعر بننے کی مشق سے گزرنا چاہتے ہیں بلکہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ وہ شاعرکے طور پر جانے جائیں ، ان کی مدد کیلئے ایسے ا ساتذہ بھی موجود ہیں جو مناسب معاوضے کے عوض انہیں غزلیں لکھ کر دے دیتے ہیں۔اس طرح ان استاد شاعروںکی مالی مشکلا ت کا حل نکل آتا ہے اور ان کے گاہکوں کا بھی کام بن جاتا ہے۔اس کام کو کورے کاغذ پر اصلاح دینے کا نام دیا گیا ہے۔اس سارے عمل کے نتیجے میں ایک بھی شعر نہ کہہ سکنے والے( اور والیاں)صاحبانِ دیوان بن چکے ہیں۔یہ الگ بات کہ ایسے نام نہاد شاعر(اور شاعرات) درست طریقے سے شعر پڑھ بھی نہیںسکتے۔ بعض الفاظ کا تلفظ اس حد تک غلط ادا کیا جاتا ہے کہ صاف پتا چل جاتا ہے کہ کسی کا لکھا ہوا کلام پڑھاجارہا ہے۔ ان کے اساتذہ کا  فرض ہے کہ غزلیں لکھ کر دینے کے ساتھ ساتھ کم از کم ان کو یہ غزلیں پڑھنے کی مشق ہی کروا دیا کریں۔ اس سلسلے میں اب تو ون ونڈو آپریشن کی سہولت بھی مہیا ہو گئی ہے۔ یعنی آپ صرف رقم ادا کریں تو آپ کو آپ کے نام سے پورا  شعری مجموعہ چھپ کرتیار مل جائے گا۔

آخر میں استاد شاعروں کی خدمت میں دست بستہ عرض ہے کہ وہ کسی کو شاگرد بنانے سے پہلے دیکھ لیا کریں کہ موصوف یا موصوفہ میںشاعری کرنے کے جراثیم موجود ہیں بھی یا نہیں۔اپنے شاگردوں کو وزن میں اور عیوب سے پاک شاعری کرنے کی تعلیم دیں ، مشق کروائیں اور ان کے کلام کی اصلاح کرتے ہوئے انہیں بتائیں کہ مذکورہ شعر میں کیا خامی تھی۔ کورے کاغذ پہ اصلاح دینا ادب کے ساتھ سراسر زیادتی ہے ۔ اس سے اجتناب ہی کرنا چاہیے۔ اِسی میں اِن کی بھی بھلائی ہے اور ادب کی بھی۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

26ویں آئینی ترمیم کے بعد۔۔۔

بالآخر26ویں آئینی ترمیم منظور ہو گئی‘ جس کی منظوری کے بعد اس پر عملدرآمد بھی ہو گیا۔ ترمیم منظور ہونے کے بعد ایک غیریقینی صورتحال کا خاتمہ ہوا اور ملک میں ایک نیا عدالتی نظام قائم کر دیا گیا جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے بڑے اور اہم اختیارات تقسیم کر دیے گئے ہیں۔ آئینی ترمیم کا عمل حیران کن طور پر خوش اسلوبی سے مکمل ہو گیا۔

آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج،بے وقت کی را گنی وکلا ءکا ردعمل کیا ہو گا؟

چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب پر جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی کے عمل کے بعد ملک کے سیاسی محاذ پر ٹھہرائو کے امکانات روشن ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے عمل کو ملک میں ترقی، خوشحالی اور سیاسی و معاشی استحکام کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس عمل سے عوام کیلئے عدل و انصاف کے دروازے کھلیں گے اور ملک آگے کی طرف چلے گا۔

سیاست سے انتقام ختم کریں؟

ملک بھر کے میڈیا پر آج کل صرف ایک ہی خبر اہم ترین ہے اور وہ ہے 26 ویں آئینی ترمیم کے مثبت اور منفی اثرات۔لیکن محلاتی سازشیں ہوں یا چاہے کچھ بھی ہورہا ہو، عوام کا اصل مسئلہ تو یہی ہے کہ انہیں کیا مل رہا ہے۔

پولیس ایکٹ میں تبدیلی سیاسی مداخلت نہیں؟

پاکستان تحریک انصاف مسلم لیگ( ن) پر’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے کو تبدیل کرنے کا الزام لگاتی ہے لیکن خود پی ٹی آئی نے جس طرح یوٹرن لیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔بانی پی ٹی آئی کے نظریے کے برعکس خیبرپختونخوا حکومت نے محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت کی راہ ہموار کردی ہے۔ پولیس ایکٹ 2017ء میں خیبرپختونخوا پولیس کو غیر سیاسی بنانے کیلئے قانون سازی کی گئی تھی اور وزیراعلیٰ سے تبادلوں اورتعیناتیوں سمیت متعدد اختیارات لے کر آئی جی کو سونپ دیئے گئے تھے۔

26ویں آئینی ترمیم،ملا جلا ردعمل

26ویں آئینی ترمیم کو جہاں سیا سی عمائدین پاکستان کے عدالتی نظام میں احتساب اور کارکردگی کو بہتر بنا نے کیلئے ضروری قرار دیتے ہیں وہیں کچھ سیا سی جماعتیں اور وکلاتنظیمیں آئینی ترمیم کوعدالتی آزادی اور قانون کی حکمرانی پر قدغن سمجھتی ہیں۔

وزیراعظم کا انتخاب،معاملہ ہائیکورٹ میں

آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے چوہدری انوار الحق کے بطور وزیر اعظم انتخاب کے خلاف درخواست پر لار جر بنچ تشکیل دے دیا ہے۔ وزیر اعظم کے انتخاب کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے رکن قانون ساز اسمبلی فاروق حیدر کے وکلا نے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی۔