مریم نواز کی حکومت کے سو دن،کیا ڈیلیورکرپائیں؟

تحریر : سلمان غنی


قومی سیاست پر نظر دوڑائیں تو کوئی دن نہیں جا تا کہ کہا جا سکے کہ اس محاذ پر ٹھہرائو آ گیا ہے۔ اہل سیاست عوام میں امید پیدا کرنے کی بجائے اپنے طرز عمل سے درجہ حرارت میں اضافہ کر رہے ہیں اور اس کا نقصان ملک و قوم اور خصوصاً ملکی معیشت کو ہو رہا ہے۔

حال ہی میں بانی پی ٹی آئی کی ایک ٹویٹ، جس میں مشرقی پاکستان کے حالات کا موازنہ پاکستان کے موجودہ حالات سے کیا گیا تھا، اُس نے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا، اس پر عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور خود پی ٹی آئی کے سنجیدہ حلقے بھی یہ کہتے نظر آئے کہ نوبت یہاں تک نہیں آنی چاہئے تھی۔لیکن آج کی بڑی حقیقت یہی ہے کہ جمہوری حکومتوں کے قیام کے باوجود ملک میں استحکام نہیں آ رہا۔ سب سیاست میں مفاہمت کے دعویدار ہیں مگر کوئی بھی اس حوالے سے سنجیدہ  نظر نہیں آتا۔ حکومت معاشی محاذپر تو سرگرم نظر آ رہی ہے مگر سیاسی استحکام کے حوالے سے اس کا بھی کوئی کردار نظر نہیں آ تا۔ دوسری جانب پی ٹی آئی خود اپنی سیاست بارے بڑے سوالات اٹھاتی دکھائی دے رہی ہے، مگر اس طرز عمل اور اندازِ سیاست سے وہ سرخرو ہو پائے گی؟ اگر ہر مسئلہ کا انجام بیٹھ کر ہی نکلتا ہے تو ایک دوسرے پر چڑھ دوڑنے اور ایک دوسرے کو گرانے کیلئے  زور آزمائی کیوں؟ اب بھی وقت ہے کہ سیاستدان نوشتۂ دیوار پڑھ لیں ۔

مگران حالات میں پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نوازشریف سیاسی معاملات میں الجھنے کی بجائے اپنی حکومتی کارکردگی کیلئے سرگرم ہیں ۔کوئی دن ایسا نہیں کہ وہ کسی حکومتی ادارے کا دورہ نہ کریں، کارکردگی پر باز پرس نہ کریں یا کسی نئے منصوبہ کا افتتاح نہ کریں۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ یہ جان چکی ہیں کہ سیاسی محاذ پر بڑھتے تنائو کا حصہ بننے کی بجائے اگر وہ عوام کیلئے کچھ کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں تو ان کی حکومتی کارکردگی بھی بڑھے گی اور جماعتی پوزیشن بھی مستحکم ہو گی۔ بلاشبہ انہوں نے  جن حالات میں اقتدار سنبھالا وہ ساز گار نہ تھے لیکن معاشی مشکلات کے باوجود وہ عوامی محاذ پر سرگرم نظر آ رہی ہیں ۔پنجاب  کی وزیر اعلیٰ نے اپنے اقتدار کے پہلے 100 دنوں میں 43بڑے منصوبوں کا افتتاح کیا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ ان سو روز کے دوران وہ پنجاب کے بنیادی مسائل خصوصاً مہنگائی، بے روزگاری، صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ ، امن عامہ اورنوجوان نسل کے احساس محرومی کے خاتمہ کیلئے سرگرم رہی ہیں۔ ابھی تک اگر ان کی کسی ایک محاذ پر کامیابی کو سراہا جا سکتا ہے تو وہ مہنگائی میں ہونے والی کمی ہے۔ انہوں نے بڑھتی مہنگائی کے آگے نہ صرف بند باندھا ہے بلکہ مہنگائی کی وجوہات خصوصاً ذخیرہ اندوزی، منافع خوری اور مڈل مین کے کردار پر قدغن لگائی ہے۔ مہنگائی کا مسئلہ دراصل گورننس کا مسئلہ ہے اور گورننس کو بہتر بنا کر اس کو سدھارا جا سکتا ہے۔ نئی حکومت بننے کے بعد اشیائے ضروریات خصوصاً آٹا، چینی، دالیں، سبزیاں، خوردنی تیل سمیت دیگر اشیاکی قیمتوں پر فرق پڑا ہے اور کسی حد تک عوامی سطح پر سکون نظر آ رہا ہے۔ اپنی حکومتوں کے ثمرات عام آدمی تک پہنچانا  شریف قیادت کی ترجیحات میں ہمیشہ رہاہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عام آدمی کا چولہا جلتا رہے، اس کیلئے روٹی دال کا بندوبست اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی یقینی بن جائے تو یہ حکومتوں کا بڑا اعزاز ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نوازشریف اور شہبازشریف بھی پنجاب کے وزارت اعلیٰ کے دور میں ڈیلیور کرتے نظر آئے اور اس صوبہ میں ان کی کارکردگی ہی انہیں وزارت عظمیٰ تک لے کرگئی ۔ اس بنا پر بھی یہ کہاجاتا ہے کہ اسلام آباد کا راستہ لاہور سے ہو کر جاتا ہے ۔ مریم نواز صاحبہ بھی پنجاب میں اپنی توجہ عوام کو ڈیلیور کرنے پر مرکوز کئے ہوئے ہیں۔

18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو بہت سے وسائل اور اختیار ملنے سے ان کیلئے کام کرنے اوراپنی کارکردگی دکھانے کیلئے بہت کچھ میسر ہے لیکن یہ تبھی ہوگا جب صوبائی حکومتیں خود کو اپنے اصل مقاصد تک محدود رکھتے ہوئے عوام کو ڈیلیور کریں۔8  فروری کے انتخابی نتائج بارے تحفظات اپنی جگہ لیکن ان انتخابات کی ایک اہم بات یہ ہے کہ تینوں بڑی جماعتوں کو مسائل  کے حل کے ساتھ اپنی کارکردگی دکھانے کیلئے ایک ایک صوبہ ملا ہے۔خیبر پختونخوا پی ٹی آئی کے پاس ہے، پیپلزپارٹی سندھ کی حکمران جماعت ہے اور پنجاب مسلم لیگ (ن) کے پاس آیا ہے، لہٰذا گیند صوبائی حکومتوں کی کورٹ میں ہے اور انہیں اپنے طرز عمل، طریقہ کار اور اقدامات سے دکھانا ہو گا کہ انہوں نے اپنے صوبوں کیلئے کیا کیا۔ مہنگائی کے خاتمہ کی ذمہ داری صوبوں کی ہے اور صوبوں نے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو قابو میں رکھنے کیلئے گورننس یقینی بنانی ہے۔ پنجاب کے محاذ پر کہا جا سکتا ہے کہ مریم نواز صاحبہ خود کو جواب دہ سمجھتی ہیں اور ان میں یہ تحریک بھی نظر آتی ہے کہ اپنی کارکردگی سے خود کو منوانا ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ وہ اس میں کیسے سرخرو ہوتی ہیں۔

سابق صدر مملکت اور تحریک انصاف کے مرکزی رہنما ڈاکٹر عارف علوی کا شمارپارٹی کے ان رہنمائوں میں ہوتا ہے جو شروع ہی سے تنائو اور ٹکرائو کے بجائے ملک کی فیصلہ ساز قوتوں سے بنا کر چلنے کے خواہاں ہیں۔ ایوان صدر میں بیٹھ کر بھی انہوں نے کاوشیں کیں مگر انہیں کامیابی نہ مل سکی۔ سابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اس ڈیڈ لاک کے خاتمہ کیلئے اب بھی سرگرم عمل نظر آ تے ہیں اور پارٹی لیڈر شپ کی ہدایت پر وہ اپنی جماعت کے ذمہ داروں سے بھی رابطوں میں ہیں۔ صدر مملکت کے منصب سے فراغت کے بعد اب وہ پارٹی محاذ پر سرگرم ہیں اور غیر اعلانیہ طور پر ان کے پاس پاکستان کی مقتدرہ سے رابطوں کی ذمہ داری بھی ہے ۔ وہ یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ میرا کام دروازہ کھٹکھٹانا اور کھٹکھٹاتے ہی چلے جانا ہے ،بالآخر دروازہ کھلنا ہے، مگر وہ ان کوششوں کے ساتھ یہ بھول جاتے ہیں کہ ڈیڈلاک کیونکر پیدا ہوا؟ اس کی ذمہ داری کس پر ہے؟ رواں ہفتے صوبائی دارالحکومت لاہور میں اُن کی سرگرمیاں خالصتاً جماعتی تھیں،وہ سروسز ہسپتال لاہور میں پارٹی کے ایک اسیر رہنما میاں محمود الرشید کی عیادت کیلئے بھی گئے مگر انہیں ملاقات کی اجازت نہ ملی ،البتہ ان کی پارٹی رہنمائوں سے ملاقاتیں ہوئیں جن میں ان کا زور مشکلات سے نجات کیلئے سیاسی طرز عمل اختیار کرنے پر رہا، البتہ واقفانِ حال سابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی مذکورہ سرگرمیوں کو بڑے سیاسی کھیل کا حصہ سمجھتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ مقتدرہ سے اپنے تعلقات سے سابق صدر مملکت اپنی سیاسی قیادت کی مشکلات سے نجات اور اپنی پارٹی کے فعال کردار کے حوالے سے سرگرم ہیں۔ کیا وہ اپنے اس مشن میں کامیاب رہیں گے ؟یہ دیکھنا ہو گا، البتہ وہ یہ ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ بالآخر معاملات ڈائیلاگ سے ہی حل ہوں گے اور ڈائیلاگ کا عمل کارگر بھی ہوتا ہے ،تا ہم معاملات ملک کے مفادات میں طے کریں نہ کہ اپنے سیاسی مفادات کو ترجیح دیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

26ویں آئینی ترمیم کے بعد۔۔۔

بالآخر26ویں آئینی ترمیم منظور ہو گئی‘ جس کی منظوری کے بعد اس پر عملدرآمد بھی ہو گیا۔ ترمیم منظور ہونے کے بعد ایک غیریقینی صورتحال کا خاتمہ ہوا اور ملک میں ایک نیا عدالتی نظام قائم کر دیا گیا جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے بڑے اور اہم اختیارات تقسیم کر دیے گئے ہیں۔ آئینی ترمیم کا عمل حیران کن طور پر خوش اسلوبی سے مکمل ہو گیا۔

آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج،بے وقت کی را گنی وکلا ءکا ردعمل کیا ہو گا؟

چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب پر جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی کے عمل کے بعد ملک کے سیاسی محاذ پر ٹھہرائو کے امکانات روشن ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے عمل کو ملک میں ترقی، خوشحالی اور سیاسی و معاشی استحکام کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس عمل سے عوام کیلئے عدل و انصاف کے دروازے کھلیں گے اور ملک آگے کی طرف چلے گا۔

سیاست سے انتقام ختم کریں؟

ملک بھر کے میڈیا پر آج کل صرف ایک ہی خبر اہم ترین ہے اور وہ ہے 26 ویں آئینی ترمیم کے مثبت اور منفی اثرات۔لیکن محلاتی سازشیں ہوں یا چاہے کچھ بھی ہورہا ہو، عوام کا اصل مسئلہ تو یہی ہے کہ انہیں کیا مل رہا ہے۔

پولیس ایکٹ میں تبدیلی سیاسی مداخلت نہیں؟

پاکستان تحریک انصاف مسلم لیگ( ن) پر’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے کو تبدیل کرنے کا الزام لگاتی ہے لیکن خود پی ٹی آئی نے جس طرح یوٹرن لیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔بانی پی ٹی آئی کے نظریے کے برعکس خیبرپختونخوا حکومت نے محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت کی راہ ہموار کردی ہے۔ پولیس ایکٹ 2017ء میں خیبرپختونخوا پولیس کو غیر سیاسی بنانے کیلئے قانون سازی کی گئی تھی اور وزیراعلیٰ سے تبادلوں اورتعیناتیوں سمیت متعدد اختیارات لے کر آئی جی کو سونپ دیئے گئے تھے۔

26ویں آئینی ترمیم،ملا جلا ردعمل

26ویں آئینی ترمیم کو جہاں سیا سی عمائدین پاکستان کے عدالتی نظام میں احتساب اور کارکردگی کو بہتر بنا نے کیلئے ضروری قرار دیتے ہیں وہیں کچھ سیا سی جماعتیں اور وکلاتنظیمیں آئینی ترمیم کوعدالتی آزادی اور قانون کی حکمرانی پر قدغن سمجھتی ہیں۔

وزیراعظم کا انتخاب،معاملہ ہائیکورٹ میں

آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے چوہدری انوار الحق کے بطور وزیر اعظم انتخاب کے خلاف درخواست پر لار جر بنچ تشکیل دے دیا ہے۔ وزیر اعظم کے انتخاب کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے رکن قانون ساز اسمبلی فاروق حیدر کے وکلا نے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی۔