سائفر کیس میں بریت کے بعد اگلا منظر نامہ

تحریر : عدیل وڑائچ


بانی تحریک انصاف اور شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں بریت کی صورت میں بڑا ریلیف ملا ہے۔ سائفر کا مقدمہ بانی پی ٹی آئی کے خلاف دائر بڑے کیسز میں سے پہلا کیس ہے جو ہائیکورٹ کی سطح پر منطقی انجام کو پہنچا ہے۔ تاہم بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کے خلاف کیسز میں ضمانتوں اور سزا معطلی کے بعد بھی ان کی مشکلات ختم ہوتی دکھائی نہیں دے رہیں۔ اگرچہ سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم کی بریت ایک غیر معمولی پیشرفت ہے جو اس لئے بھی اہمیت رکھتی ہے کہ یہ معاملہ ان کے بیانیے سے جڑا ہے۔

27 مارچ 2022ء کو جب سابق وزیر اعظم نے اپنی حکومت کے آخری دنوں میں اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں جلسے کے دوران ایک کاغذ لہرا کر الزام لگایا کہ بیرونِ ملک سے ان کی حکومت گرانے کیلئے سازش کی گئی ہے تو بنیادی طور پر اس واقعے کے ذریعے انہوں نے مقتدرہ کے ساتھ لڑائی کی بنیاد ڈالی۔ چند روز بعد تحریک عدم اعتما د کے ذریعے پاکستان تحریک  انصاف کی حکومت ختم ہو گئی اور پی ٹی آئی نے بیانیہ بنایا کہ ان کی حکومت ایک غیر ملکی سازش کے تحت گرائی گئی ہے جس میں مبینہ طور پر اندرونی کردار بھی شامل ہیں۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 5 اور 9 کے تحت مقدمہ درج کیا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے حساس سفارتی دستاویز کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا ، اسے پبلک کرکے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی گئی اور اس کی ایک کاپی جو کہ سابق وزیر اعظم کی تحویل میں تھی اسے گم کر دیا۔

 5 کو اگست 2023ء کو توشہ خانہ کیس میں اثاثے نہ ظاہر کرنے کے مقدمے میں عمران خان کو گرفتار کرکے اٹک جیل بھجوا دیا گیا اور 29 اگست کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے ان کی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے سزا معطل کر دی ۔ اس فیصلے سے چند روز قبل ہی سائفر کیس میں ان کی گرفتاری ڈالی گئی تھی، یوں سابق وزیر اعظم ایک کے بعد ایک کیس میں پھنستے چلے گئے کہ اعلیٰ عدالتوں سے ریلیف کے باوجود تاحال ان کی اسیری ختم نہیں ہو سکی۔ 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس اسی دوران تیار ہو چکا تھا، اب سائفر کے ساتھ اس کیس میں بھی ان کی گرفتاری ہو چکی تھی۔ 22 دسمبر 2023ء کوسپریم کورٹ آف پاکستان نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں ضمانت پر رہا کر نے کا حکم دے دیا مگر 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس جسے القادر یونیورسٹی کیس بھی کہا جاتا ہے سابق وزیر اعظم کی رہائی میں بڑی رکاوٹ بن گیا، جبکہ شاہ محمود قریشی کی نظر بندی کے احکامات بھی جاری کر دیئے گئے ۔ دیگر کیسز کے باعث ان کی اسیری بھی آج تک ختم نہیں ہو سکی۔ 8 فروری کے انتخابات سے چند  روز قبل تین بڑے کیسز میں تین مختلف عدالتوں نے سابق وزیر اعظم کو سزائیں سنا ئیں۔ 30جنوری 2024 ء کو خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے سابق وزیر اعظم اور سابق وزیر خارجہ کو دس دس سال قید کی سزا سنائی۔ 31 جنوری کو عمران خان اور بشریٰ بی بی کو توشہ خانہ کے تحائف غیر قانونی طور پر حاصل کرنے کے جرم میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے 14، 14 سال قید کی سزا سنائی۔ 3فروری کو بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کو دورانِ عدت نکاح کیس میں سات ، سات سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ انتخابات سے قبل ایک کے بعد ایک کیس میں سزائیں سنائی جا رہی تھی تو عام انتخابات کے بعد اعلیٰ عدالتوں سے ایک کے بعد ایک کیس میں ریلیف ملنے لگا۔

یکم اپریل 2024ء کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ سے غیر قانونی طور پر تحائف حاصل کرنے کے کیس کی سزا معطل  کر دی جبکہ 15 مئی کو 190 ملین پاؤنڈز ریفرنس کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کی ضمانت منظور کر لی۔ 190 ملین پاؤنڈز کیس یعنی القادر ٹرسٹ کیس ابھی بھی ٹرائل کورٹ میں زیر سماعت ہے اور اس میں گواہان کے بیانات قلمبند ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ عدت کے دوران نکاح سے متعلق کیس میں سزا کے خلاف اپیل بھی ایک دلچسپ مرحلے میں ہے کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے فیصلہ سنانے سے کچھ دیر پہلے کیس دوسری عدالت کو بھجوانے کیلئے ا سلام آباد ہائیکورٹ کو خط لکھ دیا اور اب یہ کیس ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد افضل مجوکا کی عدالت کو منتقل کیا جا چکا ہے۔ عدالت ہی فیصلہ کرے گی کہ اس اپیل کو کس مرحلے سے شروع کرنا ہے۔ 

عمران خان اور بشریٰ بی بی کی رہائی میں اب صرف دوران عدت نکاح کیس رہ گیا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما اور کارکن اس انتظار میں ہیں کہ آخر سابق وزیر اعظم کی قید کب ختم ہو گی ؟ تاہم ذمہ دار ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ عدت کیس میں اگر ریلیف مل بھی گیا تو بھی بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے امکانات نہیں کیونکہ ان کے خلاف توشہ خانہ کا ایک نیا ریفرنس مستقبل قریب میں دائر کیا جائے گا جو توشہ خانے سے لئے گئے دس قیمتی تحائف غیر قانونی طور پر اپنے پاس رکھنے اور فروخت کرنے سے متعلق ہے۔ توشہ خانہ سے متعلق یہ تیسرا کیس ہو گا جو سابق وزیر اعظم کے جیل سے باہر آنے میں رکاوٹ بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ صرف یہی نہیں‘ تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم کی حکمت عملی بھی بانی پی ٹی آئی کے گلے پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ عمران خان کے ذاتی ایکس اکاؤنٹ سے متنازع ٹویٹس کے معاملے پر ایف آئی اے حرکت میں آکر تحقیقات کا آغاز کر چکا ہے۔ یہ ایسا معاملہ ہے کہ جس میں پاکستان تحریک انصاف کے بلنڈر نے خود انتظامی مشینری کو موقع فراہم کیا کہ ان کی قیادت کے خلاف کارروائی ہو۔ سائفر کیس میں بریت کے باوجود شاہ محمود قریشی کی اسیری بھی ختم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ انہیں 9 مئی کے واقعات میں آٹھ مختلف تھانوں میں درج مقدمات کا سامنا ہے۔ عدالتوں سے مسلسل ریلیف کے باوجود بانی پی ٹی آئی ، ان کی اہلیہ اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی مستقبل قریب میں رہائی ممکن نظر نہیں آتی۔اب انہیں کون سمجھائے کہ اس معاملے کا حل قانونی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

26ویں آئینی ترمیم کے بعد۔۔۔

بالآخر26ویں آئینی ترمیم منظور ہو گئی‘ جس کی منظوری کے بعد اس پر عملدرآمد بھی ہو گیا۔ ترمیم منظور ہونے کے بعد ایک غیریقینی صورتحال کا خاتمہ ہوا اور ملک میں ایک نیا عدالتی نظام قائم کر دیا گیا جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے بڑے اور اہم اختیارات تقسیم کر دیے گئے ہیں۔ آئینی ترمیم کا عمل حیران کن طور پر خوش اسلوبی سے مکمل ہو گیا۔

آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج،بے وقت کی را گنی وکلا ءکا ردعمل کیا ہو گا؟

چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب پر جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی کے عمل کے بعد ملک کے سیاسی محاذ پر ٹھہرائو کے امکانات روشن ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے عمل کو ملک میں ترقی، خوشحالی اور سیاسی و معاشی استحکام کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس عمل سے عوام کیلئے عدل و انصاف کے دروازے کھلیں گے اور ملک آگے کی طرف چلے گا۔

سیاست سے انتقام ختم کریں؟

ملک بھر کے میڈیا پر آج کل صرف ایک ہی خبر اہم ترین ہے اور وہ ہے 26 ویں آئینی ترمیم کے مثبت اور منفی اثرات۔لیکن محلاتی سازشیں ہوں یا چاہے کچھ بھی ہورہا ہو، عوام کا اصل مسئلہ تو یہی ہے کہ انہیں کیا مل رہا ہے۔

پولیس ایکٹ میں تبدیلی سیاسی مداخلت نہیں؟

پاکستان تحریک انصاف مسلم لیگ( ن) پر’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے کو تبدیل کرنے کا الزام لگاتی ہے لیکن خود پی ٹی آئی نے جس طرح یوٹرن لیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔بانی پی ٹی آئی کے نظریے کے برعکس خیبرپختونخوا حکومت نے محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت کی راہ ہموار کردی ہے۔ پولیس ایکٹ 2017ء میں خیبرپختونخوا پولیس کو غیر سیاسی بنانے کیلئے قانون سازی کی گئی تھی اور وزیراعلیٰ سے تبادلوں اورتعیناتیوں سمیت متعدد اختیارات لے کر آئی جی کو سونپ دیئے گئے تھے۔

26ویں آئینی ترمیم،ملا جلا ردعمل

26ویں آئینی ترمیم کو جہاں سیا سی عمائدین پاکستان کے عدالتی نظام میں احتساب اور کارکردگی کو بہتر بنا نے کیلئے ضروری قرار دیتے ہیں وہیں کچھ سیا سی جماعتیں اور وکلاتنظیمیں آئینی ترمیم کوعدالتی آزادی اور قانون کی حکمرانی پر قدغن سمجھتی ہیں۔

وزیراعظم کا انتخاب،معاملہ ہائیکورٹ میں

آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے چوہدری انوار الحق کے بطور وزیر اعظم انتخاب کے خلاف درخواست پر لار جر بنچ تشکیل دے دیا ہے۔ وزیر اعظم کے انتخاب کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے رکن قانون ساز اسمبلی فاروق حیدر کے وکلا نے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی۔