عید کی خریداری خواتین کی سب سے بڑی پریشانی

تحریر : مہوش اکرم


عید کا کوئی دوسرا نام سوچا جائے تو وہ خوشی ہی ہو سکتاہے ،چاند رات کے گزرنے کے بعد آنے والی صبح وہ نوید لے کر آتی ہے جسے عید کہا جاتا ہے۔جب چہرے جگمگانے لگتے ہیں،ہتھیلیوں پر مہندی کے گہرے رنگ دیکھے جاتے ہیں، کپڑوں کی بہار اور چمک چہروں پر بھی نظر آنے لگتی ہیں۔بچے،خواتین اور مرد، بڑے ،بوڑھے سبھی اپنے اپنے انداز میںخوشی کے اظہار کے طریقے سوچنے لگتے ہیں۔

ابھی خوشیوں بھری عید آنے میں کچھ وقت ہے، مردانہ لباس کے بر عکس خواتین میں عید کے لباس کے انتخاب کا مرحلہ تھوڑا مشکل ہوتا ہے،مرد تو گئے بازار اور ایک دو دکانیںگھومنے کے بعد بہترین قسم کے سوٹ کا انتخاب جھٹ پٹ کر لیا، اور جی خواتین کی کیا کہیے، پہلے بازارکا سروے شروع کیا، ونڈو شاپنگ بھی ساتھ جاری ہے، مارکیٹ ختم ہو کر دوبارہ شروع ہونے لگتی ہے مگر کوئی چیز آنکھوں کو بھاتی ہے نہ ہی دل کو لگتی ہے، ایسا کیا خریدا جائے جو کسی کے پاس بھی نہ ہو،سب سے خوبصورت اور منفرد ہو،سستا بھی ہو،فیشن کے مطابق ہو،موسم کے رنگوں میں رنگا بھی ہو ۔مجال ہے جو کوئی چیز دیکھتے ہی پسند آجائے اور خرید بھی لی جائے۔اللہ اللہ کر کے سوٹ کا مسئلہ حل ہو جائے تو جیولری، جوتے، بیگ اور دیگر چیزوں کی خریداری کا مشکل مرحلہ سر کرنا باقی ہوتا ہے۔

 

عیدالاضحی خصوصی طور پر قربانی سے منسوب ہے اس لئے ایسے میںخواتین کی کچن کی مصروفیات بھی بہت بڑھ جاتی ہے۔ اتنی مصروفیت کے باوجود خواتین اپنی تیاری سے غافل نہیں ہوتیں۔اس بار بھی چونکہ عید الاضحی گرمی کے موسم میں ہے ایسے میں لان کے خوبصورت ملبوسات خواتین کی اوّلین ترجیح ہیں۔ابھی آپ کے پاس وقت ہے ،فیشل رہ گیا ہے یا دوپٹہ رنگوانا باقی ہے دیر نہ کریں فوراًیہ کام ختم کریں۔گھر کے باقی لوگوں کی تیاری بھی چیک کر لیں۔

 مہندی کا اصل حسن اور مزہ توچاند رات کو ہی ہے ایک آدھ دن بھی پہلے لگوا لیں تو رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں۔آج کل بہت سے بیوٹی پارلرز کے پیکجز میں مہندی بھی شامل ہے اس لئے پارلر سے پہلے ہی بات کر لیں باقی سب آج ،لیکن مہندی چاند رات کو ہی ہوگی۔

گھر کی صفائی ستھرائی بھی آپ نے دیکھنی ہے اسے بھی مزید لیٹ نہ کریں،فائنل وقت پر کس کس طرف توجہ دیں گی،اور پھر کوئی کام رہ گیا تو عین عید کا دن افرا تفری کا نشانہ بن جائے گا۔

مہندی اچھی قسم کی ہو تو ہاتھوں پر سات سے تیس دن تک اپنا رنگ قائم رکھتی ہے۔عام طور پر یہی سوچا جاتا ہے کہ مہندی کا رنگ گورے ہاتھوں پر زیادہ حسین لگتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ کے ہاتھ پائوںصاف ستھرے ہیں تو مہندی کا رنگ کہیں جانے والا نہیں ہے۔سکھیاں سہیلیاں مل کر بیٹھتی ہیں تو ہنستے ہنستے مہندی کا رنگ اور چہرے کی خوشی مل کر ایک اور نیا رنگ پیدا کر دیتی ہے اور پھر کھنکھناتی چوڑیاںپہننی ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

26ویں آئینی ترمیم کے بعد۔۔۔

بالآخر26ویں آئینی ترمیم منظور ہو گئی‘ جس کی منظوری کے بعد اس پر عملدرآمد بھی ہو گیا۔ ترمیم منظور ہونے کے بعد ایک غیریقینی صورتحال کا خاتمہ ہوا اور ملک میں ایک نیا عدالتی نظام قائم کر دیا گیا جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے بڑے اور اہم اختیارات تقسیم کر دیے گئے ہیں۔ آئینی ترمیم کا عمل حیران کن طور پر خوش اسلوبی سے مکمل ہو گیا۔

آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج،بے وقت کی را گنی وکلا ءکا ردعمل کیا ہو گا؟

چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب پر جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی کے عمل کے بعد ملک کے سیاسی محاذ پر ٹھہرائو کے امکانات روشن ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے عمل کو ملک میں ترقی، خوشحالی اور سیاسی و معاشی استحکام کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس عمل سے عوام کیلئے عدل و انصاف کے دروازے کھلیں گے اور ملک آگے کی طرف چلے گا۔

سیاست سے انتقام ختم کریں؟

ملک بھر کے میڈیا پر آج کل صرف ایک ہی خبر اہم ترین ہے اور وہ ہے 26 ویں آئینی ترمیم کے مثبت اور منفی اثرات۔لیکن محلاتی سازشیں ہوں یا چاہے کچھ بھی ہورہا ہو، عوام کا اصل مسئلہ تو یہی ہے کہ انہیں کیا مل رہا ہے۔

پولیس ایکٹ میں تبدیلی سیاسی مداخلت نہیں؟

پاکستان تحریک انصاف مسلم لیگ( ن) پر’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے کو تبدیل کرنے کا الزام لگاتی ہے لیکن خود پی ٹی آئی نے جس طرح یوٹرن لیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔بانی پی ٹی آئی کے نظریے کے برعکس خیبرپختونخوا حکومت نے محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت کی راہ ہموار کردی ہے۔ پولیس ایکٹ 2017ء میں خیبرپختونخوا پولیس کو غیر سیاسی بنانے کیلئے قانون سازی کی گئی تھی اور وزیراعلیٰ سے تبادلوں اورتعیناتیوں سمیت متعدد اختیارات لے کر آئی جی کو سونپ دیئے گئے تھے۔

26ویں آئینی ترمیم،ملا جلا ردعمل

26ویں آئینی ترمیم کو جہاں سیا سی عمائدین پاکستان کے عدالتی نظام میں احتساب اور کارکردگی کو بہتر بنا نے کیلئے ضروری قرار دیتے ہیں وہیں کچھ سیا سی جماعتیں اور وکلاتنظیمیں آئینی ترمیم کوعدالتی آزادی اور قانون کی حکمرانی پر قدغن سمجھتی ہیں۔

وزیراعظم کا انتخاب،معاملہ ہائیکورٹ میں

آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے چوہدری انوار الحق کے بطور وزیر اعظم انتخاب کے خلاف درخواست پر لار جر بنچ تشکیل دے دیا ہے۔ وزیر اعظم کے انتخاب کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے رکن قانون ساز اسمبلی فاروق حیدر کے وکلا نے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی۔