گرین شرٹس کو واپسی

تحریر : زاہداعوان


آئی سی سی مینز ٹی20ورلڈکپ کے گزشتہ 8 ایڈیشنز میں تین بار سیمی فائنل اور تین بار فائنل کھیل کر ایک بار ورلڈ چیمپئن بننے والی پاکستان کرکٹ ٹیم امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں جاری ٹی20ورلڈ کپ کے 9ویں ایڈیشن میں گروپ مرحلے سے ہی آئوٹ ہو گئی ہے اور یہ پہلا موقع ہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں متاثر کن ریکارڈ کا حامل پاکستان فائنل یا سیمی فائنل تو بہت دور کی بات، سپرایٹ مرحلے کیلئے بھی کوالیفائی نہ کر سکا۔

2009ء میں پاکستان نے یونس خان کی قیادت میں آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ 2007ء میں جنوبی افریقہ میں منعقدہ پہلے ٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان نے شعیب ملک کی قیادت میں فائنل کھیلا جبکہ 2022ء میں گرین شرٹس نے بابراعظم کی قیادت میں فائنل کھیلا۔ 2010ء، 2012 ء اور 2021 ء میں پاکستان سیمی فائنل کھیل چکا ہے، لیکن جمعہ کے روز فلوریڈا میں آئی سی سی ٹی20 ورلڈ کپ 2024ء کا 30واں اور گروپ اے میں امریکہ اور آئرلینڈ کا اہم ترین میچ بارش کی وجہ سے منسوخ کردیا گیا اور دونوں ٹیموں کو ایک، ایک پوائنٹ مل گیا، جس سے گروپ اے میں میزبان امریکی کرکٹ ٹیم کے 5پوائنٹس ہو گئے اور اس نے عالمی ایونٹ کے سپرایٹ مرحلے کیلئے کوالیفائی کر لیا۔ گروپ اے میں بھارت پہلے ہی سپر ایٹ مرحلے میں پہنچ چکا ہے۔ اس طرح لاڈر ہل میں ہونے والی بارش نے اگر مگر کے چکر میں سپر ایٹ مرحلے کے خواب دیکھنے والی گرین شرٹس کی آخری امید پر بھی پانی پھیر دیا اور قومی کرکٹ ٹیم کو اگلے مرحلے کیلئے ویسٹ انڈیز کی بجائے پاکستان واپسی کا ٹکٹ مل گیا۔ پاکستان ٹیم آج بروز اتوار اسی فلوریڈا گرائونڈ میں اپنا چوتھا گروپ میچ آئرلینڈ کے خلاف کھیلے گی لیکن یہ میچ محض ایک رسمی کارروائی ہی بن کر رہ گیا ہے، جس کا نتیجہ پاکستان یا آئرلینڈ دونوں کیلئے کوئی خاص معنی نہیں رکھتا کیونکہ دونوں ٹیموں کا ٹی20 ورلڈ کپ 2024ء میں سفر ختم ہو چکا ہے۔ 

ٹی20کرکٹ کی خطرناک قرار دی جانے والی پاکستان ٹیم کی کہانی اپنے گروپ کے آخری میچ سے قبل ہی تمام ہوگئی اور بابرالیون قوم کو عید کے موقع پر خوشی نہ دے سکی اور لاڈر ہل میں بارش کا پانی پاکستان ٹیم کی امیدوں کو بہا کر لے گیا،اگر یہ ورلڈکپ بھی رمضان المبارک میں ہوتا تو اگر مگر کا کھیل اور قوم کی دعائیں شاید پاکستان ٹیم کو سپرایٹ مرحلے تک پہنچا ہی دیتیں۔

9ویںٹی 20 ورلڈ کپ میں اگر پاکستان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو پہلے ہی میچ سے ٹیم بابرالیون بیٹنگ، بائولنگ اور فیلڈنگ تینوں شعبوں میں بری طرح ناکام دکھائی دی ۔ سابق کرکٹرز ہوں یا عام شائقین، ہر طرف سے قومی کرکٹرز کی کارکردگی پر تنقید کے نشتر ہی چل رہے ہیں۔پہلے میچ میں امریکہ اور دوسرے میچ میں بھارت سے شکست کے بعد پاکستان نے اپنا تیسرا گروپ میچ کینیڈا کے خلاف جیت تو لیا لیکن پہلے دونوں میچز ہارنے کی وجہ سے یہ جیت بھی بے معنی سی ہو کر رہ گئی تھی،کیونکہ بھارت اور امریکہ پہلے ہی پوائنٹس ٹیبل پر ہم سے آگے تھے۔ اب امریکہ اور آئرلینڈ کا میچ بارش کی نذر ہونے کے بعد امریکہ نے 5پوائنٹس کے ساتھ گروپ میں اپنی دوسری پوزیشن پکی کر لی اور اگر آج پاکستان آئرلینڈ کو بڑے مارجن سے شکست بھی دے تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ آج کی فتح کے بعد بھی پاکستان 4پوائنٹس کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہی رہے گا۔

بابرالیون کے دفاع میں کہنے والے تو کہیں گے کہ موسم آڑے آ گیا، لیکن حقیقت میں تو بارش نہیں بلکہ ہمارے کھلاڑیوں کی غفلت، لاپرواہی اور ذاتی ریکارڈز پر توجہ نے قومی ٹیم کو کھائی میں دھکیل دیا۔

پاکستان کرکٹ ٹیم آئی سی سی ٹی20ورلڈکپ 2024ء کے سپرایٹ مرحلے کے لئے تو کوالیفائی نہ کرسکی تاہم قوم کے ایک حوصلہ افزا خبر یہ ہے کہ 2026ء کے ٹی20ورلڈکپ میں پاکستان کے براہ راست کوالیفائی کرنے کا امکان باقی ہے۔یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ سُپر ایٹ مرحلے میں نہ پہنچنے پر پاکستان کو اگلے ورلڈ کپ کیلئے کوالیفائنگ میچز کھیلنے پڑیں گے۔ایسی خبروں کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے قومی ٹیم پر شدید تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا تھا تاہم اب ایسی صورتحال نہیں ہے کیونکہ اگر پاکستان ٹیم اس ورلڈ کپ کے سپر ایٹ مرحلے میں نہ پہنچنے کے باوجود بھی 2026 ء کے ورلڈ کپ میں براہ راست کوالیفائی کرسکے گی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی) کے چیئرمین محسن نقوی نے روایتی حریف بھارت سے شکست کے بعد قومی ٹیم میں بڑی سرجری کا عندیہ دیا تھااور شاید انہیں بیان دینے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کیونکہ اختلافات اور گروپ بندی کے باعث ٹیم میں اتحاد نہیں رہا بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ کپتانی کی لڑائی، دھڑے بندی اور ذاتی ریکارڈز کے لالچ نے قومی ٹیم کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے اور اگر اب اس انتہائی سنگین صورتحال کو یہیں نہ روکا گیا تو پھر قومی کھیل ہاکی کی طرح کرکٹ ٹیم کیلئے بھی دوبارہ جیت کی پٹڑی پر چڑھنا مشکل ہو جائے گا۔ ٹیم سے سفارشی کلچر کا مکمل خاتمہ کرنا ہوگا، کھلاڑیوں کی فٹنس پر سب سے زیادہ توجہ دینا ہوگی اور سنٹرل کنٹریکٹ حاصل کرنے والے تمام کرکٹرز کیلئے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنا لازمی قرار دیا جائے اور جو کھلاڑی ڈومیسٹک سیزن میں نہ کھیلے اسے کسی بھی غیر ملکی لیگ کیلئے این اوسی جاری نہ کیاجائے۔ٹیم میں نظم وضبط پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ بدقسمتی سے ہمارے جو کھلاڑی پاکستان کلر پہن لیتے ہیں تو پھر ان کی نظریں غیرملکی لیگز پر جم جاتی ہیں اور وہ پیسے کی خاطر ڈومیسٹک کرکٹ تو کیا قومی ذمہ داری کو بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ پی سی بی کو چاہئے کہ مستقبل میں کسی بھی میگا ایونٹ سے قبل ٹیم میں اکھاڑ پچھاڑ اور کپتان کی تبدیلی کی بجائے اب موقع ہے کہ مشکل فیصلے کئے جائیں تاکہ 2026ء کے ورلڈکپ سے قبل قومی ٹیم دوبارہ فتح کے ٹریک پر گامزن ہو سکے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم آئی سی سی ٹی20ورلڈکپ 2024ء کے سپرایٹ مرحلے کے لئے تو کوالیفائی نہ کرسکی تاہم قوم کے ایک حوصلہ افزا خبر یہ ہے کہ 2026ء کے ٹی20ورلڈکپ میں پاکستان کے براہ راست کوالیفائی کرنے کا امکان باقی ہے۔اس بار ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اپنے پہلے ہی میچ میں امریکہ کے ہاتھوں شکست کے بعد پاکستان ٹیم کے لیے اگر مگر کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا 

پاکستان کرکٹ ٹیم آئی سی سی ٹی20ورلڈکپ 2024ء کے سپرایٹ مرحلے کے لئے تو کوالیفائی نہ کرسکی تاہم قوم کے ایک حوصلہ افزا خبر یہ ہے کہ 2026ء کے ٹی20ورلڈکپ میں پاکستان کے براہ راست کوالیفائی کرنے کا امکان باقی ہے۔اس بار ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اپنے پہلے ہی میچ میں امریکہ کے ہاتھوں شکست کے بعد پاکستان ٹیم کے لیے اگر مگر کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور یہ باتیں بھی ہونے لگی تھیں کہ سْپر ایٹ مرحلے میں نہ پہنچنے پر پاکستان کو اگلے ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائنگ میچز کھیلنے پڑیں گے۔ایسی خبروں کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے قومی ٹیم پر شدید تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا تھا تاہم اب ایسی صورتحال نہیں ہے کیونکہ اگر پاکستان ٹیم اس ورلڈ کپ کے سپر ایٹ مرحلے میں نہ پہنچنے کے باوجود بھی 2026 ء کے ورلڈ کپ میں براہ راست کوالیفائی کرسکے گی۔

اطلاعات کے مطابق اگلا ورلڈ کپ 2026ء  میںبھارت اور سری لنکا میں کھیلا جائے گا جس میں میزبان ممالک سمیت 12 ٹیمیں براہ راست کوالیفائی کریں گی۔اگلے ورلڈ کپ کے لیے سپر ایٹ مرحلے کی 8، میزبان ممالک کی 2 اور بہتر رینکنگ کی بنیاد پر مزید 2 ٹیمیں براہ راست ایونٹ کھیلنے کی اہل ہوں گی۔ان 2 ٹیموں کے رینکنگ پوائنٹس 30 جون 2024ء کی بنیاد پر دیکھے جائیں گے۔بھارت سْپر ایٹ مرحلے میں پہنچنے کی وجہ سے اگلے ورلڈ کپ کیلئے کوالیفائی کرچکا ہے لیکن سری لنکا اِس ورلڈ کپ کے سپر ایٹ مرحلے میں نہیں پہنچا تاہم 2026ء کی میزبانی کی وجہ سے اس نے اگلے ورلڈ کپ کیلئے براہ راست کوالیفائی کرلیا ہے جس کے بعد اب صورتحال یوں ہیں کہ مزید تین ٹیمیں رینکنگ پوائنٹس کی بنیاد پر 2026ء  ورلڈ کپ کے لیے براہ راست کوالیفائی کریں گی۔توقع ہے کہ پاکستان، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کی ٹیمیں موجودہ رینکنگ پوائنٹس کی بنیاد پر تینوں ممکنہ طور پر 2026ء  ورلڈ کپ کے لیے براہ راست کوالیفائی کر جائیں گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

26ویں آئینی ترمیم کے بعد۔۔۔

بالآخر26ویں آئینی ترمیم منظور ہو گئی‘ جس کی منظوری کے بعد اس پر عملدرآمد بھی ہو گیا۔ ترمیم منظور ہونے کے بعد ایک غیریقینی صورتحال کا خاتمہ ہوا اور ملک میں ایک نیا عدالتی نظام قائم کر دیا گیا جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے بڑے اور اہم اختیارات تقسیم کر دیے گئے ہیں۔ آئینی ترمیم کا عمل حیران کن طور پر خوش اسلوبی سے مکمل ہو گیا۔

آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج،بے وقت کی را گنی وکلا ءکا ردعمل کیا ہو گا؟

چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب پر جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی کے عمل کے بعد ملک کے سیاسی محاذ پر ٹھہرائو کے امکانات روشن ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے عمل کو ملک میں ترقی، خوشحالی اور سیاسی و معاشی استحکام کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس عمل سے عوام کیلئے عدل و انصاف کے دروازے کھلیں گے اور ملک آگے کی طرف چلے گا۔

سیاست سے انتقام ختم کریں؟

ملک بھر کے میڈیا پر آج کل صرف ایک ہی خبر اہم ترین ہے اور وہ ہے 26 ویں آئینی ترمیم کے مثبت اور منفی اثرات۔لیکن محلاتی سازشیں ہوں یا چاہے کچھ بھی ہورہا ہو، عوام کا اصل مسئلہ تو یہی ہے کہ انہیں کیا مل رہا ہے۔

پولیس ایکٹ میں تبدیلی سیاسی مداخلت نہیں؟

پاکستان تحریک انصاف مسلم لیگ( ن) پر’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے کو تبدیل کرنے کا الزام لگاتی ہے لیکن خود پی ٹی آئی نے جس طرح یوٹرن لیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔بانی پی ٹی آئی کے نظریے کے برعکس خیبرپختونخوا حکومت نے محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت کی راہ ہموار کردی ہے۔ پولیس ایکٹ 2017ء میں خیبرپختونخوا پولیس کو غیر سیاسی بنانے کیلئے قانون سازی کی گئی تھی اور وزیراعلیٰ سے تبادلوں اورتعیناتیوں سمیت متعدد اختیارات لے کر آئی جی کو سونپ دیئے گئے تھے۔

26ویں آئینی ترمیم،ملا جلا ردعمل

26ویں آئینی ترمیم کو جہاں سیا سی عمائدین پاکستان کے عدالتی نظام میں احتساب اور کارکردگی کو بہتر بنا نے کیلئے ضروری قرار دیتے ہیں وہیں کچھ سیا سی جماعتیں اور وکلاتنظیمیں آئینی ترمیم کوعدالتی آزادی اور قانون کی حکمرانی پر قدغن سمجھتی ہیں۔

وزیراعظم کا انتخاب،معاملہ ہائیکورٹ میں

آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے چوہدری انوار الحق کے بطور وزیر اعظم انتخاب کے خلاف درخواست پر لار جر بنچ تشکیل دے دیا ہے۔ وزیر اعظم کے انتخاب کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے رکن قانون ساز اسمبلی فاروق حیدر کے وکلا نے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی۔