فلسفہ قربانی:تاریخ،اسلامی اور معاشی حیثیت

تحریر : مولانا محمد الیاس گھمن


اقوام عالم کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہر قوم میں قربانی کا تصور کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے۔ ہزاروں سال پہلے جب انسان اپنے حقیقی خالق و مالک کو بھول چکا تھا اور اپنے دیوتاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے یا ان کے نام کی نذر و نیاز مانتے ہوئے جانور کو ذبح کر کے ان کے سامنے رکھ دیتا تھا اور یہ عقیدہ رکھتا کہ اب دیوتا مجھے آفات سے محفوظ رکھیں گے۔

 آج سے تقریباً چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام نے قربانی کا حقیقی مقصد اور صحیح فلسفہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھایا گیا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کر رہے ہیں اور یہ بات آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ نبی کا خواب بھی ’’وحی‘‘ ہوا کرتا ہے چنانچہ اللہ رب العزت کے حکم کی تعمیل کیلئے فلسطین سے مکہ مکرمہ روانہ ہوئے۔

 خلیل و ذبیح کا مکالمہ

حضرت ابراہیم ؑاور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے مابین جو گفتگو ہوئی، قرآن کریم کی روشنی میں اسے ملاحظہ فرمائیں:

حضرت ابراہیم علیہ السلام: اے میرے بیٹے!میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں، اس بارے تیرا کیا خیال ہے؟

حضرت اسماعیل علیہ السلام:اے میرے ابو!جس کام کا آپ کو اللہ کی طرف سے حکم دیا گیا ہے آپ وہ کام کر گزرئیے۔ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔

 حضرت ابراہیم ؑ نے گفتگو کا ایسا طرز اختیار نہیں کیا جس سے خوف اور وحشت ٹپکتی ہو بلکہ فکری اور ذہنی طور پر اللہ کے نام پر جان قربان کرنے کی خوبصورت انداز میں ترغیب دی ہے تاکہ جب اللہ کے حکم پر عمل پیرا ہوا جائے تو اس میں بیٹا مجبور نہ ہو بلکہ تسلیم و رضا کا پیکر نظر آئے ۔  حضرت اسماعیل ؑ کے جواب پر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آ تی ہے کہ حضرت اسماعیل ؑاتنی بڑی قربانی دینے کیلئے اتنی چھوٹی سی عمر میں تیار ہوئے  اور انہوںنے اسے اپنی ذات کی طرف منسوب نہیں ہونے دیا بلکہ اسے محض اللہ کی عطا سمجھا اور مشیئتِ ایزدی پر صبر کرنے والوں کی قطار میں خود کو کھڑا کر دیا۔

 باقی پدرانہ شفقت کی وجہ سے آپ اس سوچ میں بھی نہ پڑئیے کہ شاید میرا یہ فیصلہ ہنگامی یا وقتی ہوگا میں ’’قربانی کا فلسفہ‘‘ خوب اچھی طرح جانتا ہوں کہ اپنی جان تک کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا درحقیقت ’’قربانی‘‘ ہے اس حقیقت پر عمل کرنے کیلئے میرے ذاتی ارادہ کو دخل نہیں بلکہ یہ سب کچھ اللہ کی مشیئت سے ہی ممکن ہے چونکہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس لیے میں بھی صبر کروں گا تاکہ اللہ کی معیت مجھے بھی نصیب ہو جائے۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اللہ کے حکم پر اپنے لخت جگر کو قربان کرنے کا جذبہ پختہ تھا اسی طرح حضرت اسماعیل ؑ کا اللہ کے نام پر قربان ہو جانے کا ارادہ بھی مصمم تھا۔ یہ اس لیے کہ دونوں باپ بیٹا ’’فلسفہ قربانی‘‘ کی حقیقت کو سمجھ چکے تھے۔

 حضرت اسماعیل ؑ نے تو اللہ تعالیٰ کے نام پر خود قربان ہونے کیلئے پیش کیا، اس لیے ان کا جذبہ تو واضح طور پر سمجھ میں آتا ہے جبکہ حضرت ابراہیم ؑ کا جذبہ قربانی سمجھنے کیلئے ایک دوسری حقیقت کو سمجھنا ہوگا وہ یہ کہ باپ کیلئے اولاد کی قربانی پیش کرنا اپنے آپ کو ذبح کر لینے سے زیادہ مشکل ہوتا ہے، یہ وہ قلبی کیفیت اور دلی احساس ہے جس کو سمجھا تو جا سکتا ہے لیکن الفاظ میں سمجھایا نہیں جا سکتا۔ دنیا کا ہر باپ اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ اولاد کی محبت کیا ہوتی ہے؟ اس لیے قرآن کریم نے اولاد کو باعث آزمائش کہا ہے۔ اس بنیاد پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کا جذبہ قربانی بھی قابلِ صد ستائش ہے اور ان کا صبر وضبط بھی مثالی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ’’جذبہ قربانی‘‘ اس سے بڑھ کر قابل تحسین اور ان کا صبر بے مثال ہے۔ انسان اپنے آپ کو قربان کر سکتا ہے لیکن لخت جگر نرم و نازک اور معصوم گردن پراپنے ہاتھوں سے چھری چلانا، نہ چلے توبار بار چھری کو تیز کر کے چلانا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ 

یہ کام اعصاب شکن، مشکل اور  صبر آزما تھا جب حضرت ابراہیم ؑ نے صدق نیت کیساتھ اس پر عمل کر کے دکھایا تو اللہ رب العزت نے بچے کے عوض ایک دنبہ وہاں بھیج دیا اور فرمایا کہ آپ امتحان میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد یہ عمل شریعت میں اس قدر پسندیدہ اور مقبول ہوا کہ اسے ’’سنتِ ابراہیمی‘‘ کے مبارک الفاظ سے یاد کیا جانے لگا۔ یہ حضرت ابراہیم ؑ کے اخلاص کی ایسی مضبوط دلیل ہے جو تاقیامت قائم رہے گی۔ 

حضرت زید بن ارقم ؓسے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام ؓنے سوال کیا: یارسول اللہﷺ!یہ قربانی کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: تمہارے (روحانی) باپ حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے۔صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ ہمیں قربانی کے کرنے سے کیا ملے گا؟ فرمایا ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی۔صحابہ کرام ؓ نے (پھر سوال کیا) یارسول اللہﷺ!اُون (کے بدلے میں کیا ملے گا) فرمایا: اُون کے ہر بال کے بدلے میں نیکی ملے گی( ابن ماجہ:3127)

 قربانی والی عبادت ان چیزوں میں سے ایک ہے جو اسلام کی علامت اور شعائر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺمدینہ منورہ کے دس سالہ قیام میں ہر سال قربانی فرماتے رہے اور آپ ﷺ کے بعد سے لے کر آج دن تک امت کامتواتر اور مسلسل عمل بھی قربانی کرنے کا چلا آ رہا ہے۔

قربانی پر قرآن کریم اور احادیث مبارکہ موجود ہیں جس سے اس کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں ہے: ’’اور ہم نے ہر اُمت کیلئے قربانی اس غرض کیلئے مقرر کی ہے کہ وہ ان مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں عطا فرمائے ہیں، لہٰذا تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، چنانچہ اُسی کی فرماں برداری کرو، اور خوشخبری سنادو اُن لوگوں کو جن کے دل اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں‘‘ (سورۃ الحج: 34)

اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عید الاضحیٰ کے دن کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نز دیک قربانی کا خون بہانے سے محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے بالوں، سینگوں اور کھروں سمیت آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں شرفِ قبولیت حاصل کر لیتا ہے، لہٰذا تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو(جا مع الترمذی : 1413)۔

 رفاہ عامہ میں روٹی، کپڑا اور مکان ہے۔ اسی رفاہ عامہ میں عید کے دنوں میں غریبوں کو قربانی کے جانور کا گوشت دے دیا جائے تو اس میں کیا حرج ہے؟ یقیناً یہ بھی رفاہ عامہ ہی ہے۔ اگر اس سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تب بھی قربانی میں عام لوگوں بالخصوص غریبوں کا بہت نفع ہے۔ دس ذوالحجہ سے لے کر بارہ ذوالحجہ کی شام تک جس شخص پر قربانی کرنا واجب ہے اس کیلئے قربانی چھوڑ کر اس رقم کا صدقہ کرنا جائز نہیں۔

1: جانور پالنااس میں لاکھوں انسان سال بھر مصروف رہ کر برسرِ روزگار بنتے ہیں۔

2: چارہ خریدنایہ کاروبار بھی انتہائی نفع بخش ہے، زمیندار کو بھی فائدہ ہے اور دکاندارکو بھی۔ 

3: جانوروں کی دیکھ بھال کیلئے ملازم رکھنا کہ غریب اور متوسط طبقے کے ہزاروں افراد اس ذریعے سے مالی فائدہ اٹھاتے ہیں۔

4: دودھ کا نظام کہ ڈیری فارم، دودھ خریدنے اور بیچنے والی کمپنیاں اسی طرح مستقل طور پر ہوٹلوں اور گھروں کی ضرورت کا پورا ہونا۔

5: جانوروں کو باندھنے کیلئے رسیوں اور زنجیروں کا کاروبار اور جانوروں کے چارے کیلئے برتنوں کا کاروبار۔

6: قربانی کے ایام میں ان کی منڈیوں میں منتقلی کیلئے ٹرانسپورٹ کا وسیع نظام کہ جس میں ٹرانسپوٹرز سے لے کر منڈی کے منشی تک فائدہ اٹھاتے ہیں۔

7: گاڑیوں میں جانور لادنے اور اتارنے والے لوگ روزی کماتے ہیں۔ 

8: جانور بیچنے کے نتیجے میں مالی منافع کا بڑھنا، قصابوں کی اجرت بھی اسی نظام کا حصہ ہے۔

9: پچھلے سال قصابوں کو دی جانے والی اجرت 23 ارب کے قریب ہے۔

10: کھالوں سے متعدد لوگوں کا کاروباروابستہ ہے۔نمک لگا نے والے، خشک کرنے والے، پھر یہ سب چمڑے کے کارخانوں میں لایا جاتا ہے۔

11:اگر قربانی کا عمل ختم ہو جائے تو لیدر انڈسٹری کی 30 فیصد مصنوعات ختم ہو جائیں ۔

13:آلائشوں کو اٹھانے والے بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، آنتیں وغیرہ بیچی جاتی ہیں جس سے موم بتیاں و دیگر پراڈکٹس تیار ہوتی ہیں۔ 

قربانی ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ ہمارے دلوں میں یہ احساس اور فکر پیدا ہوجائے کہ اللہ کا حکم ہر چیز پر مقدم ہے۔ اس میں حکمتیں اور مصلحتیں نہ تلاشی جائیں بلکہ بے چوں وچرا اس پر صدق دل سے عمل کیا جائے۔ حدیث مبارک میں ہے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی خواہشات کو میرے دین کے تابع نہ کردے۔ دوسرا اہم پیغام یہ ہے اپنے اندر جذبہ ایثارپیدا کریں اسی کی بدولت دنیا میں امن و امان قائم ہو گا۔ 

آج دنیا بھر میں یہ نعرہ لگایا جا رہا ہے کہ ہمیں’’ ایڈ نہیں ٹریڈ چاہیے‘‘ یعنی امداد نہیں صاحب روزگار بنانے کی ضرورت ہے اور قربانی کے ان دنوں میں لاکھوں کروڑوں لوگ صاحب روزگار بن رہے ہوتے ہیں اب یہ سمجھیں کہ دنیا جہان کا کوئی ایسا شخص جس میں انصاف نام کی کوئی چیز پائی جاتی ہو اور تعصب نہ ہو تو وہ کسی صورت بھی قربانی کے بجائے رفاہی کام میں پیسہ خرچ کرنے کی بات نہیں کر سکتا۔ 

 

عیدوالے دن:

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید والے دن(عید گاہ کی طرف آنے اور جانے والا ) راستہ بدل لیتے تھے۔ اس لیے جس راستے سے عید گاہ کی طرف جائیں مناسب ہے کہ واپسی میں وہ راستہ تبدیل کر لیا جائے۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کی نماز کے لیے تشریف لے جاتے تو کچھ کھا پی کر جاتے اور عید الاضحیٰ کے دن نماز عید پڑھنے تک کچھ نہیں کھاتے تھے۔ بعض لوگ اس دن عید سے پہلے اپنے اوپر کھانے پینے کو حرام کر لیتے ہیں اور روزہ دار کی طرح کچھ نہیں کھاتے پیتے،  یہ نظریہ غلط ہے۔ اللہ کریم تمام مسلمانوں کو عید کی خوشیاں نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ  النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

26ویں آئینی ترمیم کے بعد۔۔۔

بالآخر26ویں آئینی ترمیم منظور ہو گئی‘ جس کی منظوری کے بعد اس پر عملدرآمد بھی ہو گیا۔ ترمیم منظور ہونے کے بعد ایک غیریقینی صورتحال کا خاتمہ ہوا اور ملک میں ایک نیا عدالتی نظام قائم کر دیا گیا جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے بڑے اور اہم اختیارات تقسیم کر دیے گئے ہیں۔ آئینی ترمیم کا عمل حیران کن طور پر خوش اسلوبی سے مکمل ہو گیا۔

آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج،بے وقت کی را گنی وکلا ءکا ردعمل کیا ہو گا؟

چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب پر جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی کے عمل کے بعد ملک کے سیاسی محاذ پر ٹھہرائو کے امکانات روشن ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے عمل کو ملک میں ترقی، خوشحالی اور سیاسی و معاشی استحکام کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس عمل سے عوام کیلئے عدل و انصاف کے دروازے کھلیں گے اور ملک آگے کی طرف چلے گا۔

سیاست سے انتقام ختم کریں؟

ملک بھر کے میڈیا پر آج کل صرف ایک ہی خبر اہم ترین ہے اور وہ ہے 26 ویں آئینی ترمیم کے مثبت اور منفی اثرات۔لیکن محلاتی سازشیں ہوں یا چاہے کچھ بھی ہورہا ہو، عوام کا اصل مسئلہ تو یہی ہے کہ انہیں کیا مل رہا ہے۔

پولیس ایکٹ میں تبدیلی سیاسی مداخلت نہیں؟

پاکستان تحریک انصاف مسلم لیگ( ن) پر’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے کو تبدیل کرنے کا الزام لگاتی ہے لیکن خود پی ٹی آئی نے جس طرح یوٹرن لیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔بانی پی ٹی آئی کے نظریے کے برعکس خیبرپختونخوا حکومت نے محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت کی راہ ہموار کردی ہے۔ پولیس ایکٹ 2017ء میں خیبرپختونخوا پولیس کو غیر سیاسی بنانے کیلئے قانون سازی کی گئی تھی اور وزیراعلیٰ سے تبادلوں اورتعیناتیوں سمیت متعدد اختیارات لے کر آئی جی کو سونپ دیئے گئے تھے۔

26ویں آئینی ترمیم،ملا جلا ردعمل

26ویں آئینی ترمیم کو جہاں سیا سی عمائدین پاکستان کے عدالتی نظام میں احتساب اور کارکردگی کو بہتر بنا نے کیلئے ضروری قرار دیتے ہیں وہیں کچھ سیا سی جماعتیں اور وکلاتنظیمیں آئینی ترمیم کوعدالتی آزادی اور قانون کی حکمرانی پر قدغن سمجھتی ہیں۔

وزیراعظم کا انتخاب،معاملہ ہائیکورٹ میں

آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے چوہدری انوار الحق کے بطور وزیر اعظم انتخاب کے خلاف درخواست پر لار جر بنچ تشکیل دے دیا ہے۔ وزیر اعظم کے انتخاب کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے رکن قانون ساز اسمبلی فاروق حیدر کے وکلا نے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی۔