عید کے دن کیسے گزاریں؟

تحریر : مولانا محمد کلیم اللہ حنفی


ادیان عالم میں ہر مذہب سے وابستہ ہر قوم اپنا ایک مذہبی تہوار رکھتی ہے۔ جس میں وہ اپنی خوشی کے اظہار کے ساتھ ساتھ اپنے جداگانہ تشخص کا اظہار بھی کرتی ہے۔مسلمانوں کی عید دیگر مذاہب و اقوام کے تہواروں سے بالکل مختلف حیثیت رکھتی ہے۔اہل اسلام کی عید اپنے اندر اطاعتِ خداوندی،اسوہ نبوی ،جذبہ ایثار و قربانی، اجتماعیت،غریب پروری، انسانی ہمدردی رکھتی ہے۔ جانور کی قربانی کرنا دراصل اسلامی احکامات پر عمل کرنے کیلئے خواہشات کی قربانی کا سنگ میل ہے۔

یہ دن کیسے گزارا جائے آئیے شریعت کی رہنمائی میں دیکھتے ہیں۔ 

(1)بہتر ہے کہ عیدالاضحیٰ والے دن نماز عید کے  بعد قربانی کے گوشت سے کھانے پینے کا آغاز کریں (اس سے پہلے کچھ نہ کھائیں پئیں)، (2)غسل کرنا، (3) خوشبو لگانا، (4)مسواک کرنا، (5) عمدہ ، صاف ، پاک اور اچھا لباس پہننا، (6) عید کی نماز کیلئے ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا، (7) عید گاہ تک پیدل جانا، (8)بلند آواز سے تکبیر تشریق کہنا۔ عید کے روز عید کی نماز سے قبل گھر میں یا عید گاہ میں کوئی بھی نماز پڑھنا مکروہ ہے۔

عیدین کی نمازکا وقت سورج کے اچھی طرح نکل آنے سے شروع ہوتا ہے اور سورج ڈھلنے تک رہتا ہے۔عید کے تین دن ہوتے ہیں۔ 

عید کی نماز دو رکعت ہے۔ عام نماز اور عید کی نماز میں یہ فرق ہے کہ اس میں چھ تکبیریں زیادہ کہی جاتی ہیں۔تکبیرِ تحریمہ کے بعد ہاتھ باندھ کر ثنا پڑھی جائے گی، پھروقفے وقفے سے دو دفعہ تکبیر کہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دیے جائیں گے اور پھر تیسری دفعہ تکبیر کہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک اٹھا کر باندھ لئے جائیں گے۔ پھر امام صاحب بآوازِ بلند سورۃ الفاتحہ اور کوئی اور سورت پڑھیں گے۔پھر رکوع اور سجدہ جیسا کہ باقی نمازوں میں ادا کرتے ہیں اسی طرح کریں گے۔دوسری رکعت میں قرآت کے بعد، رکوع میں جانے سے پہلے امام صاحب کی پیروی میں وقفے وقفے سے تین دفعہ تکبیر کہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دیے جائیں گے اور پھر چوتھی دفعہ تکبیر کہتے ہوئے رکوع کیا جائے گا۔ دو تکبیروں کے درمیان اتنا وقفہ مستحب ہے کہ جس میں تین مرتبہ تسبیح (سبحان اللہ ) پڑھا جا سکے۔ عید کی نماز کے بعد امام صاحب جمعہ کی طرح دوخطبے دیں گے۔

 ایامِ تشریق 9 ذوالحجہ نماز فجر سے لے کر 13 ذوالحجہ نماز عصر تک ہوتا ہے۔ ایامِ تشریق میں ہر فرض نماز کے بعد ایک بار تکبیرِ تشریق کہنا ہر نمازی پر واجب ہے۔تکبیراتِ تشریق کے الفاظ: اَللہ اَکبَر، اَللہ اَکبَر، لَااِلٰہَ اِلَّا اللہْ وَاللہْ اَکبَر ، اَللہ اَکبَر ، ولِلّٰہِ الحَمدْترجمہ: اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اوراللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے ، اور تمام تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں۔

 عید الاضحی کی نماز کے بعد صاحب استطاعت لوگ اللہ کی راہ میں گائے، بھینس، بھیڑ، بکری یا اونٹ (نر یا مادہ)خالص اللہ کی رضا کیلئے ذبح کریں گے۔

قربانی کا وقت 10 ذی الحجہ کو نمازِ عید کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور 12 ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک وقت رہتا ہے۔ اگر کسی بھی جگہ عید کی نماز نہیں ہوئی تھی کہ کسی شہری نے قربانی کردی تو قربانی نہیں ہوگی۔مستحب یہ ہے کہ خطبہ عید کے بعد قربانی کریں۔ پہلا دن قربانی کیلئے سب سے افضل ہے، پھر دوسرے دن کا درجہ ہے، پھر تیسرے دن کا۔کسی ایک جگہ نماز عید کا ہوجانا قربانی کے جانور ذبح کرنے کیلئے کافی ہے۔اگر شہر میں متعدد جگہ نماز عید ہوتی ہے تو قربانی کی صحت کیلئے ایک جگہ نماز ہوجانا کافی ہے۔ ہر قربانی کرنے والے کا نماز عید پڑھ کر قربانی کرنا ضروری نہیں۔ 

دسویں اور تیرہویں رات کو قربانی کرنا جائز نہیں۔ گیارہویں اور بارہویں رات کو جائز ہے، مگر رات میں رگیں نہ کٹنے، یا ہاتھ کٹنے، یا قربانی کے جانور کے آرام میں خلل کے اندیشہ سے ذبح کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔اس حوالے سے ایک اہم بات یاد رکھیں کہ قصاب کا مسلمان ہونا ضروری ہے ان دنوں میں بعض غیر مسلم مثلا ًمسیحی بھی جانور ذبح کرنے کیلئے قصابوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔ اگر ان سے ذبح کرایا تو شرعا قربانی ادا نہیں ہوگی۔

اس کے بعد مرحلہ پیش آتا ہے گوشت کو تقسیم کرنے کا۔اگر وزن کی مشقت سے بچنا چاہیں تو اس کی آسان تدبیر یہ ہے کہ سری پائے یا کلیجی کے ٹکڑے کرکے ہر حصہ میں ایک ایک ٹکڑا رکھ دیا جائے۔ اس طرح اندازہ سے تقسیم کرنا بھی جائز ہو جائے گا۔  اگر کسی نے پورا جانور اپنے گھر کے افراد کیلئے رکھ لیا تو تقسیم کرنا ضروری نہیں، مثلاً: گائے خریدی اور اس کا ایک حصہ اپنے لیے، ایک حصہ بیوی کیلئے اور باقی حصص بالغ اولاد کیلئے رکھ لیے، پھر ذبح کرنے کے بعد پورا گوشت تقسیم کئے بغیر گھر میں رکھ لیا اور سب ایک ہی گھر میں رہتے اور کھانا مشترک کھاتے ہیں تو جائز ہے۔ 

افضل یہ ہے کہ قربانی کا گوشت تین حصے کر کے ایک حصہ اپنے اہل و عیال کیلئے رکھے، ایک حصہ اقارب و احباب میں تقسیم کرے، ایک حصہ فقراء میں تقسیم کرے۔ جس شخص کے اہل و عیال زیادہ ہوں وہ تمام گوشت خود بھی رکھ سکتا ہے۔

عیدالاضحی پر قربان کئے جانے والے جانوروں کی آلائشوں کو شاہراہوں اور گلیوں میں نہ ڈالیں بلکہ ان آلائشوں کو کچرا کنڈیوں یا پہلے سے طے شدہ مخصوص مقامات تک پہنچائیں تاکہ وہاں سے انہیں آسانی سے اٹھا لیا جائے انہوں نے کہا کہ آلائشوں کے علاوہ جانوروں کے استعمال میں آنے والی مختلف اشیا بالخصوص چارے وغیرہ کو بھی گلیوں میں نہ پھینکیں تاکہ گلی محلے صاف رہیں، آلائشوں اور قربانی سے متعلق بچ جانے والے دیگر سامان کو پبلک مقامات پر نہ پھینکیں۔ اس حوالے سے مقامی انتظامیہ کے ساتھ بھرپور تعاون کریں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

26ویں آئینی ترمیم کے بعد۔۔۔

بالآخر26ویں آئینی ترمیم منظور ہو گئی‘ جس کی منظوری کے بعد اس پر عملدرآمد بھی ہو گیا۔ ترمیم منظور ہونے کے بعد ایک غیریقینی صورتحال کا خاتمہ ہوا اور ملک میں ایک نیا عدالتی نظام قائم کر دیا گیا جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے بڑے اور اہم اختیارات تقسیم کر دیے گئے ہیں۔ آئینی ترمیم کا عمل حیران کن طور پر خوش اسلوبی سے مکمل ہو گیا۔

آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج،بے وقت کی را گنی وکلا ءکا ردعمل کیا ہو گا؟

چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب پر جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی کے عمل کے بعد ملک کے سیاسی محاذ پر ٹھہرائو کے امکانات روشن ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے عمل کو ملک میں ترقی، خوشحالی اور سیاسی و معاشی استحکام کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس عمل سے عوام کیلئے عدل و انصاف کے دروازے کھلیں گے اور ملک آگے کی طرف چلے گا۔

سیاست سے انتقام ختم کریں؟

ملک بھر کے میڈیا پر آج کل صرف ایک ہی خبر اہم ترین ہے اور وہ ہے 26 ویں آئینی ترمیم کے مثبت اور منفی اثرات۔لیکن محلاتی سازشیں ہوں یا چاہے کچھ بھی ہورہا ہو، عوام کا اصل مسئلہ تو یہی ہے کہ انہیں کیا مل رہا ہے۔

پولیس ایکٹ میں تبدیلی سیاسی مداخلت نہیں؟

پاکستان تحریک انصاف مسلم لیگ( ن) پر’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے کو تبدیل کرنے کا الزام لگاتی ہے لیکن خود پی ٹی آئی نے جس طرح یوٹرن لیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔بانی پی ٹی آئی کے نظریے کے برعکس خیبرپختونخوا حکومت نے محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت کی راہ ہموار کردی ہے۔ پولیس ایکٹ 2017ء میں خیبرپختونخوا پولیس کو غیر سیاسی بنانے کیلئے قانون سازی کی گئی تھی اور وزیراعلیٰ سے تبادلوں اورتعیناتیوں سمیت متعدد اختیارات لے کر آئی جی کو سونپ دیئے گئے تھے۔

26ویں آئینی ترمیم،ملا جلا ردعمل

26ویں آئینی ترمیم کو جہاں سیا سی عمائدین پاکستان کے عدالتی نظام میں احتساب اور کارکردگی کو بہتر بنا نے کیلئے ضروری قرار دیتے ہیں وہیں کچھ سیا سی جماعتیں اور وکلاتنظیمیں آئینی ترمیم کوعدالتی آزادی اور قانون کی حکمرانی پر قدغن سمجھتی ہیں۔

وزیراعظم کا انتخاب،معاملہ ہائیکورٹ میں

آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے چوہدری انوار الحق کے بطور وزیر اعظم انتخاب کے خلاف درخواست پر لار جر بنچ تشکیل دے دیا ہے۔ وزیر اعظم کے انتخاب کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے رکن قانون ساز اسمبلی فاروق حیدر کے وکلا نے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی۔