عید الاضحی:صبرووفا،اطاعت ربانی کی عظیم داستان

تحریر : مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان


عید الاضحی ایک اسلامی تہوار ہے اور عبادت و خوشی کے اظہار کا دن بھی ہے۔ ہر قوم میں خوشی کے اظہار کے کچھ دن ہوا کرتے ہیں۔ زمانہ جہالیت میں بھی سرکار دوعالم ﷺجب ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو وہاں کے لوگ دو دن ناچ گانے کھیل کود میں گزارا کرتے۔

جب آپﷺ کو ان کی خوشی کے ان ایام کا بتایا گیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ مسلمانوں کو اللہ نے ان کے دو ایام سے بہتر دو ایام عید الفطر اور عید الاضحی عطا فرمائے ہیں اور یہ مقدس دن عبادت اطاعت و تسلیم رضا کے دن ہیں۔ عیدالاضحی میں تمام فرزندان اسلام عام ایام کی نسبت زیادہ عبادت ایک نماز عید بڑھ جانے اور قربانی کے صورت میں کرتے ہیں۔

قربانی اہم مالی عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے۔ اسی لئے اس عمل کو بڑی فضیلت اور اہمیت حاصل ہے، بارگاہ الٰہی میں قربانی پیش کرنے کا سلسلہ جد الانبیاء حضرت آدم علیہ السلام سے ہی چلا آ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدہ میں حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں ہابیل و قابیل کے قصہ کا ذکر فرمایا ہے کہ دونوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور قربانی پیش کی، ہابیل نے عمدہ دنبہ قربان کیا اور قابیل نے کچھ زرعی پیداوار یعنی غلہ پیش کیا۔ قربانی کا عمل ہر امت میں مقرر کیا گیا، سورۃ الحج آیت نمبر 34 میں ارشاد ربانی ہوتا ہے: ’’اور ہم نے ہر اُمت کیلئے قربانی اس غرض کیلئے مقرر کی ہے کہ وہ مویشیوں پر اللہ تعالیٰ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایا‘‘، البتہ اس کے طریقے اور صورت میں کچھ فرق ضرور رہا ہے۔ انہی میں سے قربانی کی ایک عظیم الشان صورت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اُمت محمدیہ کو عیدالاضحٰی کی قربانی کی صورت میں عطا فرمائی ہے جو کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی قربانی کی یادگار ہے۔ 

قربانی کیلئے قرآن کریم میں تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں، جو درج ذیل ہیں۔

قربانی: ’’(اے نبی مکرم ) آپؐ ان لوگوں کو آدم ؑ کے دو بیٹوں (ہابیل و قابیل) کی خبر سنائیں جو بالکل سچی ہے۔ جب دونوں نے (اللہ کے حضور ایک ایک) قربانی پیش کی، سو ان میں سے ایک (ہابیل) کی قبول کر لی گئی اور دوسرے (قابیل) سے قبول نہ کی گئی تو اس (قابیل) نے (ہابیل سے حسداً و انتقاماً) کہا: میں تجھے ضرور قتل کر دوں گا، اس (ہابیل) نے (جواباً) کہا: بیشک اللہ پرہیزگاروں سے ہی (نیاز) قبول فرماتا ہے۔

منسک: ’’اور ہم نے ہر امت کیلئے ایک قربانی مقرر کر دی ہے تاکہ وہ ان چوپایوں پر جو اللہ نے انہیں عنایت فرمائے ہیں (ذبح کے وقت) اللہ کا نام لیں، سو تمہارا معبود ایک (ہی) ہے پس تم اسی کے فرمانبردار بن جاؤ، اور (اے حبیبؐ!) عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں (الحج: 34)۔

نحر:’’بیشک ہم نے آپ ؐ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہے۔ پس آپؐ اپنے رب کیلئے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں۔ بیشک آپؐ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام و نشاں ہو گا (الکوثر:1 تا 3)۔

قرآن کریم سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم پر قربانی لازم کی ہے۔ ٹھیک اسی طرح ہر اُمت پر نماز و روزہ فرض فرمائے۔

قربانی کی فضیلت  بارے چند ارشادات نبوی حسب ذیل ہیں: حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :عیدالاضحٰی کے دن قربانی کے جانور کا خون بہانے سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو کوئی عمل محبوب نہیں، قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور اپنے کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے پاس پہنچ جاتا ہے سو تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔

امام ابو عیسیٰ ترمذی نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قربانی کرنیوالے کو قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلہ میں ایک نیکی ملے گی (الترمذی: 1493)، حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ دس سال مدینہ میں رہے اور آپ ﷺ ہر سال قربانی کرتے تھے ( الترمذی:  1507)۔ حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے فاطمہ ! اپنی قربانی کے جانور کی نگہبانی کرو، اس کے خون کے ہر قطرہ کے بدلہ میں تمہارے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔ اُنہوں نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ! کیا اس کا اجر صرف اہل بیت کیلئے خاص ہے یا تمام مسلمانوں کیلئے ہے، آپﷺ نے فرمایا ہمارے اور تمام مسلمانوں کیلئے ہے (مسند البزار :  5934)۔حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا اپنی قربانیوں کیلئے عمدہ جانور تلاش کرو کیونکہ وہ پل صراط پر تمہاری سواریاں ہوں گے۔ (کنزالعمال: 12177)

قربانی کے شرعی حکم کے بارے میں چند ارشادات نبویﷺ حسب ذیل ہیں:حضرت مخنف بن سلیمؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے میدان عرفات میں آپ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سُنا، اے لوگو! ہر گھر والے پر ہر سال میں اضحیہ (قربانی) اور عتیرہ ہے، کیا تم جانتے ہو عتیرہ کیا چیز ہے؟ یہ وہی ہے جس کو تم رجبیہ کہتے ہو (ابودائود: 2788) ، علامہ المبارک بن محمد ابن الاثیر الجزری لکھتے ہیں: عرب نذر مانتے تھے کہ اگر فلاں کام ہوگیا تو وہ رجب میں ایک قربانی کریں گے اس کو وہ عتیرہ اور جبیہ کہتے تھے۔ 

حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا: کیا قربانی واجب ہے، انھوں نے کہا :رسول اللہ ﷺ نے قربانی کی ہے، اس نے اپنا سوال دہرایا: تو حضرت ابن عمر نے کہا: کیا تم کو عقل ہے ! رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے (الترمذی :1506)

حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (حجِ) تمتع کیا، ہم نے گائے کی قربانی کی اور اس میں سات آدمی شریک ہوئے۔ (صحیح مسلم: 1318)۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے، پس عید الاضحی کا دن آ گیا، سو ہم گائے میں سات افراد شریک ہوئے اور اونٹ میں دس آدمی شریک ہوئے (الترمذی:905)۔ حضرت اسحٰق بن راھویہ نے اس ظاہر حدیث پر عمل کیا ہے اور وہ اونٹ میں دس آدمیوں کی شرکت کو جائز کہتے ہیں اور جمہور فقہا نے کہا ہے کہ اونٹ میں بھی صرف سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں اور ان کا استدلال درج ذیل حدیث سے ہے:حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا گائے کی قربانی بھی سات افراد کی طرف سے ہو سکتی ہے اور اونٹ کی قربانی بھی سات افراد کی طرف سے ہوسکتی ہے ( ابودائود: 2808)۔

حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم صرف ایک سال کا بکرا ذبح کرو، اگر وہ تم پر دشوار ہو تو چھ ماہ کا دنبہ (مینڈھا) ذبح کردو (صحیح مسلم:1963)۔ حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا: قربانی کے جانور شنی یا اس سے زیادہ عمر کے ہونے چاہیں۔ (موطا امام مالک:870)، شنی سے مراد دو دانت والا (دوندا)، اور اس کا مصداق ایک سال کا بکرا ہے اور دو سال کی گائے اور پانچ سال کا اونٹ۔ (جامع الاصول، ج2، ص 250)

وہ عیوب جن کی وجہ سے کسی جانور کی قربانی جائز نہیں ہے ان کی تفصیل احادیث مبارکہ کی روشنی میں حسب ذیل ہے:حضرت عبید بن فیروزؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت البراءؓ سے پوچھا: کون سے جانوروں کی قربانی جائز نہیں؟ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمارے درمیان کھڑے ہو کر فرمایا: چار جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے، ایسا کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو، ایسا بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو، ایسا لنگڑا جس کا لنگ ظاہر ہو، میں نے کہا: جس کی عمر کم ہویا وہ مجھے ناپسند ہے، انھوں نے کہا جو تم کو ناپسند ہو اس کی قربانی نہ کرو اس کو کسی اور کیلئے حرام نہ کرو۔ سنن ترمذی کی ایک روایت میں ہے نہ اتنی کمزور اور لاغر ہو جس کی ہڈیوں میں مغز نہ ہو۔ (ابو داؤد:2802)

نماز عید پڑھنے سے قبل قربانی کرنے سے متعلق چند ایک ارشادات نبویﷺ حسب ذیل ہیں: حضرت جندب بن عبداللہ البجلیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں عیدالاضحیٰ کے دن رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا، نماز عید سے فارغ ہونے کے بعد، آپ ﷺ نے دیکھا کہ کچھ لوگوں نے نماز عید سے پہلے قربانیاں کر دی ہیں، آپﷺ نے فرمایا : جس شخص نے نماز عید سے پہلے قربانی کی ہے وہ اس کی جگہ دوسری قربانی کرے (صحیح بخاری:985)۔

 حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک سینگوں والے مینڈھے کو لانے کا حکم دیا، وہ آپ ﷺ کے پاس قربانی کرنے کیلئے لایا گیا۔ آپﷺ نے فرمایا: اے عائشہ چھری لائو، پھر فرمایا اس کو پتھر پر تیز کرو، پھر چھری لے کر مینڈھے کو پکڑ کر قبلہ رخ گرایا، پھر اس کو ذبح کرنے لگے اور پڑھا بسم اللہ ! اے اللہ اس کو محمد ﷺ اور آل محمد ﷺ اور امت محمد ﷺ کی طرف سے قبول فرما، پھر اس کو ذبح کر دیا (صحیح مسلم: 1968)۔ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ اور اصحابہ کرامؓ اونٹنی کو نحر کرتے تھے، اس کا الٹاپیر باندھا ہوا ہوتا تھا اور وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوتی تھی ( ابو دائود : 1767)

قربانی کی کھال سے اگر کوئی شخص جائے نماز بنائے تو تمام فقہاء کرام کے نزدیک ایسا جائز ہے۔ اگر فروخت کریں تو اس کی قیمت مناسب مصرف میں استعمال کی جائے اور ہرگز اپنے پاس نہ رکھی جائے۔ یہ کھالیں کسی بھی فلاحی و دینی کام میں استعمال کی جا سکتی ہیں۔ 

 اونٹ پانچ سال کا، گائے، بھینس دو سال کی، بکری، بھیڑ ایک سال کی۔ یہ عمر کم از کم حد ہے۔ اس سے کم عمر کے جانور کی قربانی جائز نہیں (ہدایہ ، کتاب الاضحی، ص 345)

قربانی کاجانور تین میں سے کسی ایک جنس کا ہونا ضروری ہے۔بکری، اونٹ،گائے۔ ہر جنس میں اس کی نوع داخل ہے۔ مذکر، مونث، خصی، غیر خصی سب کی قربانی جائز ہے۔ بھیڑ اور دنبہ بکری کی جنس میں اور بھینس گائے کی جنس میں شامل ہے۔ 

 

کسی وحشی جانور کی قربانی جائز نہیں۔

 حلال جانور کے سب اجزا حلال ہیں مگر کچھ حصے حرام یا ممنوع یا مکروہ ہیں۔سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ بکری (وغیرہ) میں سات اعضاء کو مکروہ خیال کرتے تھے،پتہ،مثانہ، پچھلی اور اگلی شرمگاہ، کپورے، غدود، خون (المعجم الاوسط للطبرانی: 9480)

مسجد، مدرسہ، رفاہی ادارے، غریب، یتیم، بیوہ وغیرہ کو دے سکتا ہے۔ امام مسجد اگر غریب ہے تو بطور اعانت اسے بھی کھال دے سکتے ہیں۔(بہار شریعت ، 148:15) غربا و مساکین کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے والے بااعتماد فلاحی ادارے کو دی جا سکتی ہیں۔ غریب و مستحق طلبا کی تعلیم پر خرچ کی جا سکتی ہیں۔ بیمار لوگوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے کیلئے خرچ کی جا سکتی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

26ویں آئینی ترمیم کے بعد۔۔۔

بالآخر26ویں آئینی ترمیم منظور ہو گئی‘ جس کی منظوری کے بعد اس پر عملدرآمد بھی ہو گیا۔ ترمیم منظور ہونے کے بعد ایک غیریقینی صورتحال کا خاتمہ ہوا اور ملک میں ایک نیا عدالتی نظام قائم کر دیا گیا جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے بڑے اور اہم اختیارات تقسیم کر دیے گئے ہیں۔ آئینی ترمیم کا عمل حیران کن طور پر خوش اسلوبی سے مکمل ہو گیا۔

آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج،بے وقت کی را گنی وکلا ءکا ردعمل کیا ہو گا؟

چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب پر جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی کے عمل کے بعد ملک کے سیاسی محاذ پر ٹھہرائو کے امکانات روشن ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے عمل کو ملک میں ترقی، خوشحالی اور سیاسی و معاشی استحکام کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس عمل سے عوام کیلئے عدل و انصاف کے دروازے کھلیں گے اور ملک آگے کی طرف چلے گا۔

سیاست سے انتقام ختم کریں؟

ملک بھر کے میڈیا پر آج کل صرف ایک ہی خبر اہم ترین ہے اور وہ ہے 26 ویں آئینی ترمیم کے مثبت اور منفی اثرات۔لیکن محلاتی سازشیں ہوں یا چاہے کچھ بھی ہورہا ہو، عوام کا اصل مسئلہ تو یہی ہے کہ انہیں کیا مل رہا ہے۔

پولیس ایکٹ میں تبدیلی سیاسی مداخلت نہیں؟

پاکستان تحریک انصاف مسلم لیگ( ن) پر’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے کو تبدیل کرنے کا الزام لگاتی ہے لیکن خود پی ٹی آئی نے جس طرح یوٹرن لیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔بانی پی ٹی آئی کے نظریے کے برعکس خیبرپختونخوا حکومت نے محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت کی راہ ہموار کردی ہے۔ پولیس ایکٹ 2017ء میں خیبرپختونخوا پولیس کو غیر سیاسی بنانے کیلئے قانون سازی کی گئی تھی اور وزیراعلیٰ سے تبادلوں اورتعیناتیوں سمیت متعدد اختیارات لے کر آئی جی کو سونپ دیئے گئے تھے۔

26ویں آئینی ترمیم،ملا جلا ردعمل

26ویں آئینی ترمیم کو جہاں سیا سی عمائدین پاکستان کے عدالتی نظام میں احتساب اور کارکردگی کو بہتر بنا نے کیلئے ضروری قرار دیتے ہیں وہیں کچھ سیا سی جماعتیں اور وکلاتنظیمیں آئینی ترمیم کوعدالتی آزادی اور قانون کی حکمرانی پر قدغن سمجھتی ہیں۔

وزیراعظم کا انتخاب،معاملہ ہائیکورٹ میں

آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے چوہدری انوار الحق کے بطور وزیر اعظم انتخاب کے خلاف درخواست پر لار جر بنچ تشکیل دے دیا ہے۔ وزیر اعظم کے انتخاب کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے رکن قانون ساز اسمبلی فاروق حیدر کے وکلا نے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی۔