عید کے بعد حکومت کے تین امتحان

تحریر : عدیل وڑائچ


وطنِ عزیز کے سیاسی منظر نامے پرآئندہ چند ماہ میں تین عوامل اثر انداز ہو تے دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک معاشی، ایک عدالتی جبکہ ایک عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلی ہے۔ سب سے پہلے معاشی معاملے کی بات کرلیتے ہیں۔آئندہ چند روز میں وفاقی بجٹ منظور کر لیا جائے گا اور یکم جولائی سے نئے بجٹ کا باقاعدہ اطلاق ہو گا۔

جس کے ساتھ ہی 3800 ارب روپے کے اضافی ٹیکسز کا بوجھ عملی طور پر عوام پر پڑے گا۔آئی ایم ایف کی شرائط پر تیار ہونے والے اس بجٹ کے منظور ہونے کے بعد پاکستان کا مڈل کلاس طبقہ ٹیکسوںکے مزید بوجھ تلے پس کر رہ جائے گا۔ اس بجٹ کو ٹیکسوں کا بجٹ کہا جارہا ہے جہاں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنی بڑے پیمانے پر ٹیکس عائد کئے گئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے گزشتہ مالی سال کی نسبت 38 فیصد اضافی ٹیکس لگانے کامقصد تو اپنے محصولات بڑھانا اور ٹیکس نیٹ میں اضافے کیلئے اقدامات کرنا ہے مگر عام آدمی اس مہنگائی کی چکی میں پس کر رہ جائے گا۔ پٹرول اورڈیزل کی قیمتوں میں لیوی کو 60 روپے سے بڑھا کر 80 روپے کرنے کا فیصلہ آنے والے دنوں میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرے گا، جس سے ملک میں مہنگائی بڑھنے کا خدشہ ہے۔  پٹرولیم لیوی بڑھنے سے عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی گرتی ہوئی قیمتوں کے اثرات بھی عام آدمی تک نہیں پہنچ سکیں گے۔  تاہم حکومت اس بوجھ کو فوری طور پر عوام پر منتقل کرنے کی بجائے آئندہ مالی سال کے دوران مرحلہ وار منتقل کرے گی۔  دوسری جانب نیپرا نے حکومتی درخواست پر بجلی کے بنیادی ٹیرف میں پانچ روپے بہتر پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری دے دی ہے۔ اسے بھی حکومت ایک سے زائد مراحل میں صارفین کو منتقل کرے گی۔ اس میں اضافہ پہلے سے مہنگی بجلی کو مزید مہنگا کردے گا۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے مگر تنخوہ دار طبقے پر ٹیکسوں کی بھرمار کر دی گئی ہے؛ جبکہ نجی شعبے کے ملازمین کو تو صرف ٹیکس میں اضافے کی صورت میں تنخواہ میں کٹوتی ملی ہے اور ان کی قوتِ خرید مزید کم ہونے جا رہی ہے۔

تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے نان فائلرز پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ ریٹیلرز یہ اضافی شرح بھی صارفین کو منتقل کریں گے اور عام آدمی کو اس ٹیکس کیلئے اضافی رقم ادا کرنا پڑے گی۔ اس کے علاوہ جنرل سٹورز کی پیکڈآئٹمز پر بھی ٹیکس چھوٹ ختم کر دی گئی ہے۔ یوں مہنگی توانائی اور ٹیکسوں کی بھرمار کے باعث مہنگائی کا اک نیا طوفان آتا دکھائی دے رہا ہے۔ حکومتی ناقدین کا خیال ہے کہ اس صورتحال میں امکانات موجود ہیں کہ اگست کے بعد حکومت کو عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب حکومت کی سب سے بڑی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی حکومت کی معاشی پالیسیوں کا ساتھ دینے کیلئے تیار نظر نہیںآتی۔ سابق وزیر اعظم اور پی ٹی ئی کے بانی بھی اگست میں اپنی پارٹی کو احتجاج کی کال دینے کا ارادہ رکھتے ہیں اور وہ حکومت پر دباؤ بڑھانے کیلئے خیبر پختونخوا حکومت کے ذریعے لوگوں کو سڑکوں پر لانے کی حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں۔ ایسے میں مہنگائی کی صورتحال تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک کو فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ 

سیاسی منظر نامے پر اثر انداز ہونے والا دوسرا انتہائی اہم فیکٹر عدالتی محاذ ہے جہاں تیس کے لگ بھگ کیسز ایسے ہیں جن کے فیصلے حکومت کے سیاسی مستقبل پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ سب سے اہم آ ئینی کیس سُنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے  متعلق ہے جسے سپریم کورٹ آف پاکستان کا 13 رکنی بینچ سُن رہا ہے۔ اس کیس میں یہ طے ہونا ہے کہ سنی اتحاد کونسل کی  مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو ملنی ہیں یا نہیں ؟ اگر یہ نشستیں حکمران اتحاد کو نہیں ملتیں تو ان کادو تہائی اکثریت کا خواب چکنا چور ہو جائے گا اور حکومت آئینی ترامیم کرنے کی طاقت حاصل نہیں کر پائے گی، جس سے مستقبل میں ایک اہم فیصلہ جڑا ہے۔ حکومت کیلئے بانی پی ٹی آئی اور ان کابیانیہ مسلسل درد سر ہے ،آنے والے مہینوں میں انہیں جیل میں لمبے عرصے کیلئے رکھنا کسی چیلنج سے کم نہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد افضل مجوکا کی عدالت کو بانی پی ٹی آئی کی عدت کیس میں سزا معطلی کی درخواست پر دس روز میں فیصلہ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ یہی واحد کیس ہے  جس میں بانی پی ٹی آئی گرفتار ہیں۔ اب سے کچھ عرصہ قبل تک بانی پی ٹی آئی پانچ کیسز میں گرفتار تھے ، سب سے اہم اور تگڑے کیس، سائفر میں برَی ہو چکے ہیں، توشہ خانہ نیب ریفرنس اور توشہ خانہ فوجداری کیسز میں بھی سزائیں معطل ہو چکی ہیں۔ القادر ٹرسٹ کیس میں ان کی ضمانت ہو چکی ہے البتہ عدت کیس میں رہائی کی صورت میں انتظامیہ نے ان کے خلاف دو نئے کیسز تیار کر رکھے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی فوری طور پر تو باہرآتے دکھائی نہیں دے رہے مگر ان کے خلاف مقدمات میں ایک کے بعد ایک ریلیف حکومت کیلئے مشکلات ضرور پیدا کرتا جا رہا ہے۔ 

اسلام آباد ہائیکورٹ میں دو ججز کے خلاف مہم سے متعلق توہین عدالت کی کارروائیاں بھی ان دنوں زیر التوا ہیں۔ الیکشن ٹربیونل سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی پٹیشن پرآج سپریم کورٹ میں سماعت ہو رہی ہے۔ اس کیس میں یہ طے ہونا ہے کہ الیکشن ٹربیونل میں ججز کی تقرری الیکشن کمیشن کا اختیار ہے یا ہائیکورٹس کا۔جبکہ الیکشن ٹربیونلز سے متعلق آرڈیننس کا معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ اور لاہور ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے، جس سے متعلق فیصلہ انتخابی دھاندلی سے متعلق کیسز کے مستقبل پر اثر انداز ہو گا۔ عدالتی محاذ پر ان آئینی اور قانونی معاملات کا سامنا حکومت کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں۔

پاکستان تحریک انصاف امید لگائے بیٹھی ہے کہ امریکا میںآنے والے صدارتی انتخابات کے نتائج پاکستانی سیاست پر اثر انداز ہوں گے۔ ان کے مطابق صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اگر صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہیں تو انہیں  نئی امریکی انتظامیہ سے مدد مل سکتی ہے۔ مگر اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھی شخصیات یہ سمجھتی ہیں کہ امریکی انتخابات کے نتائج  کچھ بھی ہوں اس کے پاکستان کی موجودہ صورتحال پر اثرات نہیں پڑیں گے۔ ایسا ممکن نظر نہیںآتا کہ ٹرمپ کی جیت کی صورت میں وہ بانی پی ٹی آئی یا ان کی جماعت کے ریلیف کیلئے پاکستانی انتظامیہ پر اثر انداز ہو ں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

26ویں آئینی ترمیم کے بعد۔۔۔

بالآخر26ویں آئینی ترمیم منظور ہو گئی‘ جس کی منظوری کے بعد اس پر عملدرآمد بھی ہو گیا۔ ترمیم منظور ہونے کے بعد ایک غیریقینی صورتحال کا خاتمہ ہوا اور ملک میں ایک نیا عدالتی نظام قائم کر دیا گیا جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے بڑے اور اہم اختیارات تقسیم کر دیے گئے ہیں۔ آئینی ترمیم کا عمل حیران کن طور پر خوش اسلوبی سے مکمل ہو گیا۔

آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج،بے وقت کی را گنی وکلا ءکا ردعمل کیا ہو گا؟

چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب پر جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی کے عمل کے بعد ملک کے سیاسی محاذ پر ٹھہرائو کے امکانات روشن ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے عمل کو ملک میں ترقی، خوشحالی اور سیاسی و معاشی استحکام کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس عمل سے عوام کیلئے عدل و انصاف کے دروازے کھلیں گے اور ملک آگے کی طرف چلے گا۔

سیاست سے انتقام ختم کریں؟

ملک بھر کے میڈیا پر آج کل صرف ایک ہی خبر اہم ترین ہے اور وہ ہے 26 ویں آئینی ترمیم کے مثبت اور منفی اثرات۔لیکن محلاتی سازشیں ہوں یا چاہے کچھ بھی ہورہا ہو، عوام کا اصل مسئلہ تو یہی ہے کہ انہیں کیا مل رہا ہے۔

پولیس ایکٹ میں تبدیلی سیاسی مداخلت نہیں؟

پاکستان تحریک انصاف مسلم لیگ( ن) پر’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے کو تبدیل کرنے کا الزام لگاتی ہے لیکن خود پی ٹی آئی نے جس طرح یوٹرن لیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔بانی پی ٹی آئی کے نظریے کے برعکس خیبرپختونخوا حکومت نے محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت کی راہ ہموار کردی ہے۔ پولیس ایکٹ 2017ء میں خیبرپختونخوا پولیس کو غیر سیاسی بنانے کیلئے قانون سازی کی گئی تھی اور وزیراعلیٰ سے تبادلوں اورتعیناتیوں سمیت متعدد اختیارات لے کر آئی جی کو سونپ دیئے گئے تھے۔

26ویں آئینی ترمیم،ملا جلا ردعمل

26ویں آئینی ترمیم کو جہاں سیا سی عمائدین پاکستان کے عدالتی نظام میں احتساب اور کارکردگی کو بہتر بنا نے کیلئے ضروری قرار دیتے ہیں وہیں کچھ سیا سی جماعتیں اور وکلاتنظیمیں آئینی ترمیم کوعدالتی آزادی اور قانون کی حکمرانی پر قدغن سمجھتی ہیں۔

وزیراعظم کا انتخاب،معاملہ ہائیکورٹ میں

آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے چوہدری انوار الحق کے بطور وزیر اعظم انتخاب کے خلاف درخواست پر لار جر بنچ تشکیل دے دیا ہے۔ وزیر اعظم کے انتخاب کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے رکن قانون ساز اسمبلی فاروق حیدر کے وکلا نے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی۔