اسلام کامعاشرتی نظام

تحریر : مفتی ڈاکٹرمحمد کریم خان


’’اور جس نے (اپنے) نفس کو (بری) خواہشات سے روکا، سو بیشک اس کا ٹھکانہ بہشت ہی ہے‘‘ (سورۃ النازعات:40،41) ’’اچھی بات کہنااور درگزرکرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد ستانا ہو‘‘ (البقرہ:263)جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے مہمان کی تکریم کرنی چاہئے۔(صحیح مسلم:281)

انسان طبعی طور پر مل جل کر رہنا پسند کرتا ہے اور انسانوں کے باہم میل ملاپ سے ہی انسانی معاشرت جنم لیتی ہے۔ اسی لیے اسلام نے اپنے ماننے والوں کیلئے معاشرتی اصول وضع کئے ہیں، جن کو قرآن و حدیث اور آئمہ اسلام نے بیان کیا ہے۔ اس مختصر مضمون میں اسلام کے انہی سنہرے معاشرتی اصولوں میں سے چند ایک کو ذکر کیا جا رہا ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اپنی امت کے بارے مجھے جس چیز کی بابت زیادہ خطرہ ہے وہ خواہشات کی پیروی اور لمبی امیدیں باندھنا ہے‘‘ (شعب الایمان: 10129)۔ علامہ ابن حجر عسقلانیؒ کی روایت کردہ حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں: آپ ﷺ نے فرمایا ’’مجھے اگر تم پرکسی چیزکاخوف ہے تو وہ یہ کہ خواہشات کا پیروکار بن جانا اور لمبی امیدیں قائم کر لینا، جہاں تک خواہشات کی پیروی کا تعلق ہے حق سے رکنا (رو گردانی) ہے اور لمبی امیدوں سے مراد آخرت کو بھول جانا ہے۔ سن لیں! دنیا پیٹھ پھیرکر کوچ کر رہی ہے‘‘ (فتح الباری، ج3، ص 348)۔ امام بخاریؒ کے الفاظ درج ذیل ہیں: ’’دنیا جانے والی ہے اور آخرت آنے والی ہے، ان دونوں میں سے ہر ایک کے بیٹے ہیں۔ پس تم آخرت کے بیٹے بنو اور دنیا کے بیٹے نہ بنو۔ بے شک آج عمل کا دن ہے، حساب کا نہیں اور کل حساب کا دن ہو گا ، عمل کا نہیں‘‘ (صحیح بخاری:6417)

مسائل و نصائح:انسان کی عمر محدود اور تمنائیں غیر محدود ہیں (عمدۃ القاری،ج 15، ص 503)۔ انسان مر جاتا ہے مگر اس کی آرزوئیں ختم نہیں ہوتیں(نزھۃ القاری، ج5، ص647)۔ امید شیطان کا حربہ ہے، وہ اس کے ذریعے انسان کی توجہ اللہ تعالیٰ سے ہٹا کر دنیا کی طرف مبذول کروا دیتا ہے اور انسان کادین برباد کرنے کی کوشش کرتا ہے(ایضاً)۔ لمبی امید دھوکے کا نام ہے (البقرہ: 96)۔اس آدمی پرتعجب ہے جوفانی دنیا میں الجھ جائے اور باقی رہنے والی آخرت کی فکرنہ کرے(ایضاً)۔امیدوں کاکم ہونا دل کو روشن کرتاہے، اس سے موت کی تیاری پردل اللہ کی اطاعت کی طرف جھکتا ہے(فتح الباری، ج3، ص348)۔انسان کی خواہشات کبھی پوری نہیں ہو سکتیں (صحیح بخاری:6436)۔

 ارشادات ربانی

(1) ’’اور جوشخص اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرتارہا،اور اپنے نفس کو  خواہشات و شہوات سے باز رکھا تو بیشک جنت ہی اس کا ٹھکانہ ہے‘‘ (النازعات: 40-41)۔  

(2)’’کیا آپ نے اس شخص کودیکھا جس نے اپنی (نفسانی )خواہش کواپناخدا بنارکھا ہے اور اللہ نے اسے گمراہ ٹھہرادیاہے۔( الجاثیہ: 23)

بندہ کیلئے ہمیشہ دودعوتیں ہوتی ہیں، ایک عقل، دوسری نفس کی طرف سے۔جوعقل کی دعوت قبول کرکے اس کاپیروکارہوگیاوہ ایماندار ہو گیا۔ جو نفس کی دعوت قبول کرکے اس کا تابع فرمان ہوگیا وہ گمراہی اور کفر میں پڑگیا۔بندہ کو اس کے ارتکاب سے روکا گیا ہے۔ ( کشف ال محجوب، ص 185)۔

سبق:یعنی افسوس ہے اس شخص پرجس نے حق تعالیٰ کے علاوہ اپنی خواہش کواپنا معبود بنا کر، رات دن اپنی طاقتیں اس کوحاصل کرنے میں صرف کر دیں۔(ایضاً)

اللہ تعالیٰ نے انسان کو جن بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے زبان ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ زبان قلوب و اذہان کی ترجمان ہے۔ اس کا صحیح استعمال ذریعہ حصول ثواب اور غلط استعمال وعید عذاب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ احادیث میں ’’اصلاحِ زبان‘‘ کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ’’مجھے اپنی امت پرجس چیزکاسب سے زیادہ خوف ہے وہ زبان ہے‘‘(کشف ال محجوب، ص309)۔

مومن کی شان

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ بھلائی کی بات کہے ورنہ خاموش رہے‘‘(صحیح بخاری: 6018)   اہل ایمان کی گفتگو بہترین اور پر تاثیر ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ فضولیات سے احتراز کرتے ہیں۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’فضول باتوں کو چھوڑدینا، آدمی کے اسلام کی اچھائی کی دلیل ہے‘‘ (مؤطاامام مالک: 1737)۔

بہترین مسلمان

سیدنا ابو موسی ؓفرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! مسلمانوں میں سے کون افضل ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا: جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں (صحیح بخاری: 11)۔

جنت کی ضمانت

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کی ضمانت دے تو میں اس کیلئے جنت کی ضمانت دیتا ہوں‘‘(صحیح بخاری: 6474)۔

جس طرح زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے کی بنا پر جنت کی بشارت دی گئی ہے ایسے ہی ان دونوں کی حفاظت میں کوتاہی کرنے والوں کیلئے تنبیہ بلیغ ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ لوگوں کو کثرت کے ساتھ کون سی چیز جہنم میں داخل کرے گی؟ وہ دو کھوکھلی چیزیں، زبان اور شرمگاہ ہیں۔ (سنن ترمذی: 2004)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’بندہ بعض اوقات  ایسی بات کہہ دیتا ہے جس کا نقصان نہیں سمجھتا اور اس کی وجہ سے دوزخ میں اس قدر اتر جاتا ہے جس قدر کہ مشرق و مغرب کے درمیان فاصلہ ہے‘‘(صحیح بخاری :6477)

مسائل ونصائح: بات کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے۔ بغیر تفکر و تدبر کے کی ہوئی بات سے بعض دفعہ بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ (عمدۃ القاری ، ج15 ،ص553)۔ کسی لفظ کو زبان پر لانے سے پہلے عواقب پر غورو فکر کرنا چاہے۔ جس بات سے نقصان ہو وہ نہ کرنا بہتر ہے۔ (ایضاً)۔ زبان کی حفاظت کرنی چاہیے۔ (فتح الباری ، ج11، ص 309)۔ اسلام میں فحش اور برائی والا کلام جائز نہیں ہے (ایضاً، ص311)۔ انسان جس کلام کے حسن وقباحت سے واقف نہ ہو اسے زبان پر نہ لائے۔ (ایضاً)۔زبان سے اچھی بات کہنا بھی صدقہ ہے (صحیح مسلم: 2349)۔’’جس کواللہ تعالیٰ نے زبان کی برائی سے بچا لیا وہ جنت میں جائے گا‘‘(جامع ترمذی:2409)۔ ’’انسان کی سلامتی زبان کی سلامتی میں ہے‘‘ (جامع ترمذی: 2406)

ایک حکایت میں ہے کہ ایک روز حضرت ابوبکر شبلیؒ بغداد سے کرخ تشریف لے گئے۔ انہوں نے ایک مدعی کویہ کہتے سنا ’’خاموشی کلام سے بہتر ہے‘‘۔ شبلیؒ نے فرمایا تیری خاموشی تیرے کلام سے بہتر ہے اور میرا کلام میری خاموشی سے بہتر ہے۔تیرا کلام لغو اور تیرا سکوت ھزل ہے جبکہ میرا کلام میرے سکوت سے بہتر ہے کیونکہ میری خاموشی حلم ہے اور میرا کلام علم ہے۔ (کشف ال محجوب،ص311)

سبق:کلام دوطرح کا ہوتا ہے اور خاموشی بھی دوطرح کی ہوتی ہے۔ایک کلام حق اور ایک کلام باطل۔اسی طرح ایک سکوت مقصود و مشاہدہ کے حاصل ہونے کے بعد اور ایک غفلت کی بناء پر۔لہٰذاہرشخص بولنے اور خاموش رہنے کی حالت میں اپنے گریبان میں منہ ڈال کرغورکرے۔اگراس کابولنا حق ہے تواس کا بولنا اس کی خاموشی سے بہتر اور اگراس کابولناباطل ہے تو اس کی خاموشی بولنے سے بہتر ہے اور اگر خاموشی حجاب و غفلت کی بناء پر ہو تو بولنا خاموشی سے بہترہے۔( کشف ال محجوب ،ص277)۔

معاشرتی بھلائی قرآن کی رشنی میں

(1) ’’اور اس سے زیادہ اچھی بات والا کون ہو سکتاہے جواللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے بیشک میں (اللہ اور رسول اللہﷺ)کے متبعین میں سے ہوں (حٰم السجدہ: 33)۔ 

(2) ’’اچھی بات کہنااور درگزرکرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد ستانا ہو‘‘ (البقرہ: 263)۔ 

(3)’’تم کہوکہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر جوہماری طرف اتارا گیا‘‘ (البقرہ:  136)

مہمان کی عزت وتکریم

مہمانوں کی عزت و تکریم اور خاطرتواضع اسلامی معاشرے کی اعلیٰ تہذیب اور بلندیِ اخلاق کی روشن علامت ہے۔ اسلام نے مہمان نوازی کی بہت ترغیب دلائی ہے۔ حدیث مبارکہ ہے ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے مہمان کی تکریم کرنی چاہئے (صحیح مسلم :281)۔

نبی کریمﷺ خود مہمانوں کی خاطرداری فرماتے تھے اور گھر میں کچھ نہ ہوتا تو اس کیلئے قرض لے لینا بھی ثابت ہے ۔حضرت سیّدناابورافع ؓ کا بیان ہے:ایک بار بارگاہِ رسالت میں ایک مہمان حاضر ہوا، آپﷺ نے مجھے ایک یہودی سے اْدھار غلہ لینے کیلئے بھیجا مگر یہودی نے رہن کے بغیر آٹا نہ دیا تو آپ ﷺ نے اپنی زرہ گروی رکھ کر ادھار غلہ لیا۔ (مسند البزار، حدیث: 3863)

نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لاتا ہے، اسے مہمان کی تکریم کرنی چاہئے اور اس کا حق ادا کرنا چاہئے۔ پوچھا گیا: اور اس کا حق کیا ہے؟ فرمایا: ایک دن اور ایک رات، ضیافت تین دن کیلئے ہے، اس کے بعد صدقہ و خیرات ہے (صحیح بخاری: 5361)۔

4۔حضرت ابوشریح خزاعی ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے فرمایا:کسی مسلمان کیلئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کے پاس (اتنا زیادہ) ٹھہرے حتی کہ اسے گنہگار کر دے۔ صحابہؓ نے پوچھا: یا رسول اللہﷺ! اس کو گنہگار کیسے کرے گا؟ آپﷺ نے فرمایا: اس کے پاس ٹھہرا رہے اور اس کے پاس کوئی چیز نہ رہے جس کے ساتھ وہ اس کی مہمان نوازی کرے(صحیح مسلم:1727)۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے روز مہمان کو پرتکلف کھانا کھلایا جائے، میزبان اپنے معمول کے کھانے سے زیادہ اچھا کھانا پیش کرے۔ اس کے بعد دو دن تک اسے اپنے جیسا کھانا کھلائے، اور اگر مہمان اس سے زیادہ قیام کرے گا تو وہ خرچ اس کے حق میں صدقہ شمار ہو گا۔

مہمان نوازی کا اصل مقصد پیٹ بھرنا نہیں بلکہ ایک دوسرے سے انسیت پیدا کرنا ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسے شریعت میں نماز با جماعت کو اکیلے شخص کی نماز پر فضیلت دی گئی ہے۔ ضیافت کا دوسرا فائدہ اسلامی آداب سیکھنے کا نادر موقع ہے جو میزبان اور مہمان دونوں سے متعلق ہیں۔مہمان نوازی کے آداب کا خیال رکھا جائے تو وہ میزبان پر بوجھ نہیں ہوتی۔

مہمان نوازی کے فوائد

مہمان نوازی سے مہمان کے دل میں میزبان کی عزت  اور محبت بڑھتی ہے، آپس کے تعلّقات مضبوط ہوتے ہیں، رنجِشیں دور ہوتی ہیں، رب تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں، رزق میں برکت ہوتی ہے، بندہ  مؤمن کے دل میں خوشی داخل کرکے میزبان کو ثواب کمانے کے مواقع میسر آتے ہیں۔ افسوس کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں مہمان نوازی کی قدریں دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ گھر میں بطورِ مہمان قیام زحمت سمجھا جانے لگا ہے اور ایسے مہمانوں کیلئے گھروں کے دستر خوان سکڑ گئے ہیں۔ ایک وہ دور تھا کہ جب لوگ مہمان کی آمد کو باعث برکت سمجھتے اور مہمان نوازی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کیلئے بے تاب نظر آتے تھے۔ آج کے دور میں مہمان کو وبالِ جان سمجھ کر مہمان نوازی سے دامن چھڑاتے ہیں۔ اگر کسی کی مہمان نوازی کرتے بھی ہیں تو اسی کی جس سے دنیَوی مفاد وابستہ ہوتا ہے۔ مہمان نوازی بہت بڑی سعادت ہے۔ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے:’’جس نے نماز قائم کی، زکوٰۃ ادا کی)،حج کیا، رمضان کے روزے رکھے اور مہمان نوازی کی وہ جنت میں داخل ہو گا ‘‘ (معجمِ کبیر : 12692 )۔

مسائل ونصائح:مہمان کاعزت واحترام کرنا دینی، ملی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ نبی کریم ﷺ مہمان کیلئے خاص اہتمام فرماتے اور ان کیلئے اپنی چادر بچھاتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے (بیہقی، ج8، ص167)۔ مہمان نوازی اچھے طریقہ پرکرنا انبیاء علیہم السلام کا طریقہ ہے (الحجر: 51)۔مہمانوں سے بدسلوکی کرنا خدا کے غضب کودعوت دیناہے (القمر:37)۔ مہمان کے سامنے میزبان سے بھی بد سلوکی نہ کی جائے (ہود: 78)۔ مہمان کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنے پر اللہ تعالیٰ خوش ہوتاہے اور اس سے ناراضی کے اظہار پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔ (مستدرک حاکم: 6292) ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

26ویں آئینی ترمیم کے بعد۔۔۔

بالآخر26ویں آئینی ترمیم منظور ہو گئی‘ جس کی منظوری کے بعد اس پر عملدرآمد بھی ہو گیا۔ ترمیم منظور ہونے کے بعد ایک غیریقینی صورتحال کا خاتمہ ہوا اور ملک میں ایک نیا عدالتی نظام قائم کر دیا گیا جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے بڑے اور اہم اختیارات تقسیم کر دیے گئے ہیں۔ آئینی ترمیم کا عمل حیران کن طور پر خوش اسلوبی سے مکمل ہو گیا۔

آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج،بے وقت کی را گنی وکلا ءکا ردعمل کیا ہو گا؟

چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب پر جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی کے عمل کے بعد ملک کے سیاسی محاذ پر ٹھہرائو کے امکانات روشن ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے عمل کو ملک میں ترقی، خوشحالی اور سیاسی و معاشی استحکام کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس عمل سے عوام کیلئے عدل و انصاف کے دروازے کھلیں گے اور ملک آگے کی طرف چلے گا۔

سیاست سے انتقام ختم کریں؟

ملک بھر کے میڈیا پر آج کل صرف ایک ہی خبر اہم ترین ہے اور وہ ہے 26 ویں آئینی ترمیم کے مثبت اور منفی اثرات۔لیکن محلاتی سازشیں ہوں یا چاہے کچھ بھی ہورہا ہو، عوام کا اصل مسئلہ تو یہی ہے کہ انہیں کیا مل رہا ہے۔

پولیس ایکٹ میں تبدیلی سیاسی مداخلت نہیں؟

پاکستان تحریک انصاف مسلم لیگ( ن) پر’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے کو تبدیل کرنے کا الزام لگاتی ہے لیکن خود پی ٹی آئی نے جس طرح یوٹرن لیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔بانی پی ٹی آئی کے نظریے کے برعکس خیبرپختونخوا حکومت نے محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت کی راہ ہموار کردی ہے۔ پولیس ایکٹ 2017ء میں خیبرپختونخوا پولیس کو غیر سیاسی بنانے کیلئے قانون سازی کی گئی تھی اور وزیراعلیٰ سے تبادلوں اورتعیناتیوں سمیت متعدد اختیارات لے کر آئی جی کو سونپ دیئے گئے تھے۔

26ویں آئینی ترمیم،ملا جلا ردعمل

26ویں آئینی ترمیم کو جہاں سیا سی عمائدین پاکستان کے عدالتی نظام میں احتساب اور کارکردگی کو بہتر بنا نے کیلئے ضروری قرار دیتے ہیں وہیں کچھ سیا سی جماعتیں اور وکلاتنظیمیں آئینی ترمیم کوعدالتی آزادی اور قانون کی حکمرانی پر قدغن سمجھتی ہیں۔

وزیراعظم کا انتخاب،معاملہ ہائیکورٹ میں

آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے چوہدری انوار الحق کے بطور وزیر اعظم انتخاب کے خلاف درخواست پر لار جر بنچ تشکیل دے دیا ہے۔ وزیر اعظم کے انتخاب کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے رکن قانون ساز اسمبلی فاروق حیدر کے وکلا نے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی۔