ہمدردی
سکندر پور گاؤں کا پرائمری سکول ہر وقت بچوں کی شرارتوں سے گونجتا رہتا تھا۔ بچے ابھی چھوٹے تھے تو استاد صاحب زیادہ سختی نہیں کرتے تھے بلکہ بچوں کے ساتھ مختلف قسم کے کھیل کھیلتے تھے۔
ایک دن استاد صاحب ایک خوبصورت ڈبہ لے آئے جس میں کوئی چیز بند تھی۔
استاد صاحب نے ڈبہ بچوں کو دکھایا، بچوں کو یہ ڈبہ بہت پسند آیا، بچوں نے اصرار کیا کہ انہیں ڈبہ کھول کر دکھایا جائے۔
استاد صاحب نے ڈبہ کھولا تو اس میں سے ایک خوبصورت کھلونا نکلا۔ سب بچوں کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔
استاد صاحب نے بچوں سے پوچھا کہ کیا ان میں سے کوئی یہ ڈبہ خوبصورت کھلونے کے ساتھ لینا چاہتا ہے۔ سب کا جواب ہاں میں تھا۔
استاد صاحب نے کہا کہ یہ صرف اس بچے کو ملے گا جو کل صبح اس گاؤں کی کوئی اچھی سی چیز لائے گا۔
دوسرے دن سب بچے بڑی خوشی کے ساتھ سکول آئے اور ان میں سے ہر بچہ گاؤں سے کوئی نہ کوئی چیز لے کر آیا تھا اور ہر ایک کی خواہش یہی تھی کہ وہ اس خوبصورت تحفے کو حاصل کرے۔
استاد صاحب نے سب بچوں کی لائی ہوئی چیزیں دیکھیں جن میں خوبصورت سا پتھر ، چمکدار موتی ، رنگ برنگی سپی، چاندی کا ٹکڑا وغیرہ شامل تھا۔ استاد صاحب نے تمام بچوں پر ایک نگاہ ڈالی اور کہا جمشید نہیں آیا۔ اس کے آنے پر ہی فیصلہ ہوگا۔
اتنے میں جمشید دوڑتا ہوا کلاس میں داخل ہوا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے ایک معصوم فاختہ کو اپنے سینے سے لگا رکھا تھا۔ جس کے پروں پر خون کے قطرے تھے اور اس کا دایاں بازو بھی ٹوٹا ہوا تھا۔
جمشید نے استاد صاحب اور ہم جماعتوں کے سامنے سارا واقعہ بیان کیا کہ کیسے چند شریر لڑکے اس بے چاری فاختہ کو غلیل سے پتھر مار رہے تھے۔ وہ زخمی فاختہ کو تڑپتے ہوئے نہ دیکھ سکا اور اسے زخموں پر مرہم لگانے کیلئے لے آیا۔
جیسے ہی جمشید نے بات ختم کی تو فاختہ نے اپنی سیاہی مائل چونچ دھیرے سے کھولی اور اپنی آنکھیں بند کر لیں اور اس کا سر ایک جانب کو ڈھلک گیا۔
یہ دیکھتے ہی جمشید کی آنکھوں سے آنسو کے دو شفاف قطرے اس بے جان فاختہ پر گرے اور موتیوں کی طرح چمکنے لگے۔ جمشید نے ایک آہ بھرتے ہوئے کہا : افسوس ! یہ مر گئی۔
سب بچے خاموش تھے۔
استاد صاحب نے بچوں کی طرف دیکھ کر کہا کہ پیارے بچو! جمشید کے اس جذبہ ہمدردی سے بڑھ کر کوئی اور چیز خوبصورت نہیں ہو سکتی۔ یہ کہہ کر استاد صاحب نے جمشید کو گلے سے لگا لیا اور خوبصورت کھلونے والا ڈبہ جمشید کو دے دیا۔