ہمدردی

تحریر : دانیال حسن چغتائی


سکندر پور گاؤں کا پرائمری سکول ہر وقت بچوں کی شرارتوں سے گونجتا رہتا تھا۔ بچے ابھی چھوٹے تھے تو استاد صاحب زیادہ سختی نہیں کرتے تھے بلکہ بچوں کے ساتھ مختلف قسم کے کھیل کھیلتے تھے۔

ایک دن استاد صاحب ایک خوبصورت ڈبہ لے آئے جس میں کوئی چیز بند تھی۔

استاد صاحب نے ڈبہ بچوں کو دکھایا، بچوں کو یہ ڈبہ بہت پسند آیا، بچوں نے اصرار کیا کہ انہیں ڈبہ کھول کر دکھایا جائے۔

 استاد صاحب نے ڈبہ کھولا تو اس میں سے ایک خوبصورت کھلونا نکلا۔ سب بچوں کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔

 استاد صاحب نے بچوں سے پوچھا کہ کیا ان میں سے کوئی یہ ڈبہ خوبصورت کھلونے کے ساتھ لینا چاہتا ہے۔ سب کا جواب ہاں میں تھا۔ 

استاد صاحب نے کہا کہ یہ صرف اس بچے کو ملے گا جو کل صبح اس گاؤں کی کوئی اچھی سی چیز لائے گا۔

دوسرے دن سب بچے بڑی خوشی کے ساتھ سکول آئے اور ان میں سے ہر بچہ گاؤں سے کوئی نہ کوئی چیز لے کر آیا تھا اور ہر ایک کی خواہش یہی تھی کہ وہ اس خوبصورت تحفے کو حاصل کرے۔ 

استاد صاحب نے سب بچوں کی لائی ہوئی چیزیں دیکھیں جن میں خوبصورت سا پتھر ، چمکدار موتی ، رنگ برنگی سپی، چاندی کا ٹکڑا وغیرہ شامل تھا۔ استاد صاحب نے تمام بچوں پر ایک نگاہ ڈالی اور کہا جمشید نہیں آیا۔ اس کے آنے پر ہی فیصلہ ہوگا۔

 اتنے میں جمشید دوڑتا ہوا کلاس میں داخل ہوا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے ایک معصوم فاختہ کو اپنے سینے سے لگا رکھا تھا۔ جس کے پروں پر خون کے قطرے تھے اور اس کا دایاں بازو بھی ٹوٹا ہوا تھا۔ 

جمشید نے استاد صاحب اور ہم جماعتوں کے سامنے سارا واقعہ بیان کیا کہ کیسے چند شریر لڑکے اس بے چاری فاختہ کو غلیل سے پتھر مار رہے تھے۔ وہ زخمی فاختہ کو تڑپتے ہوئے نہ دیکھ سکا اور اسے زخموں پر مرہم لگانے کیلئے لے آیا۔ 

جیسے ہی جمشید نے بات ختم کی تو فاختہ نے اپنی سیاہی مائل چونچ دھیرے سے کھولی اور اپنی آنکھیں بند کر لیں اور اس کا سر ایک جانب کو ڈھلک گیا۔

 یہ دیکھتے ہی جمشید کی آنکھوں سے آنسو کے دو شفاف قطرے اس بے جان فاختہ پر گرے اور موتیوں کی طرح چمکنے لگے۔ جمشید نے ایک آہ بھرتے ہوئے کہا : افسوس ! یہ مر گئی۔ 

سب بچے خاموش تھے۔

 استاد صاحب نے بچوں کی طرف دیکھ کر کہا کہ پیارے بچو! جمشید کے اس جذبہ ہمدردی سے بڑھ کر کوئی اور چیز خوبصورت نہیں ہو سکتی۔ یہ کہہ کر استاد صاحب نے جمشید کو گلے سے لگا لیا اور خوبصورت کھلونے والا ڈبہ جمشید کو دے دیا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔