شرارتی بندراور شریف مگر مچھ
ایک دفعہ کا ذکرہے کہ ایک بہت بڑا جنگل جو کہ بہت خوبصورت تھا ، اس کے ہر طرف ہری ہری گھاس تھی اور جنگل میں ہر طرف خوبصورت ناریل کے درخت تھے۔
سردیوں کے دن تھے اور آپ تو جانتے ہیں کہ سردیوں کے موسم میں ناریل لگتے ہیں۔ جنگل میں ہر طرف بہت ٹھنڈ تھی۔ اسی لیے جنگل کے سب ہی جانور بہت کم ہی گھروں سے نکلتے تھے۔
جنگل میں بہت دور ایک بہت بڑا سمندر تھا وہ سمندر بہت صاف و شفاف تھا۔ جنگل کے سب ہی جانور اس سمندر سے پانی پیتے تھے۔ سمندر کے پاس ہی ایک بہت بڑا ناریل کا گھنا درخت تھا۔ اس درخت کے نیچے ایک مگرمچھ سویاہوا تھا۔ وہ مگر مچھ بہت شریف تھا ہر کسی کی مدد کرتا تھا۔ جنگل کے سب ہی جانور مگرمچھ سے بہت خوش تھے۔
جس درخت کے نیچے مگرمچھ سویا ہوا تھا اس درخت کے اوپر ایک شرارتی بندر رہتا تھا۔ اس نے مگرمچھ کو سویا دیکھا تو اس کو ایک شرارت سوجھی، درخت پر بہت سارے ناریل لگے ہوئے تھے۔ اس نے ایک ناریل توڑا اور مگرمچھ کے سر پر مارا۔ مگرمچھ کی آنکھ کھل گئی۔ ناریل مگرمچھ کے سر پر بہت زور سے لگا تھا اس وجہ سے مگرمچھ کی چیخیں نکل گئیں۔
وہ بولا ہائے میرے سر پر یہ ناریل کس نے پھینکا اوپر بندر کا ہنس ہنس کر برا حال ہوگیا تھا مگرمچھ نے اوپر دیکھا تو اسے بندر ہنستا نظر آیا۔ مگرمچھ بندر کی اس حرکت پر بہت ناراض ہوا، پر مگر مچھ نے بندر کو کچھ نہ کہا کیونکہ وہ ایک شریف مگرمچھ تھا۔
مگر مچھ چپ چاپ سمندر میں چلا گیا اوپر بندر کو مگرمچھ کو تنگ کر کے بہت مزہ آیا۔ اب وہ ہر روز کسی نہ کسی جانور کو تنگ کرنے لگا۔ جنگل کے سارے جانور بندر کی اس حرکت سے بہت تنگ آگئے تھے۔ انھوں نے مگرمچھ سے بھی بات کی اور کہا کے ہمیں بندر کو اس کی حرکت کی سزا دینی چاہیے، تاکہ وہ دوبارہ ہمیں تنگ نہ کرے۔ مگرمچھ نے سب جانوروں کو کہا کے ہمیں بندر کو پیار اور نرمی سے سمجھانا چاہیے۔
سارے جانوروں میں سے ایک لومڑی بولی کے ہم نے بندر کو بہت سمجھایا پر بندر پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اگر آپ کچھ کر سکتے ہیں تو جلدی کریں ہم اور برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ کہہ کر باقی سب جانور واپس چلے گئے اور مگرمچھ بھی واپس چلا اور سوچنے لگا کہ بندرکو کس طرح سمجھائے۔
ادھر بندر بہت مزے سے پورے جنگل میں پھر رہا تھا کہ اُسے پیاس لگی تو وہ سمندر پر پانی پینے چلا گیا۔ ابھی وہ سمندر سے پانی پی ہی رہا تھا تو اسے اپنے پیچھے کچھ محسوس ہوا،اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو خوف کے مارے اُس کی چیخیں نکل گئیں، کیوں کہ اس کے پیچھے ایک بہت بڑا اژدھا تھا۔
وہ اژدھے کو دیکھ کر بہت ڈر گیا اور بھاگنے لگا اژدھا بہت بھوکا تھا اس لیے وہ بندر کے پیچھے بھاگنے لگا۔ بندر زور زور سے چلانے لگا۔ بندر کی آواز سن کر مگر مچھ پانی سے باہر آگیا اور اژدھے سے لڑنے لگا۔ آخر کار اس لڑائی میں مگرمچھ جیت گیا اور اس نے اژدھے کو مار ڈالا۔
یہ دیکھ کر بندر بہت حیران ہوا اور مگر مچھ سے کہا میں تو تم کو بہت تنگ کر تا تھا تو تم نے میری جان کیوں بچائی۔
مگرمچھ بولا کیوں کہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں میں ایک شریف مگرمچھ ہوں، ہر کسی کی مدد کرنا چاہتا ہوں، وہ بڑا ہویا چھوٹا ہو ۔ میرا تو فرض ہے میں ہر کسی کی مدد کروں۔ اگر ہم ایک دوسرے کو تنگ کریں تو مشکل وقت میں ہمارا ساتھ کوئی نہ دے گا ۔ آج میں نے تمہاری جان بچائی ہے لیکن اگر تم نے اپنی حرکت بند نہ کی تو تمہارا ساتھ کوئی نہیں دے گا۔
یہ سن کر بندر بہت شرمندہ ہوا اُس نے مگرمچھ سے معافی مانگی اور کہا کہ میں آئندہ کبھی کسی کو تنگ نہیں کروں گا۔
مگرمچھ یہ سن کر بہت خوش ہوا کہ آخر کار بندر کو اپنی نرمی اور پیار سے بدل دیا۔
اب سب جانور بھی بہت خوش تھے اور اب بندر اور مگرمچھ ایک دوسرے کے بہت اچھے دوست بن گئے تھے۔ اب وہ دونوں ہر روز سمندر کے کنارے کھیلتے اور ایک دوسرے سے باتیں کرتے وہ دونوں اب بہت خوش تھے ۔